مابعد جدیدیت کیا ہے

مابعدِ جدیدیت تنقید کی ایسی کسوٹی ہے جو مغرب میں ادبی تنقید کے علاوہ آرٹ ، آرکیٹیکچر اور فنونِ لطیفہ میں انقلاب رونما کر چکی ہے۔ حتیٰ کہ نصابِ تعلیم میں معیار کے پیمانے کے طور پر رائج ہو چکی ہے لیکن اردو ادب کے مفکر اور نقاد ابھی تک اس کی ماہیت اور انعقاد کے طریقِ کار کی گتھی کو سلجھانے میں لگے ہیں۔

مابعدِجدیدیت کے مطابق تنقید اور پرکھ کے پیمانے وضع کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی اس سلسلے کی تحقیق کو جھٹلانے اور نیچا دکھانے میں مصروفِ عمل ہیں ۔ یہ اتنا بڑا ہوا نہیں جتنا اس کو چند جید افراد نے بنا ڈالا ہے ضرورت اس بات کی ہے اس کی پرتوں کو کھول کر عرق کشید کیا جائے۔ مابعدِجدیدیت دراصل جدیدیت کے رحجانات کے خلاف ردِعمل کا اظہار ہے۔ یہ بنیادی طور پر ثقافت کی تشریحات، فنونِ لطیفہ یعنی ادب، مصوری ، موسیقی، فکشن، آرٹ فنِ تعمیر اور فلسفہ ، تاریخ معاشیات اور ادب میں نقل و حرکت کی پیمائش اور معیار ناپنے کی کلید ہے اور عموماً تاریخی عناصر اور تراکیب کی تشکیلِ نو کی نشاندہی کرتی ہے۔تاریخ ، پسِ منظر اور بیرونِ منظر ماحولیاتی تاثر اور زمانہ مابعدِجدیدیت کا ڈھانچہ تخلیق کرتے ہیں۔

معاشرتی سطع پر ثقافت اور ذیلی ثقافت کی حرکات و سکنات تغیر پذیری کی طرف مائل ہیں ۔ مابعدِجدیدیت میں ثقافتی بایافت کے مسئلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

مابعدِجدیدیت کے نظریے کے مطابق فنونِ لطیفہ کی جمالیات ثقافتی پسِ منظر میں ہی پروان چڑھتی ہیں ۔ اْن کے جْلو میں نہ صرف جمالیات بلکہ ادب و فن از خود خْلق ہوتا ہے اور اس کی نکھری ہوئی واضح تصویر سامنے آتی ہے۔ اس کی آئیڈیالوجی کی فلسفیانہ جمالیات کا دائرہ عمرانیات، بشریات، ابلاغِ عامہ ، ثقافت اور سیاسی نظریات تک وسیع ہے۔

کسی سکہ بند سوچ اور نظریاتی جمود کے باعث اور دائرہ فکر محدود ہونے کے سبب مابعدِجدیدیت کو آزادی اور مساوات کی بنیاد پر قائم ایک سیاسی فلسفہ یا دنیاوی مشاہدے کا نظریہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دنیاوی مشاہدہ کا نظریہ سماجی مساواتی نظام میں زیادہ نظر آتا ہے جب کہ سیاسی فلسفہ کلاسیکی مساواتی آزاد نظام کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جمہوریت اور مساوات کا نیا نظام کہہ سکتے ہیں ۔ مابعدِجدیدیت کی رو سے عمرانیاتی اور بشریاتی علوم کا وجود فنونِ لطیفہ کی جمالیات کی نوک پلک سنوارتا ہے۔ لیکن جدیدیت نے عمرانیاتی اور بشریاتی علوم کو رد کر دیا تھا۔ مابعدِجدیدیت نے ان کو دوبارہ داخلِ دفتر کرکے نئے فکری اور تنقیدی عوامل کو خلق کیا۔

مابعدِجدیدیت کی روشنی میں تنقید اور نظریاتی مسائل کی جانچ ایک طے کردہ پیمانے پر کی جاتی ہے اور معروضی عقلیت و منطق کی کسوٹی پر پرکھ کر ادبی مواد اہم اور غیر اہم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

جدیدیت

مابعدِجدیدیت کو جدیدیت کی ترویج سمجھنے والوں کو اس بات کو اچھّی طرح ذہن نشیں کر لینا چاہیے کہ جدیدیت میں تجدید پرستی پوشیدہ ہے۔ کیونکہ روایات اور تکنیکی عوامل میں جدیدیت کا امتزاج کرکے نئے سرے سے اپنانا، دوبارہ تحریر کرنا یا ہو بہو نقل بنانا لیکن اس نقل کو اصل کی نسبت زیادہ بہتر طور پر پیش کرنا جدیدیت کے کچھ پہلو ہیں ۔ اس کے لیے تجدید یا تجدید پرستی کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ جدیدیت انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں مغربی معاشرے میں ثقافتی رحجانات اور ان رجحانات میں خارجی اثرات سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے امکانات کی وسیع پیمانے پر دور رس فکرو نظر کی ایک فلسفیانہ تحریک ہے۔ یہ شہری زندگی کی جدید خطوط پر تیزی سے نشو و نما اور انڈسٹری میں نئی مشینری کے اطلاق یعنی صنعتی معاشرے کی جدید تشکیلِ نو کی تحریک ہے جو اک جمالیاتی تجزیہ کے طور پر استعمال کی گئی اور یہ پہلی جنگِ عظیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے مخصوص ردِ عمل کے طور پر اور فریڈرک نطشے کے دور کے مختلف دانشوروں اور فنکاروں کے کام کی تکنیکی مخالفت اور نظریہ? لا یعنیت اور لا مذہبی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔

مذہبی تنقیدی نقطۂ نظر اور مابعدِ جدیدیت

جدیدیت کے نظریۂ لا یعنیت اور لامذہبی پہلوؤں کے بارے میں اس تبصرے کی ضرورت اس لیے ہے کیونکہ مابعدِجدیدیت کیذریعے مذہبی تنقیدی نقطہ? نظر سے رویہ اور عقیدہ کی تبدیلیوں کو پیش کیا گیا ہے یہاں یہ بھی قابلِ غور امر ہے کہ تنقید کا دائرہ کار مذہبی تنقید تک بڑھانا اور جدیدیت کے انتشارِ رائے سے فرار ہونا مابعدِجدیدیت کی ترویج اور موجودگی کی اہم وجہ و مقصد ہے۔ یہ الہیات سے بھی بحث کرتی ہے۔ الہیات کو اس سے الگ ثابت کرنے کی کوششیں حقیقت کو بدل نہیں پائیں گی۔ الہیات خدا اور مذہبی خیالات کی نوعیت کے تصورات کی منظم شکل اور منطقی مطالعہ ہے۔ لیکن عام طور پر اس پر عبور کسی الہیات کی یونیورسٹی ، مدرسہ ، دارلعلوم یا اسکول میں مذہبی علوم کی خصوصی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرکے کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے مذاہب میں گرو چیلے، پروہت۔ پیری مریدی وغیرہ کے ذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔ لیکن اس وقت میرا موضوع الہیات نہیں ۔ اس پر سیرِ حاصل تبصرہ الگ سے کیا جا سکتا ہے اور مختلف ادوار میں مختلف افراد نے کیا بھی ہے۔ انشاء اللہ بشرط حیات اس پر روشنی ڈالی جائے گی۔

مابعدِ جدیدیت کا اطلاق اسلامی معاشرے میں ہمیشہ ہوا لیکن اس کو باقاعدہ ایک اصطلاح کے طور پر متعارف کروانے کے لیے کسی مفکر کا فکر انگیز مواد موجود نہیں ۔ بلکہ اسے دیوانے کی بڑ خیال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جو اسلامی معاشرت کو گئی گزری چیز گردان کر مغربی معاشرت کو اس پر فوقیت دیتے ہیں ان کے اطمینانِ قلب کے لیے صرف مغربی ترکی کی اسلامی معاشرت کے ایجاد کردہ کوٹ پینٹ کی ایک مثال ہی کافی ہے۔ قدیم عربی چوغے کا بٹن کے ساتھ بند گلا اور پوری آستین ترکی کے اس لباس میں شامل کی گئی اور جسمانی اعضاء کے پردہ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نئے انداز کا ایک لباس تخلیق کیا جس کو آج پینٹ کوٹ کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ وہ لباس ہے جس کی نفاست اور خوبصورتی نے بعد میں سارے مغرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ مابعدِ جدیدیت اسلامی معاشرت کا حصّہ بہت پہلے تھی لیکن اس کی ہیت اور واضح شکل کو کوئی نام یا اصطلاح دینے والے مفکر نہیں تھے۔

مابعدِجدیدیت کی اصطلاح سب سے پہلے 1870 کے لگ بھگ استعمال ہوئی۔ فرانسیسی مصور جان واٹ کنز چیپ مین نے یہ مصوری میں سب سے پہلے روشناس کروائی۔ یہ فرانسیسی مصوری کے تاثرات سے اخذ کی گئی بلکہ فرانسیسی تاثرات برائے مصوری کا ایک جْز تھی۔

جے ایم تھامسن J. M. Thomson نے 1914ء میں ہیبرٹ Hibbert جرنل ( یہ فلسفیانہ جائزوں پر مبنی رسالہ تھا ) میں چھپنے والے اپنے آرٹیکل میں رویہ اور عقیدت کی تبدیلیوں کو مذہبی تنقیدی نقطہ? نظر کے آہنگ کے ساتھ پیش کرکے مابعدِجدیدیت کے مفہوم کی جامع تشریح کی۔

1921ء سے 1925ء کے دورن مابعدِجدیدیت سے آرٹ اور موسیقی کے تنقیدی عوامل کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ 1939ء میں آرنلڈ جے ٹوئن بی نے اس کی اصطلاح تاریخی تحریک کے عام اصول کے طور پر بیان کی۔ انہوں نے اپنی کتاب اے سٹڈی آف ہسٹری A Study of History میں صفحہ 43 پر لکھا ہے کہ ہماری مابعدِجدیدیت کے زمانے کی ابتداء 1914ء سے 1918ء کی ہونے والی جنگ سے ہو گئی ہے۔ ایچ آر ہیز H. R. Hays نے 1942ء میں اسے ادب کی نئی تقسیم قرار دیا۔

1949ء میں مابعدِجدیدیت کی اصطلاح فنِ تعمیر میں جدیدیت سے عدم اطمینان کے لیے استعمال کی گئی۔ اور مابعدِجدیدیت کو فنِ تعمیر میں تعمیری تحریک کی حیثیت حاصل ہوئی۔ اور اس کو بین الاقوامی اندازِ فنِ تعمیر کے نام سے پہچانا جانے لگا۔

مابعدِجدیدیت میں فنِ تعمیر کا الگ نکتہ? نظر جس میں سطح کی سجاوٹ اور گردو نواح کی عمارات کی تعمیر کے حوالہ جات اور سجاوٹ کی اقسام کے تاریخی حوالہ جات اور غیر عمودی زاویوں کی نشاندہی کو شامل کیا گیا۔ پیٹر ایف ڈرک کر Peter F Drucker آسٹریا میں پیدا ہوئے وہ امریکہ کے ایک معروف ادیب ہیں جو کہ انتظامی مشیر اور ایجوکیٹر بھی تھے ، نے 1937ء سے لے کر 1957ء کے درمیان کے عرصہ کو مابعدِجدیدیت کے عمل میں آنے کا دور قرار دیا۔

پیٹر نے اسے “بے نام دور” کے نام سے منسوب کیا۔ ایسا بے نام دور جو کہ میکانکی عوامل کی بجائے دنیا کے تصوراتی نظام جو کہ روایتی عوامل و مقاصد پر انحصار کرتا ہے , کی طرف تبادلے پر مبنی ہے۔ اس نے مابعدِجدیدیت کے ادوار پر اور زماں و مکاں پر اثرات کے حوالے سے چار نئے حقائق کی نشاندہی کی۔

  • 1۔ تعلیم یافتہ معاشرے کا خروج
  • 2۔ بین الاقوامی ترقی کی اہمیت
  • 3۔ قومی ریاست کو مسترد کرنا یعنی قومی ریاست کی کمی
  • 4۔ غیر مغربی معاشرت و ثقافت کی کامیابی کے آثار یا مواقع کا خاتمہ

پیٹر ایف ڈرککر کے یہ چاروں حقائق تمام مشرقی اقوام کے لیے لمحہ? فکریہ ہے۔ انتظار ہے ہو چمن میں دیدہ ور پیدا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مفکر اپنے نکتہ? نظر کو بیان کرتا ہے اور دنیا کو اسی طرح دکھاتا ہے جیسے کہ وہ خود متصور کرتا ہے۔

1971ء میں لندن کے ایک آرٹ کے ادارے ، انسٹیٹیوٹ آف کون ٹیمپوریری آرٹ لندن Institute of Contemporary Art میں ایک سیمینار میں اپنے ایک لیکچر میں تصوراتی تصاویر اور تنصیبی آرٹ کے مصور میل بوشنر Mel Bochner نے جیسپر جونز Jester Johns جو کہ ایک امریکن مصور اور پرنٹ میکر تھا کو مابعدِجدیدیت کا بنیاد کار متصور کرتے ہوئے کہا کہ جیسپر نے حساس مواد sense data اور واحد نقطہ? نظر کو آرٹ کی بنیاد کے طور پر پرکھا ہے , لطیفہ کے حلقے میں آنے والے چاہے وہ آرٹ ہو ادب، فکشن یا موسیقی ان کا تنقیدی تحقیقات سے گزرنے کا عمل سونے کا بھٹی سے گزر کر کندن بننے کا عمل ہے۔

والٹر اینڈرسن جو کہ 1933ء میں پیدا ہونے والے سوشل سائیکولوجسٹ اور ادیب ہیں اور سیاسی شعور رکھتے ہیں , انہوں نے اپنے ایک پبلک لیکچر میں مابعدِجدیدیت کو الہامی کتاب انجیل مقدس سے جڑے چار دنیاوی نظریات کے طور پر شناخت کیا۔