اردو میں حمدیہ شاعری

اردو میں حمدیہ شاعری

اس ذات یکتا و یگانہ کی بارگاہ ازلی و ابدی میں ہر کوئی ناصیہ سائی کرتا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں حیات و ممات اور دین و دنیا کی بھلائیاں ہیں۔اس کے در قدرت پر ہر انسان اپنی کمزوری، مجبوری، چاہت، خواہش، عشق ومحبت، تسلیم و رضا غرض کہ ہر اعتبار سے سر تسلیم خم ہے۔

بقول قرآن يسبح لله ما في السماوات والارض (جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ہر شخص اللہ کی تسبیح و تحلیل کرتی ہے) لیکن یہاں پر ہمیں سرکار اس مخلوق سے ہے جو مقلب بہ انسان ہے۔ دنیا کا ہر فرد انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب، دین دھرم سے تعلق رکھتا ہو، خواہ دین یا مذہب کا پابند نہ بھی ہو، ہر کوئی اپنے خالق کی مدح سرائی شعوری یا غیر شعوری طور کرتا ہے۔ ہم یہاں پر صرف شاعری میں حمدیہ شعریات پر بحث کریں گے لیکن حمدیہ شعریات پر بات چھیڑنے سے قبل ہم حمد کے مضمرات (معنی، تعریف وتوضیح، حمد کی روایت) پر ضرور بات کریں گے جس سے ہمیں حمدیہ شعریات کے مبادیات کی تفہیم میں آسانی ہو سکتی ہے۔

  • ”حمد“ بنا ہے ’حمدہ‘ باب سمیع سے فضیلت کی بنا پر تعریف کرنا۔ کہا جاتا ہے،
  • حمدت الیک اللہ:- یعنی تیرے ساتھ میں نے اللہ کی تعریف کی یا تیرا شکریہ ادا کیا۔
  • حمّداللہ:- بار بار تعریف کرنا اور الحمدللہ کہنا (مصباح لغات ١٧٤)
  • حمد:- تعریف، ستایش، خدا کی تعریف ( فرہنگ عامرہ ٢٢١)

حمد کا اصطلاحی معنی ہے زبان سے کسی کی اختیاری خوبی پر بقصدِ تعظیم ذکر حسن کرنا ، (تعریفات ٥٧)

تعریف کی اقسام:- تعریف کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں۔ (1) حمد، (2) مدح، (3) شکر

حمد:-

اس تعریف کو کہا جاتا ہے جس میں اختیاری خوبیوں پر زبان سے بقصد تعظیم ذکر حسن کیا جائے۔ عام ہے کسی نعمت کے عوض ہو یا غیر نعمت کے عوض۔

مدح:-

اس تعریف کو کہا جاتا ہے جس میں زبان سے بقصد تعظیم کسی خوبی پر ذکر حسن کیا جائے وہ خوبی اختیاری ہو یا غیر اختیاری، کسی نعمت کے عوض ہو یا غیر نعمت کے عوض۔

شکر:-

اس تعریف کو کہا جاتا ہے جس میں ایسا عمل کیا جائے جس سے منعم کی تعظیم حاصل ہو، خواہ زبان سے اس کا ذکر حسن ہو یا دل سے اس کی تحیت و عقیدت ہو یا کسی دوسرے عضو بدن سے کوئی عمل یا خدمت ہو۔

تعریف کی اول کی قسم خاص ہے اختیاری خوبیوں کے لیے جو کسی نعمت کے بدلے نہیں کی جاتی بلکہ نعمت ملے نہ ملے ہر حال میں کسی کی تعریف کی جائے۔ یہ حمد کی وہ قسم ہے جو خداوند قدوس کی تعریف و ثنا کے لیے برتی جاتی ہے۔ کیونکہ تمام خوبیاں خدا کی اختیاری ہیں وہ کسی بھی اپنی خوبی میں کسی کا محتاج نہیں گویا کہ یہ تعریف خالص حمد ہے، جو صرف اللہ کے لئے ہے۔ اللہ کی تعریف ہے۔ اللہ عَلَم ہے اس ذات واجب الوجود کا جو تمام صفات کمالیہ کا جامع ہے۔ علامہ قاضی بیضاوی تفسیر بیضاوی میں اللہ تعالی کی تعریف اس طرح کرتے ہیں۔”

تعریف کی قسم دوم عام ہے خواہ وہ اختیاری خوبی پر ہو یا غیر اختیاری خوبی پر۔ قسم سوم شکر ہے یہ قسم خاص بھی ہے اور عام بھی۔ خاص اس معنی کے لحاظ سے منعم کا نعمت کے بدلے شکر ادا کیا جائے۔عام اس اعتبار سے کہ اس میں خالق کا شکر بھی ہو سکتا ہے اور مخلوق کا بھی۔ایک دوسرے لحاظ سے بھی یہ عام ہے کہ اس کی ادائیگی زبان سے بھی ہو سکتی ہے ہاتھ کے اشارے سے بھی اور بدن کے کسی عضو سے بھی۔ اشارہ کے ساتھ مثلاً جب خالق کی طرف سے مخلوق کو کوئی نعمت حاصل ہو تو وہ دعا کی طرح ہاتھ اٹھا کر اپنے مالک کا شکریہ ادا کرے یا اپنے خالق کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جائے۔اسی طرح کسی سخی شخص نے کسی آدمی کو روپے یا کوئی اور شے دل پذیر دی، جس پر لینے والے نے ہاتھ اٹھا کر اشارے کے ساتھ اس کا شکریہ ادا کیا ہو یا شکر گزاری کے طور پر سر ہلایا ہو۔

ابتدائے آفرینش سے ہی مخلوقِ خدا اپنے خالق کی حمد و شکر کرتے آئی ہے۔اگر سب کا ہم تھوڑا تھوڑا ہی ذکر کریں تو بھی ایک ضخیم کتاب درکار ہے۔

اردو میں حمدیہ شاعری:

جہاں تک اردو شعر و سخن میں حمدیہ شاعری کی روایت کی موجودگی کی بات ہے تو اس میں زمانہ قدیم خسرو، نصرتی، وجہی، قلی قطب شاہ سے ہوتی ہوئی ولی، میر، سودا، درد، اور سوز تک پھیلی ہوئی ہے۔لکھنوی دبستان شاعری میں خاص طور پر میر حسن، نسیم، آتش، مصحفی کے یہاں اور دبستانِ دہلی میں ذوق، غالب، مومن سے لے کر جدید شعرا، مابعد جدید شعرا اور تاحال جدید شعرا کے یہاں حمد گوئی کا سلسلہ دراز ہے لیکن زمانہ قدیم، کلاسیکی شعرا اور جدید شعرا میں قریب قریب ماسوائے بعض سب کے یہاں خالص حمد سے زیادہ فلسفیانہ حمدیہ شعر ملتے ہیں جن پر بحث کاردراز ہے۔یہاں پر ہمیں صرف نمائندہ شعراء کی خالص حمدیہ شاعری پر بحث مقصود ہے۔ اس حوالے سے ہم سب سے پہلے میر حسن اور دیا شنکر نسیم کے حمدیہ اشعار سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔

میر حسن دہلی کے رہنے والے تھے نقل مکانی کر کے لکھنؤ آباد ہوئے۔ وہیں مثنوی ‘سحرالبیان’ تخلیق کی۔ انہوں نے اس مثنوی کی تحریر کی مناسبت سے اس کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کیا ہے جو مثنوی کی روایت رہی ہے۔میر حسن کی حمد گوئی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک ایسی مثنوی تخلیق کرنے جا رہے ہیں جس کا سحر دائمی ہو، اسی مناسبت سے میر حسن حمد حمد باری میں قلم سے سجدہ کراتے ہیں۔ قرطاس و قلم اور لوازمات تحریر کی آمیزش سے ایسی محاکات تیار کرتے ہیں کہ تحریر کا سارا کا سارا سامان آنکھوں کے سامنے متحرک ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اس حمدیہ نظم میں واقعی کسی اعلی ذات اور طاقتور کے سامنے حمد گو اپنی عاجزی پیش کرتے ہوئے اس کی ہر طاقت اور خوبی کے سامنے سر تسلیم خم کرتا چلا جاتا ہے۔میر حسن نے اس حمدیہ نظم میں جو تراکیب برتی ہیں یا جن تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے اور جن شعری وسائل کو کام لایا ہے وہ ایک طرف اپنی جگہ جمالیاتی احساس کو بیدار کرتے چلے جاتے ہیں تو دوسری طرف لفظ و معنی کے مفہوم کا جو امتیاز پیش کیا وہ میر حسن کی حمد گوئی کے فنی کمالات کو ظاہر کرتا ہے۔ شومئی قسمت کہ ہمارے شعرا نے حمد کو صنفی لحاظ سے فروغ نہیں دیا۔ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حمد جتنی بھی کہی ہے فنی اعتبار سے مکمل ہے۔میر حسن نے اپنی حمدیہ نظم میں ہر شے کی تخلیق کو اسی رب سے وابستہ کیا ہے جو اس کا حقدار ہے۔ اشیائے عالم کی قریب قریب ہر سرگرمی کو اس کے وجود کا مرہون منت مان کر آخر میں حیات و ممات کا مالک بھی اسی خدا کو تسلیم کیا ہے۔ میر حسن کی حمدیہ نظم کے کل اشعار 38 ہیں ان میں بعض ہدیۂ قارئین ہیں۔

کروں پہلے توحید یزداں رقم
جھکا جس کے سجدے کو اول قلم

سر لوح پر رکھ بیاض جبیں
کہا: دوسرا کوئی تجھ سا نہیں

قلم پھر شہادت کی انگلی اٹھا
ہوا حرف زن یوں کہ: رب العلا!

نہیں کوئی تیرا، نہ ہوگا شریک
تری ذات ہے وحدہٗ لا شریک

پرستش کے قابل ہے تواے کریم!
کہ ہے ذات تیری غفور رحیم

رہ حمد میں تیری عزّ و جل!
تجھے سجدہ کرتا چلوں سر کے بل

وہ، الحق کہ ایسا ہی معبود ہے
قلم جو لکھے، اس سے افزود ہے

سبھوں کا وہی دین و ایمان ہے
یے دل ہیں تمام اور وہی جان ہے

تر و تازہ ہے اس سے گلزار خلق
وہ ابر کرم، ہے ہوا دار خلق

اگرچہ وہ بے فکر و غیّور ہے
ولے پرورش سب کی منظور ہے

کسی سے بر آوے نہ کچھ کام جاں
جو وہ مہرباں ہو، تو گل مہرباں

اگرچہ یہاں کیا ہے اور کیا نہیں
پر، اس بن تو کوئی کسی کا نہیں

موئے پر نہیں اس سے رفت و گزشت
اسی کی طرف سب کی ہے بازگشت

رہا کون اور کس کی بابت رہی
موئے اور جیتے وہی ہے وہی
(سحرالبیان: مرتبہ رشید حسن خان، ص 15 تا 19۔ (مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ، اشتراک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی)

اگر دیا شنکر نسیم کی حمد گوئی پر گہری نظر ڈالیں تو ان کی حمدیہ نظم میں صرف ایک شعر خالص حمد کا ملتا ہے اس کے بعد وہ پیغمبر اعظم کی تعریف کے ساتھ پنجتن کے مطیع بن جاتے ہیں۔ بعد ازاں پھر وہ بارگاہ خداوندی میں مناجات و دعا گوئی کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ خاص بات یہ کہ نسیم نے اس حمد کا تانا بانا قلم اور تحریری مواد سے بنا ہے کیونکہ نسیم بھی مثنوی نگاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ نسیم کا حمدیہ اسلوب ملاحظہ ہو۔

ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمدِ باری

کرتا ہے یہ دو زباں سے یکسر
حمدِ حق و مدحتِ پیمبر

پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی کہ مُطیعِ پنج تن ہے

ختم اس پہ ہوئی سخن پرستی
کرتا ہے زباں کی پیش دستی

شکر و دعا

یارب! میرے خامے کو زباں دے
مِنقارِ ہزار داستاں دے

افسانہ گل بکاولی کا
افسوں ہو بہارِ عاشقی کا

ہر چند سُنا گیا ہے اِس کو
اُردو کی زباں میں سخن گو

وہ نثر ہے، دادِ نظم دوں میں
اس مے کو دو آتشہ کروں میں

ہر چند اگلے جو اہلِ فن تھے
سلطانِ قلمروِسخن تھے

آگے ان کے فروغ پانا
سورج کو چراغ ہے دکھانا

پر، عِجزِ سخن سدا ہے باقی
دریا نہیں کار بند ساقی

طعنے سے زبانِ نکتہ چیں روک
رکھ لے مری اہلِ خامہ میں نوک

خوبی سے کرے دِلوں کو تسخیر
نیرنگِ نسیمِ باغِ کشمیر

نقطے، ہوں سپندِ خوش بیانی
جدول، ہو حصارِ بحر خوانی

جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے
مرکز پہ کشِش مری پہنچ جائے
(گلزار نسیم: مرتبہ رشید حسن خان ص 15 تا 16، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی)

انتخاب کلام مومن (مرتبہ قاضی عبدالودود) کا جب میں نے مطالعہ کیا تو میری نظر مومنؔ کی پہلی غزل پر پڑی جو حمدیہ موضوع پر مشتمل ہے۔مومن کی حمد گوئی کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے ایک تو حمد کو غزل کی ہئیت میں ڈھالا ہے۔ انہوں نے صرف غزل ہی کی ہئیت نہیں برتی بلکہ ان کی ہئیت پر قصیدے کی ہیئت کا دھوکا ہوتا ہے۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ جن اجزائے بدن کو انہوں نے اپنے اشعار میں ذکر کیا ہے ان کو مجسمی لوازمات دے کر تجسیمی پیکر تخلیق کیے ہیں، ان کی تجسیم کا تانا بانا اس طرح تیار ہوا کہ باری تعالیٰ کی جناب میں ہر عضو بدن بیدار ہو کر اپنے مالک کی طرف متوجہ ہوا ہے۔مومن کے حمدیہ اشعار کا آغاز اس پیرایۂ خاص میں ہوتا ہے کہ صرف دو حمدیہ شعر کہہ کر مالک کی مرضی میں اپنی مرضی کو فنا کرنے کے خیال کو پیش کر کے دفعتاً دعائیہ موضوع کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔پھر رسول اللہ کی سنت کے مطیع ہونے کی خواہش کرتے ہیں اور آخر میں امام مہدی کے زمانے کے پانے کی خواہش پر اپنی حمدیہ غزل کو ختم کرتے ہیں۔

نہ کیوں کر مطلعِ دیواں ہو مطلع مہرِ وحدت کا
کہ ہاتھ آیا ہے روشن مصرع انگشتِ شہادت کا

بچاؤں آبلہ پائی کو کیوں کر خارِ ماہی سے
کہ بام عرش سے پھسلا ہے یارب پاؤں دقت کا

غضب سے تیرے ڈرتا ہوں رضا کی تیری خواہش ہے
نہ میں بے زار دوزخ سے، نہ میں مشاق جنت کا

خدایا ہاتھ اٹھاؤں عرضِ مطلب سے بھلا کیوں‌ کر
کہ ہے دستِ دعا میں گوشہ دامانِ اجابت کا
(انتخاب کلام مومن: مرتبہ قاضی عبدالودود، ص 23,24 فریدیہ بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ)

حمدیہ شاعری کی اس روایت میں ایک اہم نام فیض احمد فیض کا ہے۔ فیض کے یہاں حمد شکر کی آمیزش سے شکوہ کی ہلکی اور دبی سی خواہش کے ساتھ شعر میں ڈھل جاتی ہے، فیض نے حمدیہ بندوں کو تخلیقی رویوں کے ساتھ اس طرح شکوے کے پیرائے میں ڈھالا ہے کہ مخلوق کو ہلکی سی آزادی کا اختیار بھی معلوم نہیں ہوتا۔اس حمد کے معنوی تانے بانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فطرت کو کہیں الجھا ہوا، کہیں مجبور، کہیں کشمکش کے چنگل کا اسیر دیکھا جا سکتا ہے۔ فیض کی حمدیہ نظم پر گیت کے اثرات بھی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ظاہری ساخت اور موضوع کے اعتبار سے فیض نے اس نظم کو اپنے مجموعہ ”دست تہہ سنگ“ میں حمد کا عنوان تو دیا ہے لیکن یہ روایتی حمد سے بالکل انفرادی حیثیت رکھتی ہے۔فیض کی حمد گوئی کے مختلف رنگوں کو ملاحظہ کریں۔

ملکۂ شہر زندگی، تیرا
شکر کس طور سے ادا کیجئے

دولت دل کا کچھ شمار نہیں
تنگدستی کا کیا گلہ کیجیے

جو ترے حسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویشِ روزگار کہاں؟

درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اس سے خوش وقت کاروبار کہاں

جام چھلکا تو جم گئی محفل
منت لطف ِّ غمگسار کسے

اشک ٹپکا تو کھل گیا گلشن
رنج کم ظرفی بہار کسے

کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
نقد شمس و قمر کی بات کرے

جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیرِ کائنات کرے

(کلام فیض، (ص ٣٠٣) ایجو کیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ)

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک (اسسٹنٹ پروفیسر)