نظم “عروسِ حبِ وطن” کا خلاصہ

نظم “عروسِ حبِ وطن 14 اشعار پر مشتمل نظم ہے جسے قطعہ کی ہیت میں لکھا گیا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے وطن کی محبت کو ایک محبوب کے روپ میں پیش کیا ہے۔عروس حب وطن ” چکبست کی قومی و وطنی شاعری کی بہترین مثال ہے۔

چکبست نے اس نظم میں وطن سے اپنی والہانہ محبت کا بہت خوبصورت اظہار کیا ہے۔انھوں نے نظم میں اپنے شاعرانہ کمال کو بروئے کار لایا ہے۔ شاعر نے وطن کو معشوق تصور کرکے اپنی بات کہی ہے۔ جس طرح ایک سچا عاشق اپنی معشوق سے اظہار محبت کرتا ہے اور عہد و پیماں کرتا ہے۔ چکبست نے بالکل اسی لب و لہجے میں اپنامد عا پیش کیا ہے۔

شاعر کہتا ہے ک اے دلہن جیسے پیارے اور محبوب وطن میرے لیے تم سب سے عالی مرتبہ اور بہترین ترین ہو۔میری آنکھیں ہر وقت تمھاری تلاش اور تمھارے دیدار کی تلاش میں محو رہتی ہیں۔ تمھیں دیکھنا اور تم سے محبت ہی میری اصل جستجو ہے۔اے جذبہ حب وطن تو میں میری زمین پر آ۔ میرے گھر آ۔ میری آنکھیں تیری ہی تلاش میں کھوئی ہوئی ہیں۔ تو میرا معشوق ہے۔ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ تو بھی مجھ سے محبت کر۔ جس دن مجھے تجھ سے ( وطن سے) سچی محبت کا پتہ ملے گا اس دن میں اس سے بغل گیر ہو جاؤں گا۔اس کے زانوں پر (قدموں) اپنا سر رکھوں گا اور اس کے عشق میں اپنے آپ کو نچھاور کر دوں گا۔ تیرے عشق میں سرمست و مسرور ہو کر اپنے آپ کو تجھ پر قربان کر دوں۔

شاعر عروس محب وطن سے مخاطب ہو کر کہتا ہے : اۓ عروس حب وطن ! میرے پاوں ٹوٹ جائیں اگر مجھے تیری تلاش نہ ہو۔ میری آنکھ پھوٹ جاۓ اگر مجھے تیری جستجو نہیں نہ ہو۔ جس گھر میں تیری محبت کی روشنی نہ ہو اس گھر میں اندھیرا ہو جائے۔ اس گھر کے مکیں تباہ وبرباد ہو جائیں۔ وہ دل سیاہ ہو جائے جس میں تجھے پانے کی، تجھ سے محبت کرنے کی آرزو نہ ہو۔ میری دنیاو آخرت خراب ہو جائے ، میرا انجام برا ہو ، اگر میرے دل میں تیرے سوا کسی اور کی چاہت ہو۔ اگر میں حوروں پر عاشق ہو جاؤں تو مجھے جہنم نصیب ہو۔ میں بے ایمان ہوں اگر میں غیر کو چاہوں تو۔ نظم کے اس حصے میں شاعر نے وطن سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے۔

شاعر نظم کے آخری حصے میں قومی بچتی کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : جس شخص کو تجھ سے محبت ہے ، جو تیری عبادت کرتا ہے ،اس شخص کے لیے ہند و یا مسلمان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیوں وہ کہ مذہب سے اونچا اٹھ کر حب وطن کو فوقیت دیتا ہے۔ اس کو وطن کی ہر شئے سے محبت ہو گی۔ مسلمان گنگا میں سنان کرے گا اور اسی گنگا کے پانی سے برہمن وضو کرے گا۔ کیوں کہ وطن سے محبت کرنے والوں کے لیے گنگا اپنے وطن کی ندی ہے۔ وہ نہ ہند و ہے نہ مسلمان۔

شاعر کہتا ہے کہ اے وطن ! تیرے عشق کی راہ پر چلنا ہی میرا ایمان ہے کیونکہ میں تیرے جاں نثاروں میں سے ہوں۔میں تیرافدائی ہوں۔ شاعر اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوۓ مزید کہتا ہے کہ میری نظروں میں صرف تیرا حسن و جمال رہے اور میری آنکھوں میں ہمیشہ تو ہی تو بسار ہے۔