Advertisement
Advertisement
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
Advertisement
ہیں دور جام اوّل شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
Advertisement
ایک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج لذت زخم جگر کہاں
Advertisement
بس ہو چکا بیاں کسل و رنج راہ کا
خط کا میرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، مگر تو کہاں
Advertisement
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں
حالی نشاط نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں
Advertisement