جدید غزل کے امتیازات

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غزل پہلے عربی زبان سے فارسی میں آئی، پھر اس کے بعد فارسی سے اردو تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے عہد میں ہی طے کر لیا۔ پھر اردو میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جو غمِ جاناں ، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایرانی صنف ہے جو فارسی کے ساتھ ہندوستان میں رونما ہوئی اور اب اردو میں مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔

غزل کی تعریف:

غزل ایک مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔ اس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا پھر عورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔

غزل کی تشریح و توضیح:

ہیت کے لحاظ سے غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہو۔ اس کا ہر شعر ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ ردیف نہ ہونے کی صورت میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع جبکہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے، مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مستقل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے ہر شعر میں الگ ہی مفہوم باندھا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنی ہو سکتی ہے۔ غزل ایک بحر میں لکھی جاتی ہے۔

غزل میں تین اہم کردار خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس میں عاشق، محبوب اور رقیب شامل ہیں۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ پھر اس کے بعد اپنے محبوب کے ظلم و ستم پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اور بعد ازاں اپنے رقیب کو بھی برا بھلا کہہ جاتا ہے۔ شاعر یہ تمام صورتِ حال ایک خاص ترتیب سے بیان کرتا ہے۔ جیسے ایک شعر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت بیان کر دی جاتی ہے، تو دوسرے شعر میں ظلم و ستم اور تیسرے میں ہجر کا دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح دل کے جذبات کا اظہار ، ہجر و وصال کی کیفیت ، شکایتِ زمانہ، تصوف اور حقیقت و عرفان کے موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔ غزل کا دائرہ وسیع ہے اس میں آج کے دور میں ہر طرح کا موضوع ڈالا جاسکتا ہے۔

غزل کی تاریخ میں جدیدیت:

ادب زمانی و مکانی روش و رفتار کا طابع ہوتا ہے۔اس پر اپنے عہد میں پروان چڑھنے والے تمام منفی و مثبت رجحان اور سماجی و سیاسی اور معاشی و اقتصادی حالات کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ زمانہ بدلتا تو پرانے تصورات بھی بدلتے ہیں۔ غزل میں ہی زمانے کے ساتھ ساتھ کئی قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس میں خیال کی وسعتیں بھی پیدا ہوئیں اور اظہار کی نئی نئی صورتیں بھی نکلیں۔ بہت سے شعرا نے غزل میں نیا بانکپن پیدا کرکے اسے وسعت سے ہمکنار کیا ہے۔ جدیدیت ایک اصطلاح ہے جس کا چلن 1960 کے بعد ہوا۔ عام طور پر جدیدیت کی تعریف تو یہی کی گئی ہے کہ یہ اپنے عہد کے مسائل یا اپنے عہد کی حسیت کو پیش کرنے کا نام ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جدیدیت کے پس منظر میں وجودیت کی فکری تحریک ہے اور سیاسی بنیادوں پر جدیدیت کی تحریک ، ترقی پسند تحریک کے ردعمل کے طور پر وجود میں آئی۔ اردو شاعری میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کو مسلمہ طور پر جدید رجحانات کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔

جدید غزل کے موضوعات:

جدید غزل میں تنہائی کا ذکر کوئی نیا موضوع نہیں ہے، اسے اردو غزل کی روایت میں دور تک مختلف شکلوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ البتہ نئے اور پرانے زمانے میں تنہائی کی بعض قدریں مشترک ہونے کے باوجود اس کے اسباب مختلف ہیں۔ جدید دور کی برکتوں نے زندگی کو جتنی تیزی کے ساتھ جس طرح برق رفتار بنایا، اتنی ہی تیزی کے ساتھ انسان بلندیوں کو چھونے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی ہوس میں اپنی تہذیب و اقدار کو پامال کرتا چلا گیا۔  جدید غزل قنوطی، رجائی، اشتراکی، سیاسی، یا معاملہ بندی کے ذیل میں نہیں آتی، البتہ یہ سارے رجحانات اس میں تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جدید غزل کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی حسنِ خیال اور حسنِ تاثیر کی امین ہے، اور روایت کی مثبت، بامعنی اور فنی اقدار سے اس کا رشتہ تخلیقی سطح پر ہمیشہ استوار رہا ہے۔ جدید غزل کی لفظیات اور تلمیحات و استعارات نئے ماحول اور معاشرے نیز انسانی تجربات و احساسات کے عکاس ہیں۔

جدید تر غزل:

خلیل الرحمن اعظمی اپنے مضمون ’’جدید تر غزل‘‘ کی ابتدا میں لکھتے ہیں :
’’جن شعری اور ادبی تخلیقات کا تعلق خود ہمارے زمانے، ہماری زندگی اور ہماری اپنی ذات سے بہت گہرا ہو اور جو رجحانات اپنی تشکیل و تعمیر کی ابتدائی یا درمیانی منزل میں ہوں ان کا معروضی مطالعہ اور ان کی قدر وقیمت کا اندازہ لگانا اگر ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔‘‘

وہ مزید نئی غزل لکھنے والے شعراء کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ’’نیا شاعر جس ذہنی کیفیت سے گزررہا ہے اور تہذیب کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اس نے احساسات کے اعتبار سے اسے ماضی قریب کے شعرا سے دور اور ماضی بعید کے شعرا سے نسبتاً قریب کردیا ہے۔ اس کیفیت میں اب اسے حالیؔ، چکبستؔ اور تلوک چندمحروم کی اصلاحی اور قومی شاعری ظفرعلی خاں اور اقبالؔ کی ملّت پرستی، جوشؔ کا نعرہ انقلاب، اخترشیرانی کی رومانیت، احسان دانش کی مزدور دوستی اور سردارجعفری کی اشتراکیت خاصی حد تک باسی اور پرانی لگتی ہے اور اس کے مقابلے میں میرؔ کی دردمندی اور انسان دوستی، غالبؔ کی تشکیک اور احساس شکست اور یگانہؔ اور فراقؔ کی نفسیاتی پیچیدگی اور دھندلکے کی کیفیت زیادہ نئی اورحقیقی معلوم ہوتی ہے۔‘‘

جدید غزل کے امتیازات:

دراصل غزل میں یہ جدیدیت کوئی نئی بات نہیں بلکہ ماضی بعید میں بھی اس جدیدیت کے رنگ نظر آتے ہیں لیکن وہ رنگ اس وقت کے مقابلے میں قدرے کم ہیں، اس لیے انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ جدید غزل میں روایتی غزل سے بہت کچھ مختلف ہے، لیکن وہ بات جو بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ جدید غزل کسی بھی قسم کا لیبل اپنے اوپر قبول نہیں کرتی ہے۔ اسی حوالے سے ایک ناقد کی رائے یہ ہے کہ :
’’جدید تر غزل کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس غزل پر آپ کسی قسم کا لیبل نہیں لگاسکتے۔ نہ کسی ایک صفت یا کیفیت کے دائرے میں اس کو مقید کرسکتے ہیں۔ اس لیے گزشتہ دور کے غزل گویوں کی طرح اس دور کے غزل کہنے والوں کو آپ ان اصطلاحوں کی مدد سے نہیں سمجھ سکتے  جیسے صوفی شاعر، رند شاعر، خمریات کا شاعر، عشق حقیقی کا شاعر، عشق مجازی کا شاعر، ہوس ناکی اور معاملہ بندی کا شاعر، سیاسی شاعر، غم جاناں کا شاعر، غم دوراں کا شاعر، قنوطی شاعر، رجائی شاعر، زبان و محاورے کا شاعر وغیرہ کہہ کر پہلے ہم خود سمجھتے اور دوسروں کو سمجھایا کرتے تھے۔‘‘

یہ بات اس لیے بھی اچھی ہے کہ اس وجہ سے شعرا کو کسی قسم کی حدبندی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور وہ اپنے ادب کو ہر قسم کے رُخ پر لا کر موڑ سکتے ہیں۔ نئی غزل کی تفہیم و تحسین کے لیے قاری اور نقاد کو بھی زندگی کے ان تجربوں کا علم ضروری ہے جن سے شاعر گزرا ہے۔ نئی غزل کا شاعر اپنے قاری اور نقاد سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بھی زندگی کے مختلف تجربوں میں اس کا ہمسفر بنے اور اس کی تخلیقات کو ماضی کی فرسودہ کسوٹی پر پرکھنے کی زحمت نہ کرے ورنہ ترسیل کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اکثر اوقات ترسیل کا مسئلہ تخلیق کار خود پیدا کرتا ہے مگر کبھی قاری کی ذہنی سطح بھی اسے مسئلہ بنادیتی ہے۔

نئی غزل کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ نئی غزل میں عشق کو پہلی سی مرکزیت حاصل نہیں ہے۔ نئی نسل کے مسائل عشق کے سوا اور بھی بہت کچھ ہیں۔

نئی غزل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ غزل انسانی زندگی اور اس کے ماحول کے رشتوں اور رابطوں کو بالکل نئے انداز میں دیکھتی ہے۔ یہ غزل انسانی زندگی اور اس کے ماحول کے رشتوں اور رابطوں کو بالکل نئے انداز میں دیکھتی ہے۔

نئی غزل نے فرد کے اندر شعور اور ذمے داری کا احساس عام کیا ہے۔ اس نے فرد کو داخلی طور پر خود کفیل اور خود مختار بنانے کی کوشش کی۔ نئی غزل نے انسان میں انسانیت اور فرد میں انفرادیت قائم رکھنے کے رجحان کو فروغ دیا۔ اس نے صرف رویے اور موضوع کی سطح پر انفرادیت کا تقاضا نہیں کیا بلکہ اسلوب میں بھی اپنا انفراد قائم کرنے کی کوشش کی۔

نئی غزل کے شاعروں نے جس طرح کی لفظیات کا سہارا لیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ جدید تر غزل میں پرانی علامتوں سے بھی استفادہ حاصل کیا جاتا ہے مگر انھیں اپنی الجھنوں کے اظہار کے لیے نئے الفاظ اور علامتوں کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ نئی غزل صرف انگریزی کے الفاظ باندھ دینے سے نہیں بنتی بلکہ اس کے لیے نئی آگہی اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔

حرفِ آخر

نئی غزل میں بہت سی خوبیاں اور چند کمیاں موجود ہیں لیکن ادب ترقی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مطالعے کو وسیع کیا جائے اور مشاہدے کو تیز کیا جائے۔ غزل میں انگریزی حرف شامل کرنا غزل کی جدیدیت نہیں ہے بلکہ غزل میں اس زمانے کے مسائل و ماحول پر بات کرنا غزل کی جدیدیت کی علامت ہے۔

ساجد منیر ریسرچ سکالر: شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری (جموں و کشمیر)