انٹرویو کے سوالات اور جوابات

سوال نمبر ۲۱: کوئی شعر سنائیں جدت کے حوالے سے؟

جواب :

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ۔۔۔۔ ہر پیکر تصویر کا

سوال نمبر ۲۲: شعر کی تشریح کریں

جواب : سر! یہ مرزا غالب کا ایک کثیر الجہت شعر ہے۔ اس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر پیکرِ تصویر سے مراد تمام موجودات سے ہے اور یہ ساری چیزیں فنا ہونے والی ہیں ۔ اب جب یہ موجودات کا عالم ہے تو نقش ہستی کا اپنا کاغذی لباس یعنی بے ثباتی پر فریادی ہونا فطری ہے۔ پس غالب کہتے ہیں کہ یہ کس بیداد تحریر کے نقش ہیں جو فریاد لیے ہوئے ہیں اور جن کے لباس کاغذی ہیں۔
(یہاں کاغذی لباس کے حوالے سے ایران کی جو روایت مشہور تھی وہ بھی سنائی۔ اور یہ شعر مزید بھی ڈسکس کیا گیا تھا۔)

سوال نمبر ۲۳: غالب اور اقبال دونوں اپنے وقت کے بڑے شاعر تھے۔آپ کیا کہنا چاہتی ہیں اس حوالے سے؟

جواب: دونوں شعرا اپنے اپنے وقت کے عظیم اور معتبر شاعر ہیں۔ جہاں تک موازنے کا تعلق ہے تو غالب انیسویں صدی اور اقبال بیسویں صدی کا بڑا شاعر ، غالب کا میدان غزل اور اقبال نظم گو شاعر۔
بلاشبہ غالب ایسا شاعر ہے جس نے اردو غزل میں تصورات، فلسفہ، فکر نو، تخیل، جدت ہر لحاظ سے تخلیقی جوہر دکھائے اور ان سب پر مستزاد اسلوب کی جمالیات جس کا منفرد استعاروں، نادر تشبیہات ، پُرمعنی تمثالوں اور خوب صورت صوتی آہنگ کی حامل تراکیب سے رنگ چوکھا ہوتا ہے۔ غالب اردو غزل کا کلاسیک ہے، اسی لیے غالب کے بعد، اس کا اندازِ سخن اسی پر ختم ہو گیا۔

جہاں تک اقبال کی شاعری کا تعلق ہے تو اقبال ایک فلسفی شاعر ہیں. جو اپنے مفکرانہ کلام کے ذریعے مخصوص نظامِ فکر کے پرچارک ہیں اور تسلسل کے ساتھ استدلال نے آپ کی شاعری کو با مقصد اور پیغامِ آفریں بنایا ہے۔ مختصراً غالب فن کے اعتبار سے اور اقبال فکر اور فلسفے کے اعتبار سے بڑے شاعر ہیں۔

چئیرمین مخاطب ہو کر ، ادب کے حوالے سے کچھ لکھا ہے؟

جی سر! اپنی کچھ تخلیقات اور ایم فل کا مقالہ پیشِ خدمت ہے۔

سوال نمبر ۲۴: چئیرمین ، آپ وائٹ بورڈ کی طرف جائیں ، آج آپ ہمیں پڑھائیں گی۔

جواب: سر! میں اپنی پسند کا شعر لکھ لوں؟ اور اجازت ملنے پر میں نے فراز کا یہ شعر لکھا:

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

سوال نمبر ۲۵: چئیرمین، کیا آپ نے شعر ٹھیک لکھا؟

جواب: میں نے شعر پھر سے دیکھا ، پڑھا اور دوسرے مصرعے میں “کے” کو تبدیل کر کے “کہ” لکھ دیا۔ یعنی
“آ پھر سے مجھے چھوڑ کہ جانے کے لیے آ”

سوال نمبر ۲۶: چئیرمین، قواعد کی رو سے “کہ” کو کیا کہتے ہیں ؟

جواب: سر! حرف تاکید
اور اس کے ساتھ ہی مجھے احساس ہوا کہ میں شعر پہلے درست لکھا تھا اور مصرعہ پھر سے ٹھیک کر لیا۔

سوال نمبر ۲۷: “جانے کے لیے آ” میں کونسا زمانہ پایا جاتا ہے؟ نیز حرف آ سے کیا مراد ہے؟ یعنی قواعد یا صنعت کے حوالے سے ہم اسے کیا کہیں گے؟

جواب: سر! “جانے کے لیے آ” زمانے کے لحاظ سے مستقبل کی بات ہو رہی ہے۔ اور شعر میں لفظ “آ” سے مراد صنعتِ تکرار متتابع ہے۔ تکرار متتابع سے مراد شعر کے پہلے مصرعے میں ایک لفظ لایا جائے اور دوسرے مصرعے میں اس کی تکرار اس طرح سے کی جائے گویا بات سے بات پیدا کی گئی ہو۔

سوال نمبر ۲۹: چئیرمین، شاعر کیوں کہہ رہا ہے کہ میرے دل کو دکھانے آ جاؤ ، پر آجاؤ ؟ جب محبوب نے ایک بار پھر چھوڑ ہی دینا ہے ؟ کیا شاعر کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں؟

جواب: سر! اس غزل کے باقی اشعار سے شاعر کا مدعا کھل کر سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔ (پوری غزل سنا دی)

شاعر محبوب سے التجا کر رہا ہے کہ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

کچھ تو میرے پندار محبت کا بھرم رکھ لو۔ دوست احباب مجھ سے طرح طرح کے سوالات کرتے ہیں اور ہمارے تعلق کے حوالے سے بات ہوتی ہے سو اے محبوب تو اگر مجھ سے ناراض بھی ہے تو خدارا لوگوں کو دکھانے کی غرض سے ہی آ جاؤ۔ پھر بے شک مجھے چھوڑ کے چلے جانا۔

چئیرمین، ٹھیک ہے آپ آ کر بیٹھ جائیں ۔۔۔۔ میڈم سے مخاطب ہو کر ۔۔۔ میم آپ سوالات پوچھیں۔۔۔۔

سوال نمبر ۳۰: میم، ناول پڑھتی ہیں آپ؟ جنت کی تلاش یا امراؤ جان پڑھی ہے آپ نے؟ پھر ساتھ ہی خود امراؤ جان و ادا کے حوالے سے سوال کیا کہ اس ناول میں کیا ہے؟

جواب: میم! اس ناول کی کہانی فیض آباد سے اغوا شدہ لڑکی امیرن کی ہے، جسے امراؤ جان ادا کے نام سے لکھنؤ میں ایک طوائف بن کر زندگی بسر کرنی پڑی۔ ناول میں انیسویں صدی کے لکھنؤ کا معاشرہ پیش کیا گیا ہے۔

سوال نمبر ۳۱: یہ ناول کس نے لکھا ہے؟

جواب : مرزا ہادی رسوا

سوال نمبر ۳۲: مرزا ہادی نے ایک طوائف کا سہارا کیوں لیا ناول لکھنے کے لیے؟ یا رسوا نے طوائف کے کوٹھے کا ہی کیوں انتخاب کیا ؟

جواب: میم، اس وقت طوائف کا کوٹھا ہی لکھنؤ میں تہذیبی اور ادبی مرکز تھا اور اس سے نواب ،رؤسا اور شرفا سے لے کر مولوی ،ڈاکو ،شاعر و شاعرات تک سبھی وابستہ تھے۔

سوال نمبر ۳۳: لکھنوی تہذیب اس وقت کیسی تھی؟

جواب : اس معرکۃ الآرا ناول میں رسوا نے لکھنؤ کی معاشرتی اور تہذیبی منظر کشی بہت ہی خوبصورتی سے کی ہے ،لکھنؤ کی عیش و عشرت کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی حالت طوائف کے بغیر ماہئ بے آب کی سی ہے ،طوائف کے بالاخانوں پر جانا ان کے نزدیک تہذیب اور عزت کی چیز ہے ،ہر طبقہ کے لوگ طوائف کے پاس جانے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ،نواب اور جاگیر داروں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ،اخلاقی پستی اور معاشرتی بیماری کا حد درجہ شکار تھے انہوں نے لکھنؤ کے رہن سہن اور بیگمات کا نقشہ بہت خوبصورتی سے کھینچا ہے ،حقہ بھی ہے ،گانے بجانے کی محفلیں بھی سج رہی ہیں اور بہت ہی خوبصورت پاندان بھی ہے ،غرض عیش و عشرت ہی ان کے نزدیک اصل زندگی ہے ،یہ حقیقت ہے کہ لکھنؤ کی معاشرتی زوال میں طوائفوں کا اہم کردار ہے ،مگر اخلاق سوز لوگوں کا بھی کوئی کم کردار نہیں ہے ،رسوا نے اس ناول میں لکھنؤ کے محلوں ،میلوں ،گلیوں ،بازاروں اور مکانات کے محل وقوع کا نقشہ ایسا کھینچا ہے کہ اسے پڑھتے ہی لکھنؤ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔

سوال نمبر ۳۴: اس تہذیب کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ لکھنو کے نوابین کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی؟

جواب: لکھنو کے نوابین اس وقت برائے نام حکومت کر رہے تھے۔ اصل کرتا درتا انگریز حکمران تھے۔اس دور کے مرد نے سیاسی اعتبار سے نامردی کا ثبوت دیا اور یہ عیش پسندی دراصل فرار کی ایک صورت تھی۔ بعض حساس شعرا اپنی جنس ہی سے منحرف ہو گے اور لاشعوری طور پر عورتوں کی تقلید کرنے لگے یہاں تک کہ اس وقت کے نوابین خواتین کے کپڑے پہن کر ان کے لب و لہجے اور محاورے میں بات چیت کرتے تھے۔ شعر ملاحظہ ہو:

بیگموں میں جو بڑی ہوں تو بھلا تجھ کو کیا
پہنے پوشاکِ زری ہوں تو بھلا تجھ کو کیا

سوال نمبر ۳۵: چئیرمین ، مقالے میں آپ نے شاعر کے کلام کا فنی جائزہ لیا ہے۔یہاں آپ نے “ تجسیم کاری” کا ذکر کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے؟

جواب : تجسیم کو انگریزی زبان میں Personification کہاجاتاہے ۔جس سے مراد کسی غیر مرئی شے کوجسم دیناہے۔ کسی جذبے یا احساس کو جسمانی خدوخال یا حرکات عطاکرناہے۔

سوال نمبر ۳۶: لفظ “تجیسم” قواعد کی رو سے فعل ہے یا فاعل؟

جواب: سر! فاعل تو بالکل نہیں ہے (یہ سوال مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا) ۔۔۔

چئیرمین تو پھر کیا ہے اگر فاعل نہیں ؟ فعل ہوا نا۔۔۔ اچھا تکمیل کیا ہے؟

جواب : تکمیل یعنی مکمل کرنا، پورا کرنا۔

سوال نمبر ۳۷: پھر کاری کیا ہے؟

جواب: فعل؟

سوال نمبر ۳۸: پھر “تجسیم کاری” میں آپ نے دو فعل ایک ساتھ کیوں استعمال کیے ہیں؟

جواب: سر! گرائمر کی رو سے غلط العام اصطلاح ہو گی ورنہ یہ لفظ تو آج کل مستعمل ہے ۔

میری تحریر میں ایک جملہ ہائی لائیٹر سے مارک کر کے مجھے پڑھنے کے لیے کہا۔۔۔

جملہ: پرانے وقتوں میں موسیقی کے میدان میں آنے والے لوگ بہت سے استادوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد موسیقی کے افق پر طلوع ہوتے تھے۔

جملہ پڑھا….

سوال نمبر ۳۹: زانوے تلمذ سے کیا مراد ہے؟

جواب: شاگردی اختیار کرنا۔

سوال نمبر ۴۰: لفظی معنی کیا ہوں گے؟

جواب: ادب سے دو زانوں ہوکر استاد کے سامنے بیٹھنا
یعنی ان کے حلقۂ درس میں بیٹھنا

چئیرمین، ٹھیک ہے ، بہت شکریہ آپ جا سکتی ہیں۔
– بہت شکریہ سر ، میم ۔۔۔۔