اردو غزل تحسین و تدریس

غزل کی تحسین و تدریس کے مسائل ایک سے ہیں۔ غزل کی تحسین کے لیے جن امور سے آگہی ضروری ہے غزل کی تدریس میں بھی انہیں امور سے طالب علم کو واقف کرانا ہوگا۔
غزل کے لغوی معنی: ایک مفہوم یہ ہے کہ عورت سے ہم کلام ہونا یا عورت کے بارے میں گفتگو کرنا۔ غزل کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے کہ کسی ہرن کو شکاری کتے گھیر لیتے ہیں تو اس کے حلق سے ایک عجیب سی آواز نکلتی ہے جس میں خوفزدگی اور خوف کی کیفیت ہوتی ہے۔ اس آواز کو ”غزل الکلب“ کہتے ہیں۔

عشقیہ غزل میں شاعر کبھی اپنی محبوبہ سے ہمکلام ہوتا اور کبھی صیغہ غائب میں اس کا ذکر کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں محبوب کے حسن، اس کے خدوخال اور اداؤں کی تعریف و توصیف ہوتی ہے یا معاملات عشق کا بیان ہوتا ہے۔

لیکن غزل میں صرف عشق کے مضامین ہی نہیں ہوتے۔ عشق کے علاوہ حیات و کائنات سے تعلق رکھنے والی کوئی بات بھی غزل کے شعر کا موضوع ہو سکتی ہے۔

غزل کی صنف پہلے فارسی میں رائج ہوئی لیکن اس کا ماخذ عربی قصیدہ ہے۔ قصیدہ میں عشقیہ تشبیب کو غزل کہا جاتا تھا جس میں بالعموم محبوب کا سراپا بیان کیا جاتا ہے اور اس کے حسن کی تعریف کی جاتی تھی۔ایرانی شعرا نے اس تشبیب کو قصیدہ سے الگ کرکے ایک مستقل صنف ایجاد کی۔ نویں صدی عیسوی میں فارسی میں غزل گوئی کا آغاز ہوا۔ دسویں صدی کے نصف اول میں رودکی نے اس صنف کو فروغ دیا اور غزل کا دیوان مرتب کیا۔ رودکی کے بعد غزل مسلسل ترقی کرتی گئی اور اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ عشق مجازی کے ساتھ تصوف اور اخلاق کے مضامین غزل میں داخل ہوئے۔

اردو میں غزل گوئی کی ابتدا امیر خسرو سے ہوئی لیکن دکنی شاعروں نے اس صنف کو پروان چڑھایا۔ دکن میں ہندی عروض کی جگہ فارسی عروض نے لے لی اور راگ راگنیوں پر مبنی اصناف کی جگہ فارسی شاعری کی اصناف نے لے لی جن میں غزل کی صنف بھی شامل ہے۔

اردو غزل نے امیر خسرو سے لے کر دور حاضر تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ اس کے اسالیب اور موضوعات میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ دکنی شعرا نے غزل کا سانچہ فارسی شاعری سے لیا لیکن فارسی کی پیروی بہت کم کی۔ انہوں نے فارسی غزل کے مانوس استعاروں اور تشبیہوں سے کام لینے کی بجائے نئے استعارے وضع کیے اور تشبیہ نگاری کے لیے دکن کے مناظر فطرت، بنی معاشرت اور اردگرد کے ماحول سے مواد اخذ کیا۔ دکنی غزل کی عشقیہ شاعری میں محبوبہ دکنی عورت ہے اور عاشق بھی دکنی مرد ہے۔ اس شاعری میں حسن کی سچی تصویر کشی اور عشق کے حقیقی جذبات کا اظہار ہوا ہے۔

عشق کے علاوہ دکنی شعرا نے تصوف اور اخلاق کے مضامین بھی باندھے۔ دکنی غزل میں سادگی، روانی اور بے ساختگی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ دکن کے غزل گو شعرا نے فنی نزاکتوں کو بھی ملحوظ رکھا۔ انہوں نے استعارہ، کنایہ اور تشبیہ کے علاوہ صنائع بدائع سے بھی کام لیا لیکن اس طرح نہیں کہ کلام میں تصنع ابھر آئے۔ دکنی شعراء نے مسلسل غزل کی روایت ڈالی جو بعد کے دور کی شاعری میں قائم نہ رہ سکی۔ اکا دکا شاعروں کے یہاں چند ایک مسلسل غزلیں مل جاتی ہیں۔ اقبال نے اس روایت کا احیا کیا اور جدید دور کے بعض شعرا نے اسے پروان چڑھایا۔ قدیم دکنی غزل میں محبوبہ لازماً عورت ہوتی تھی خواہ اس کے لئے تذکیر کا صیغہ ہی کیوں نہ لایا گیا ہو۔ دکنی شعراء نے محبوبہ کے لیے صیغہ تانیث بھی استعمال کیا ہے۔ ولی اور سراج تک پہنچتے پہنچتے امرد پرستی کا رجحان غزل میں در آیا۔
قدیم دکنی غزل کا نمونہ ذیل میں پیش ہے:

تج کیس گھنگرو والے بادل پیاں ہے کالے
تس مانگ کے اجالے بجلیاں اٹھیاں لگن میں

﴿ملا خیالی﴾

نین تجھ مد بھرے دیکھت نظر میانے اثر آوے
ادھر کے یاد کرنے میں زبان اوپر شکر آوے

﴿مشاق﴾

طاقت نہیں دوری کی اب توں بیگ آمل رے پیا
تجھ بن منجے جینا بہوت ہوتا ہے مشکل رے پیا

﴿وجہی﴾

ولی کی شاعری میں بہ روایت کچھ دیر تک چلتی ہے جہاں ولی کی غزل میں اس طرح کے شعر ملتے ہیں۔

مت عصے کے شعلے سوں جلتے کو جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں توں آگ بجھائی جا

دل کو گر مرتبہ ہے درپن کا
مفت ہے دیکھنا سریجن کا

لیکن آگے چل کر ولی کی زبان اور پیرایۂ اظہار میں تبدیلی رونما ہوئی۔شاید یہ سفر دہلی اور شاہ سعد اللہ گلشن کے مشورے سے فارسی غزل کے مطالعے کا اثر تھا۔ ولی نے فارسی غزل کی روایت کو اپنالیا۔ چناچہ انہوں نے فارسی لفظیات بھی اپنا لی۔ ولی کی غزلیہ شاعری میں ایسے بہت سے شعر مل جاتے ہیں:

عیاں ہے ہرطرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر از دیدۂ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

زندگی جام عیش ہے لیکن
فائدہ کیا اگر مدام نہیں

شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا

سراج اورنگ آبادی کی شاعری میں دکنیت اور فارسیت کے دونوں رنگ الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی مشہور غزل کے یہ شعر ملاحظہ ہوں جو فارسی روایت میں ڈوبی ہوئی ہے۔

خبر تحیر عشق سوں نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو ہری رہی

اور یہ اشعار قدیم دکنی غزل کی روایت سے قریب ہیں:

تصور تجھ بھواں کا اے صنم ، سمرن ہوا من کا
سدا دیول کی پوجا کا کام ہے ہر یک برہمن کا

نین کی پتلی میں اے سریجن ترا مبارک مقام دستا
پلک کے پٹ کھول کر جو دیکھوں تو مجھ کو ماہ تمام دستا

ولی کے اثر سے جب دہلی میں اردو شاعری کا چرچا ہوا تو وہاں کے فارسی گو شاعر ولی کی تقلید میں ریختہ کہنے لگے۔ ان کے کلام میں دکنی کے بہت سے لفظ ملتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انہوں نے دکنی کے سنسکرت سے ماخوذ ہندی لفظوں اور محاوروں کی جگہ فارسی کے الفاظ اور فارسی محاوروں کے ترجمے زبان میں داخل کر دیئے۔مورخین ادب نے اسے اصلاح زبان کی تحریک کا نام دیا۔

دہلی میں اردو شاعری کے پہلے دور میں ﴿آبرو، آرزو، ناجی۔، یکرنگ، حاتم وغیرہ﴾ غزل میں ایہام گوئی کا رواج ہوا۔ایہام ایک صنعت ہے اس سے مراد شعر میں ایسا لفظ لایا جائے جس کے دو یا دو سے زیادہ معانی ہوں، شعر پڑھ کر ذہن معنی قریب کی طرف جائے لیکن غور کرنے پر اس کے دوسرے اصل معنی پر توجہ مرکوز ہو۔ ایہام کی چند مثالیں:

نہ لیوے لے کے دل وہ جعد مشکیں
اگر باور نہیں تو مانگ دیکھو

اس شعر میں ”مانگ“ ذو معنی ہے۔ مانگ= مانگنا، طلب کرنا۔ دوسرے وہ مانگ جو بالوں میں ہوتی ہے۔

دہلی کے شعرا نے فارسی غزل کی قدم بقدم پیروی کی۔ فارسی کا سارا استعاراتی نظام اردو میں منتقل کیا اس کی وجہ سے غزل کا وہ ہندوستانی مزاج برقرار نہیں رہا جو دکنی غزل کا وصف خاص تھا۔ غزل پر ایرانی تہذیب کی گہری چھاپ پڑ گئی۔ دہلی میں اردو شاعری کے دوسرے دور میں ﴿میر سودا اور درد وغیرہ﴾ ایہام گوئی کم ہوگی لیکن صنائع کا استعمال فنکارانہ انداز میں ہونے لگا۔ میر نے نکات الشعراء میں اپنے عہد کی غزل کے مختلف اسالیب کی یوں نشاندہی کی ہے۔

1. ایک مصرع فارسی اور ایک مصرعہ ہندی ہو۔
2. آدھا مصرع فارسی اور آدھا ہندی ہو۔
3. حروف اور فعل فارسی لائیں جائیں۔
4. فارسی تراکیب لائیں۔
5. ایہام کا استعمال۔
6. چھٹے اسلوب کو میر نے ”انداز“ کہا ہے۔ یہ اسلوب تمام صنعتوں- تجنیس، ترصیح، تشبیہ، صفائے گفتگو، فصاحت، بلاغت، ادا بندی، خیال وغیرہ پر مشتمل ہے۔ جسے بقول میر خود انہوں نے اختیار کیا ہے۔

اس دور کی اردو غزل میں سراپا نگاری کا رجحان دکنی غزل کے مقابلے میں کم ہو گیا تھا۔ شاعروں نے عشق کے جذبات اور کیفیات کی موثر انداز میں ترجمانی کی۔ اسی کے ساتھ معاملہ بندی کا رجحان بھی فروغ پایا۔ غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوئی۔ حیات و کائنات کے گوناگوں مسائل پر شعرا نے اپنے نتائج فکر کو تجربات و مشاہدات کی آنچ میں تباہ کر شعر کے سانچے میں ڈھالا۔ غزل میں تصوف اور اخلاق کے مضامین بھی باندھے گئے۔ اس دور کی غزلیہ شاعری کے رنگ اور مزاج کا اندازہ ذیل کے اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ جھگڑا حشر تک شیخ و برہمن میں رہا

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا
حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

قسمت تو دیکھو ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا

جو کوئی آوے ہے نزدیک ہی بیٹھے ہے ترے
ہم کہاں تک تیرے پہلو سے سرکتے جائیں

احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے حملوں کے بعد دہلی جب ویران ہو گئی تو وہاں سے شاعری کی بساط الٹ گئی۔ شجاع الدولہ کے عہد میں لکھنؤ میں اردو شاعری کا ایک نیا مرکز ابھرنے لگا تھا آصف الدولہ کے دور میں اسے تقویت حاصل ہوئی۔ دہلی کے کئی شاعر ترک وطن کرکے لکھنؤ چلے آئے۔ ابتداء میں لکھنؤ میں غزل کا وہی انداز برقرار رہا جس کو دہلی کے شعرا نے پروان چڑھایا تھا لیکن آگے چل کر لکھنؤ کے دربار کی عیش پرستی اور رنگ رلیوں نے جو پورے معاشرے پر اثر انداز ہو چکی تھیں، اردو شاعری بالخصوص غزلیہ شاعری کے مزاج کو بدل دیا۔غزل میں خارجیت کا رنگ چڑھ گیا حقیقی عشقیہ جذبات و کیفیات کی ترجمانی کم ہوگی اور معاملات کے اس کو کھل کر بیان کیا جانے لگا۔دہلی کے شعرا نے محبوب کی جنس کو زیادہ تر پردے میں رکھا تھا اس طرح کہ ایک ہی شعر میں عشق مجازی اور عشق حقیقی کا اظہار ممکن ہوگیا، لکھنؤ کے شعرا نے یہ پردہ بھی اٹھا لیا۔انکے اشعار سے صاف ظاہر ہونے لگا کہ محبوب عورت ہے۔ معاملات عشق کے بیان کی سطح بھی پست ہوگئی۔

اس میں کلام نہیں کے بعد شعرا نے رکالت اور ابتزال سے اپنے کلام کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔لکھنو کی غزل میں داخلی جذبات و کیفیات کے اظہار کے بجائے زبان اور فن پر قدرت جتانے کی کوشش ہونے لگی۔ مشکل زمینیں اخترع کی گئیں۔ خاص طور پر ایسی زمینیں جن میں ردیفیں اتنی طویل اور بے ہنگم ہوتی تھیں کہ غزل میں کوئی سلیقے کا مضمون نہیں لکھا جاسکتا تھا۔ صنائع بدائع کا استعمال مقصود ذات بن گیا اور مخص محاورہ بندی کے لیے بھی شعر کہے جانے لگے۔ لفظ پرستی کے رجحان کو ناسخ اور ان کے شاگردوں نے بڑھاوا دیا۔ مصحفی اور انشاء جیسے شعرا کو دربار کے ماحول نے بگاڑ دیا تھا۔ مصحفی کے یہاں پھر بھی عشق کے سچے جذبات کی مملو شاعری کے وافر نمونے مل جاتے ہیں۔ آتش چونکہ دربار سے وابستہ نہیں تھے ان کی شاعری بڑی حد تک ان منفی اثرات سے محفوظ رہی۔ دہلی میں بھی شاہ نصیر جیسے شاعر گزرے ہیں جن کی شاعری بڑی حد تک الفاظ کی کرتب بازی بن کر رہ گئی تھی۔ ذیل میں چند شاعروں کے منتخب شعر پیش کیے جاتے ہیں جن سے لکھنؤ کی غزلیہ شاعری کے رنگ و آہنگ کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

کمال حسن خالق نے دیا ہے اس بری رو کو
نہ چتون کج ہوئی اس کی نہ گانے میں دہن بگڑا

اس کے بدن سے حسن ٹپکتا نہیں تو
لبریز آب و رنگ ہے کیوں پیرہن

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے

ہنسنے والا نہیں ہے رونے پر
ہم کو غربت وطن سے بہتر ہے

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہر ہر قدم پہ پھوٹتے جاتے ہیں آبلے
نقش قدم میں طور ہے چشم پر آب کا

آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہو
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

دہلی جب دوبارہ آباد ہوئی زندگی کی چہل پہل لوٹ کر آئی۔ بہادر شاہ ظفر برائے نام بادشاہ تھے، اصل عمل برداری انگریزوں کی تھی۔ انیسویں صدی کے نصف اول میں اردو شاعری سے دہلی کی فضائیں گونجنے لگیں۔ اس دور میں غالب مومن ذوق جیسے باکمال شاعر غزل کے افق پر نمودار ہوئے۔ ان میں سے ہر شخص کا اپنا ایک جداگانہ طرز تھا۔ غالب نے ابتدا میں بیدل کے طرز کو اپنایا، اس کے علاوہ وہ سبک ہندی کے دیگر شاعروں صائب، غنی وغیرہ سے متاثر تھے۔ان شعرا کے اثرات، طرز اظہار اور اسلوب تک محدود تھے۔ غالب کی زبان فارسی زدہ تھی۔ بعض غزلیں انہوں نے ایسی کہی ہیں جن میں صرف فعل اردو ہے۔ فعل کو فارسی میں بدل دیا جائے تو مکمل شعر فارسی کا ہو جائے جیسے:

شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بردن صد دل پسند آیا

آیا کو آمد سے بدل لیجئے تو شعر فارسی کا ہوجائے گا۔ بعض مخلص احباب کے مشورے سے وہ سادہ گوئی کی طرف مائل ہوئے چنانچہ ایسی غزلیں بھی ان کے دیوان میں ملتی ہیں۔

دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ان امور سے قطع نظر غالب اردو کے عظیم شاعر تھے۔ انہوں نے غزل کو محض عشقیہ جذبات تک محدود نہیں رکھا، اس میں فکر کے عنصر کا اضافہ کیا۔ انہوں نے حیات و کائنات کے بارے میں اپنے افکار کو بڑی گہرائی کے ساتھ مؤثر انداز میں پیش کیا۔معنی آفرینی غالب کی غزل کی اہم خصوصیت ہے۔ غالب اپنے عہد کے جدید شاعر تھے۔ انہوں نے آنے والے دور کے قدموں کی چاپ سن لی تھی یہی سبب ہے کہ ان کی شاعری میں آج کے عہد کی زندگی اور اس کے مسائل کا پرتو بھی جھلکتا ہے۔

مومن خالص عشقیہ شاعر تھے۔ انہوں نے معاملات عشق کو ہمہ رنگ انداز میں پیش کرنے کے ساتھ عشق کی متنوع کیفیات اور جذبات کی منہ بولتی تصویر کشی کی۔ مومن کا اسلوب منفرد تھا۔ غالب کی طرح وہ بھی غزل کے دو مصروں میں ایک وسیع خیال کو پیش کر دیتے تھے۔ ایمائیت ان کے اسلوب کا خاص وصف تھا۔

ذوق، غالب اور مومن سے مختلف طرز کے شاعر تھے۔ انہوں نے خالص اردو کو اظہار کا ذریعہ بنایا، بامحاورہ زبان استعمال کی۔ یقیناً وہ اعلی درجے کی شاعری تھی ان کی فکر زیادہ تر مروجہ اخلاقی اقدار تک محدود رہی اس میں غالب کی سی وسعت اور گہرائی نہ تھی۔ ذیل میں ان تین شعراء کے کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو۔

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
﴿غالب﴾

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی
﴿مومن﴾

گل اس نگہہ کے زخم رسیدوں میں مل گیا
یہ بھی لہو لگا کے شہیدوں میں مل گیا

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
﴿ذوق﴾

غالب، ذوق اور مومن کے بعد اردو غزل کچھ عرصے کے لیے جمود کی سی کیفیت کا شکار رہی۔ اس دور میں اسیر، جلال، تسلیم اور داغ جیسے شاعروں نے غزل کا علم اٹھائے رکھا۔ سرسید کی علی گڑھ تحریک سے اردو ادب کی تمام اصناف میں تبدیلی آ رہی تھی جس کے پیشِ نظر وقت کا اہم تقاضا علم کی ترویج اور معاشرے کی اصلاح تھا۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے حالی اور آزاد نے غزلیہ شاعری کو اپنی تصنیف کا ہدف بنایا اور نظم کی تحریک چلائی۔نیچرل شاعری کا تصور پیش کیا نظم نگاری کو فروغ ہوا اور غزل پیچھے رہ گئی۔ حالی کے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے شعرائے لکھنؤ ﴿ثاقب، عزیز وغیرہ﴾ نے پرانی روش ترک کر کے میر اور غالب کی تقلید میں نئے انداز میں غزلیں کہیں، لیکن وہ بڑے پائے کے شاعر نہ تھے۔

اسی زمانے میں حسرت موہانی نے غزل کا احیاء کیا۔ انہوں نے اس شاعری کو ارضیت بخشی اور ایک نئے غنائی آہنگ سے روشناس کیا۔ حسرت کے معاصر غزل گو شعراء فانی، اصغر، یگانہ، شاہ عظیم آبادی اور جگر مراد آبادی نے غزل کو نیا وقار عطا کیا۔ ان شعرا کی غزل میں محبوب کا روایتی انداز بدل گیا۔ غزل سے طوائف کا اخراج عمل میں آیا ان شعرا کی محبوبہ گوشت پوست کی عورت تھی جو خود بھی صاحب دل تھی۔ ان شعرا نے روایتی انداز میں محبوب کی بے وفائی ظلم اور قتل و غارت گری کا چرچا نہیں کیا اور غزل کو اپنے مکاشفات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان میں سے ہر غزل گو شاعر کی قدر و قیمت اور اس کے منفرد اسلوب کا جائزہ لینے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان شعرا کے درج ذیل اشعار سے ان کی غزل گوئی کی منفرد خصوصیات اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
﴿شاد عظیم آبادی﴾

جس قدر چاہے جلوؤں کو فراوانی دے
ہاں نظر دے تو مجھے فرصت حیرانی دے

بے ذوق نظر بزم تماشہ نہ رہے گی
منہ پھیر لیا ہم نے تو دنیا نہ رہے گی
﴿فانی بدایونی﴾

رنگ سوتے میں چمکتا ہے طرح داری کا
طرفہ عالم ہے تیرے حسن کی بیداری کا
﴿ حسرت موہانی﴾

سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ادا ہے
﴿اصغر گونڈوی﴾

کعبہ نہیں کہ ساری خُدائی کو دخل ہو
دل میں سوائے یار کسی کا گزر نہیں
﴿یگانہ چنگیزی﴾

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
لیکن اپنا اپنا دامن

یہ بات کیا کہ حقیقت وہی مجاز وہی
مجاز ہے تو پھر تو اسے مجاز رہنے دے
﴿جگر مراد آبادی﴾

اسی زمانے میں غزل میں ایک منفرد آواز ابھری۔ یہ آواز اقبال کی تھی۔ اقبال کی اہمیت یوں تو نظم نگار شاعر کی حیثیت سے زیادہ ہے لیکن اردو غزل کو جو ان کی دین ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔غزل کو اقبال نے نئے اسلوب، نئی لفظیات اور نئے موضوعات سے روشناس کیا۔ نظم کی طرح غزل کو بھی اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکار کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کی غزل میں انفرادی شان و عظمت وہاں نظر آتی ہے جہاں وہ غزل کے شعر کی بنیاد عام انسانی تجربات اور احساسات پر رکھتے ہیں یا جہاں ان کی غزل کا واحد متکلم نوع انسانی کا نمائندہ بن کر کائنات میں انسان کے وجودی موقف کو اپنی فکر کا محور بناکر اپنے جذباتی ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔

غزل کے متصوفانہ اشعار میں ذات حق سے عشق کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔اقبال کی غزل کا واحد متکلم خلیفۃالارض کی حیثیت سے ذات حق کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔ اقبال کی اس قیبل کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے ہم خود کو ایک نئی فضا میں سانس لیتا محسوس کرتے ہیں۔ ان غزلوں میں اقبال نے اظہار کے لئے ایک نئی زبان تخلیق کی ہے۔ روایتی غزل کی لفظیات اور استعاروں کو بھی انہوں نے نئی معنویت جہت دی ہے۔ اقبال کی اس نوع کی غزلیہ شاعری کا نمونہ ملاحظہ ہو:

خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

حسرت، فانی اور اقبال کے بعد اردو غزل میں ایک نیا موڑ آتا ہے اور فراق گورکھپوری سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ فراق نے مشاہدہ حسن سے پیدا ہونے والی حقیقی کیفیات کی بڑی فنکارانہ انداز میں تصویر کشی کی۔حیات و کائنات کے مسائل پر انہوں نے نظر ڈالی اور اس مشاہدے سے پیدا ہونے والی کیفیات کے اظہار کا غزل کو وسیلہ بنایا۔فراق کی شاعری شعراء کی جوان نسل پر اس طرح اثر انداز ہوئی کہ اردو غزل کا مزاج ہی بدل گیا۔ فراق کی غزلیہ شاعری کا نمونہ دیکھئے۔

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست
تیرے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

فراق کے بعد اردو غزل نے اپنا چولا بدل دیا۔ بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں نئے ادب کی دو تحریکیں ابھریں جنہیں حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند ادب کی تحریکوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ہر دو تحریکوں نے ابتدا میں غزل سے بے اعتنائی برتی۔ ترقی پسند اسے جاگیردارانہ عہد کی باقیات سمجھتے تھے اور حلقہ ارباب ذوق کے شعرا نے نظم میں نئے نئے تجربوں کے لئے اپنی صلاحیتیں وقف کر دی تھیں لیکن غزل کے تعلق سے بے اعتنائی کا یہ رویہ زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہا۔ ترقی پسندوں نے غزل کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا کہ یہ ان کے سیاسی پرچار کے لیے کارآمد صنف ہے۔ مجروح سلطان پوری، فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی جیسے شعرا نے غزل میں سیاسی خیالات، بغاوت، اور انقلاب کے جذبات کے اظہار کے لئے غزل کی ایک نئی زبان تخلیق کی۔انہوں نے غزل کے معروف اور مروجہ استعاروں کو نئے تلازمے دیے لیکن ترقی پسند تحریک کے انتہاپسندی کے دور میں جب ادیبوں اور شاعروں سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ اپنے خیالات کا ڈھکے چھپے انداز میں نہیں بلکہ کھل کر اظہار کریں، ترقی پسند غزل میں نعرہ بازی در آئی۔ترقی پسند غزل کا نمونہ دیکھئے۔

فریب پاسبانی دے کے ظالم لوٹ لیتے ہیں
ہمیں خود اپنے گھر کا پاسبان بننے نہیں دیتے
﴿پرویز شاہدی﴾

جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
﴿مجروح سلطان پوری﴾

حلقہ ارباب ذوق کے شعرا نے نظم کی طرح غزل کو بھی حیات انسانی کے داخلی مسائل، نفسیاتی کیفیات کے اظہار اور درون ِ خانہ ہنگاموں کی تصویرکشی تک محدود رکھا۔سیاسی، سماجی مسائل کی براہ راست پیشکش سے احتراز کیا۔ مثال کے طور پر میرا جی کے چند اشعار غزل پیش ہیں؀

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

اپنی بیتی جگ بیتی ہے جب سے دل نے جان لیا
ہنستے ہنستے جیون بیتا رونا دھونا بھول گیا

آزادی کے بعد وہ سیاسی مسائل باقی نہیں رہے تھے جن سے ترقی پسند غزل توانائی حاصل کر رہی تھی۔ بھیمڑی کانفرنس کے بعد ترقی پسند غزل کی زبان بدل گئی۔ اس میں ایمائیت کی شان باقی نہیں رہی۔ بدلے ہوئے حالات میں اچھی تخلیقی صلاحیت رکھنے والے شاعروں نے غزل کے احیاء کی کوشش کی اور ان میں سے بعض شعراء نے تخلیقی تحریک کے حصول کے لیے میر سے رجوع کیا۔ ان شعرا میں ابن انشا، اطہر نفیس، خلیل الرحمن اعظمی لائق ذکر ہیں۔ ان کی غزل گوئی کا انداز ملاحظہ ہو۔

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا کیا
﴿ابن انشا﴾

عشق افسانہ تھا جب تک اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
﴿اطہر نفیس﴾

اسی دور میں حفیظ ہوشیار پوری، عزیز حامد مدنی، جمیل الدین عالی، سیف الدین سیف، عابد علی عابد اور ضیا جالندھری جیسے شاعروں نے غزل کو نئی جہت سے آشنا کیا اور جدید غزل کے لئے راہ ہموار کی۔ان شعرا کے چند اشعار غزل سے ان کے انفرادی رنگ و آہنگ کا اندازہ ہو گا۔

چراغِ بزم ابھی جانِ انجمن نہ بُجھا
جو یہ بجھا تو تیرے خد و خال سے بھی گئے
﴿عزیز حامد مدنی﴾

کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے
﴿جمیل الدین عالی﴾

دیکھ پھولوں سے لدے دھوپ نہائے ہوئے پیڑ
ہنس کے کہتے ہیں گزاری ہے خزاں ہم نے
﴿ضیا جالندھری﴾

جانے تجھ سے ادھر بھی کیا کچھ ہے
کاش تو سامنے سے ہٹ جائے
﴿سیف الدین سیف﴾

ناصر کاظمی جدید اردو غزل کا ایک اہم نام ہے۔ ناصر کاظمی ابتدا میں فراق سے متاثر تھے فراق کی طرح انہوں نے جذبات عشق کے اظہار سے زیادہ کیفیات عشق کی تصویر کشی پر توجہ کی۔ ساتھ ہی انسانی وجود کی صورتحال اور اپنے عہد کے سیاسی سماجی حالات کے اثرات کو داخلی رنگ میں پیش کیا۔ ناصر کاظمی نے ہم عصر شعرا اور آنے والی نسل کے بہت سے شاعروں کو متاثر کیا۔ انہوں نے غزل مسلسل کی روایت کا احیا کیا۔ پیکر تراشی ان کا خاص وصف ہے۔چند شعر؀

کچھ یادگار شہر ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمین کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کو فروغ ہوا ضم یہ ایک طرح سے ترقی پسند تحریک کی ادعایت کا ردعمل تھا۔ جدیدیت کی تحریک کے نظریہ سازوں نے اس بات پر زور دیا کہ ادیب کی وابستگی کسی دیئے ہوئے سیاسی نظریے اور پالیسی سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے ہونی چاہیے۔انہوں نے عصری آگہی پر زور دیا۔ اسی تحریک کے زیراثر سیاسی مسائل کی جگہ عصر حاضر کے انسان کے وجودی مسائل نے لے لی۔ بہت سے جدید ادیبوں اور شاعروں نے ماضی کی ادبی روایت سے اپنا رشتہ توڑ لیا اور شعر و ادب میں زبان اور فن کے نئے تجربے کیے گئے۔ تجریدی کہانی اور اینٹی غزل اس کی مثالیں ہیں۔

اس تحریک نے اردو غزل پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ غزل کی زبان بدل گئی نئے استعارے اور علائم وضع کیے گئے۔ جدید غزل کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ روایتی غزل کے مثالی عشق کی جگہ دور حاضر میں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ عشق کی بدلتی ہوئی گوناگوں کیفیات اور واردات کو حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا جانے لگا۔ اینٹی غزل کا تجربہ کامیاب نہ ہوسکا لیکن اظہار کے نٹ نئے اسالیب سے غزل کی صنف روشناس ہوئی اس کے موضوعات میں بھی بڑی وسعت پیدا ہوئی۔ جدید غزل کا روپ رنگ ان اشعار میں ملاحظہ کیجئے۔

پاؤں مارا تھا پہاڑوں پہ تو پانی نکلا
یہ وہی جسم کا آہن ہے کہ مٹی نکلا
﴿ساقی فاروقی﴾