غیر مسلم کے لئے RIP کہنا کیسا؟

یہ ایک دعائیہ جملہ ہے جس کے معنی مرحوم و مغفور کے ہوتے ہیں۔ تو اب سوال یہ ہے کہ کافر و مشرک اور ایسے نام نہاد مسلمانوں کے لیے جن کے اعمال قرآن و حدیث کے سراسر خلاف ہیں اور جو کھلم کھلا شریعت اسلامیہ کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے لیے Trending Word RIP یعنی مرحوم و مغفور کہنا اور جنتی ہونے کی دعا کرنا کیسا ہے؟

تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ایسے نام نہاد مسلم اور اللہ کی وحدانیت اور رسول کریم ﷺ کی رسالت پر یقین نہ رکھنے والوں کے لیے دعاے مغفرت یعنی RIP کہنا جائز نہیں ہے بلکہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے تو ایسے لوگوں کو جو کافروں کے لیے دعاے مغفرت کرتے ہیں، کافر گردانا ہے۔ قرآن کریم کی سورۃ توبہ کی آیت نمبر 113 میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے” مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (113) ترجمہ: ” یہ بات نہ تو نبیﷺ کو زیب دیتی ہے اور نہ دوسرے مومنوں کو کہ وہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی لوگ ہیں”

قرآن کریم کی اس آیت سے ثابت ہوا کہ کسی کافر اور اللہ کی وحدانیت کو جھٹلانے والے کے لئے دعائے مغفرت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے اور ہمیں کس طرح ایک انسان ہونے کے ناطے اظہارِ افسوس کرنا چاہیے۔ تو آئیے اس کا طریقہ ہم قرآن سے پوچھتے ہیں کہ اے قرآن ! تو ہمیں ایسا درمیانی راستہ بتا کہ جس پر چل کر ہمارا ایمان بھی محفوظ رہے اور اظہار تعزیت بھی ہو جائے۔ تو قرآن دوسرے پارے کے دوسرے صفحہ میں کہتا نظر آتا ہے “انا للہ و انا الیہ راجعون” (بے شک ہم یعنی ہماری زندگی اللہ کے لیے ہے اور بے شک ہم یعنی مر کر اللہ کے حضور حاضر ہونے والے ہیں)۔

لیکن آج کل کی نوجوان نسل کو اس طرح کے الفاظ بغیر اس کے نتیجہ اور انجام کی فکر کیے بغیر استعمال کرتے دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوتا ہے۔ کیا مسلمان ہونے کا بس یہی مطلب ہے کہ ہم مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے، نمازیں پڑھ لیں اور روزے وغیرہ رکھ لیے۔ اگر ہم ایسا کچھ سمجھ رہے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اپنی سمجھ کو ایک بار اطمینان سے ضرور سمجھائیں اور بتائیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہرگز بھی نہیں ہے بلکہ ایک مسلمان ہونے کا مطلب وہ ہے جو اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن میں فرمایا ہے یعنی “وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا” یعنی اس پر عمل کرو جس کا رسول کریم ﷺ نے حکم دیا اور اس سے دور رہو جس سے رسول کریم ﷺ نے منع فرمایا۔

یعنی رسول کریم ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا کہ ہم کافروں کے لیے ہدایت کی دعا کریں نہ کہ ان کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کافروں کے لیے مغفرت کی دعا کر کے اس چیز سے قریب ہو جائیں جس سے دور رہنے کا نبی کریم ﷺ نےحکم دیا ہے اور نہ کہ صرف ہم دور ہو جائیں بلکہ ضیاع ایمان کے ساتھ ساتھ عذاب و غضب الہی کو بھی قریب کر لیں۔

یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ “بے شک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے”۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اسی دین پر قائم رہیں جو کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اس خالص دین میں محض دوسروں کی خوشنودی اور مال و زر کے لیے خلط ملط کر کے دارین کی نعمتوں سے ہمیشہ ہمیش کے لیے محروم ہو جائیں اور جو ایمان کی لا زوال دولت بن مانگے ملی ہے، وہ بھی ہم سے مسلوب ہو جائے۔ اللہ تعالی ہمیں راہ مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور شیطانی مکر و زور سے ہماری حفاظت فرماۓ۔ آمین بجاہ سید المرسلینﷺ۔

یہ پیغام ان لوگوں تک ضرور پہنچائیں جو اس طرح کے کفریہ عمل بھائی چارگی کے پردے میں روا اور جائز سمجھتے ہیں اور نہ صرف جائز بلکہ اسے کار خیر و ثواب شمار کرتے ہیں۔