نور محمد نور کپور تھلوی ۔۔۔ اِک شجرِ سایہ دار تھا ۔۔ نہ رہا

(Dr Izhar Ahmed Gulzar, Faisalabad)

احوال و آثار (۱۹۹۷ء۔۱۹۱۷ء)
آنے لگی اُن کو بھی اب یاد نورؔ کیجب سے یہاں وہ درد کا مارا نہیں رہا(نور محمد نور کپورتھلوی)پاکستان کے ممتاز شاعر، ادیب ، ماہر لسانیات ، مؤرخ ، ماہرِ علم بشریات و فنونِ لطیفہ اور دانشور جناب نور محمد نور کپور تھلوی نے ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء جمعہ کے روز دوپہر ڈیڑھ بجے فیصل آباد (لائل پور) پاکستان میں اس دھوپ بھری دنیا کو چھوڑ کر عدم کی بے پناہ وادیوں کی طرف رختِ سفر باندھ لیا۔ علم و ادب کا خورشید جہانِ تاب جو ۵/اگست ۱۹۱۷ء کو ہندوستان کے ضلع جالندھر کی ریاست کپور تھلہ کے ایک گاؤں نور پور راجپوتاں میں طلوع ہوا اور ۱۹ ستمبر ۱۹۹۷ء کو فیصل آباد پاکستان میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ فیصل آباد کے نواح میں واقع ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب بابے دی بیر (براہ ڈجکوٹ) کی بے آباد زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ خرابات آرزو پر اس کی دائمی مفارقت کا غم اس طرح برسا کہ میرے وجود کی تمام توانائیاں کمزور پڑ گئیں۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور کچھ بھی تو سجھائی نہیں دیتا۔ آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے اور دل کی ویرانی کا اب کیا مذکور؟ الفاظ میرے ہونٹوں پر پتھرا گئے ہیں اور میں اپنے جذباتِ حزیں کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے دشواری اور دُکھ محسوس کر رہا ہوں۔ فرشتۂ اجل نے اس فطین، فعال، مستعد اور زِیرک تخلیق کار سے قلم چھین لیا جو گزشتہ سات عشروں سے تخلیق ادب میں ہمہ وقت مصروف تھا۔ ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جن کے دم سے ہمارے دل کی انجمن میں اُجالا ہوتا ہے۔ جب زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے پناہ وادیوں میں غروب ہو جاتے ہیں تو سفاک ظلمتیں اور جان لیوا سناٹے ہمارا مقدر بن جاتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پر شہر کا شہر سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اُس کی یاد میں بزم ادب ایک عرصے تک سوگوار رہے گی۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہم اپنے رفتگان کو یاد کر کے اپنے دلوں کو ان کی عظمتوں کی امین مہک سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی فرقت کے زخم نے جو صدمے دیے ہیں ۔ اُن کے احساس سے کلیجہ مُنہ کو آتا ہے ۔ میری محفل کے کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب غروب ہو گئے اور فیضانِ نظر کا نور بکھیرتے روشن چراغ اجل کے ہاتھوں بُجھ گئے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ موت کی مبسوم ہواؤں نے میرے سب چراغوں کو دیکھ لیا ہے اور اب میں جان لیوا تنہائی کے عالم میں شہر آرزو کی ویرانی پر اشک بہانے اور لٹی محفلوں کی نوحہ خوانی کے لیے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہوں۔الفاظ میں کب چھُپتے ہیں دُکھ درد دلوں کےخود کو بہلا رہا ہوں یونہی کاـغذوں کے ساتھ
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اپنے جذباتِ حزیں کو کہاں سے شروع کروں اور کہاں پر اس درد و غم کا اختتام کروں۔ وہ شخص جس نے اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ہو۔ جس نے ابتدائی حروف ۱ ب پ ت اور A B C Dسے سفر شروع کر کے ماسٹرز اور اعلیٰ تعلیم کے مدارج میں علم کی شمع سے ایک بچے کے دل و دماغ کو منور و تاباں کیا ہو۔ جس کی ہر بات اور گفتگو میں حکمت و دانائی پنہاں ہو۔ جس کی آنکھوں کی چمک میں زندگی کو سلیقے سے گزارنے کی چمک ہو۔ آج اس عظیم ہستی کے احسانات کو گنوانا شروع کروں تو صفحۂ قرطاس کی وسعت کم پڑ جائے گی۔ نور محمد نورکپور تھلوی سے میرا تعلق خاطر کسی ادیب یا قلم کار کا ہی نہیں تھا بلکہ وہ میرے محسن و مربی ، شفیق اُستاد اور تایا جان تھے۔ چھٹی جماعت سے دہم تک میں باقاعدہ انگریزی ، اردو ، ریاضی اور دیگر مضامین اُن کے ہاں پڑھنے کے لیے جایا کرتا تھا۔ جب وہ الجبرا کے سوالات حل کرواتے تو ایسے نادر کلیے استعمال میں لاتے جو کسی نصابی کتب میں موجود نہ ہوتے۔ جب ہم اپنے سکول کے استاد کو وہ سوالات دکھاتے تو وہ حیرانی سے استفسار کرتے کہ یہ کلیہ تم نے اپنے پاس سے کیسے لگایا تو راقم(اظہار احمد گلزار) عاجزانہ عرض کرتا کہ یہ سوال اس کلیے سے میرے تایا جان نے کر کے دیا ہے جو کہ خود پڑھے لکھے انسان ہیں۔ اگرچہ وہ فارغ البالی کی زندگی گزاررہے تھے لیکن انھیں اپنے عزیز رشتہ دار بچوں کو پڑھانے میں ایک لُطف اور طمانیت میسر ہوتی تھی۔ میرے خاندان کے بہت سارے جوانوں کے سینوں کو قندیل علم سے منور کرنے میں ان کی دل چسپی اور کاوشوں کا بڑا دخل ہے ۔ اُن کے شاگرد بھتیجے ،بھانجے آج زندگی کی دوڑ میں نہایت اعتماد کے ساتھ ذمہ دار عہدوں پر فائز ملک و ملت کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔
انسانی ہمدردی ، پیار، ایثار، رواداری ، بے لوث محبت ، بے باک صداقت کو تمام عمر حِرز جاں بنانے والے جری تخلیق کار نور محمد نور کپور تھلوی کے دامن میں ہمیشہ محبت کے لازوال پھول ہوتے۔ اُن کا ظاہر اور باطن شفاف آئینے کی مانند ہوتا تھا اور بعد ازاں الفاظ کے روپ میں قلم و قرطاس کی زینت بنتا چلا جاتا ۔ اُن سے مل کر خود اپنی ہی ذات سے عشق ہو جاتا تھا۔ شاید انھی کے لیے سرور بارہ بنکوی نے کہا تھا۔جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگآپ نے دیکھے نہ ہوں شاید ، مگر ایسے بھی ہیں
سکول کے زمانے میں وہ ہمیں اپنی کوئی ایک یا دو نظمیں غزلیں سنایاکرتے تھے۔ لیکن جب ہم سکول کے مدارج طے کر کے کالج کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کے کلام سنانے کا کوٹہ بھی بڑھ گیا تھا۔ پڑھائی کے دوران ہمیں ان کی ایک دو نظمیں غزلیں ضرور سننا پڑتی تھیں اور یہ سلسلہ گویا ہماری پڑھائی کا ہی حصہ بن چکا تھا۔ میرے ساتھ میرے کزن ابرار احمد، اشتیاق احمد ، الطاف احمد اور دیگر کئی نوجوان ان سے اکتساب فیض حاصل کر رہے ہوتے تھے ۔ ان کے پاس معروف شعراء و ادباء کو آتے دیکھ کر میرے باطن میں چھپے قلم کار نے بھی باہر آنے کی جسارت شروع کر دی تھی۔ میں نے کالج کی پڑھائی کے دوران ایک مضمون بعنوان ’’اُجالے میں خرافات‘‘ لکھ کر انھیں دکھایا تو بہت خوش ہوئے اور مزید مشق کرنے کی نصیحت کی۔ میں نے اردو اور پنجابی ادبیات کے کئی قادر الکلام شاعر اور قلم کار پہلی بار ان کی بیٹھک میں دیکھے تھے جن میں صدف جالندھری ،بسملشمسی ، جوہر جالندھری، عبیر ابو ذری، ڈاکٹر اقبال فیصل آبادی، احمد شہباز خاور، شوق عرفانی، عبدالستار نیازی، دلشاد احمد چن، بری نظامی و دیگر شامل ہیں۔ بعد ازاں وہ مجھے اپنے ہمراہ مشاعروں میں لے جانے لگے ۔ مقامی مشاعروں سے بڑھتے بڑھتے ان مشاعروں کا دائرہ کار صوبہ کی سطح تک پھیل گیا۔ پھر میں ان کے ہمراہ کئی شہروں کے مشاعرے سننے کے لیے ان کا ہم سفر بننے لگا۔ کڑیال کلاں اور جنڈیالہ شیر خان سے ان کو خاص عقیدت تھی۔ کیونکہ کڑیال کلاں (ضلع گوجرانوالہ) میں نور محمد نور کپور تھلوی کے استاد پنجابی زبان و ادب کے درویش صفت شاعر اور محقق سید تنویر بخاری کا آستانہ ہے جہاں سید تنویر بخاری کے چچا سید عبداﷲ شاہ بخاری کا مزار اقدس ہے جبکہ جنڈیالہ شیر خان (ضلع شیخوپورہ) میں عظیم صوفی پنجابی شاعر پیر سید وارث شاہ کا مزار پُر انوار ہے۔ اس طرح میں بھی ان کے ہمراہ ان عرسوں کے تقریبات میں شرکت کے لیے ان کے ہمراہ جانے لگا۔
ہر سال ساون کی سات تاریخ کو پیر وارث شاہؒ کے سالانہ عرس میں شمولیت کی غرض سے ہم روانہ ہوتے۔ساون کی بھرپور گرمی ، حبس اور بارشیں بھی ہمارے ادبی ذوق کو کبھی متزلزل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ایک دفعہ پیر وارث شاہ کے دربار کے وسیع و عریض صحن میں گھاس پر لیٹے ہوئے میں (راقم) ان سے کہنے لگا کہ تایا جی اگر بھائی افتخار ہماری یہ ملنگوں والی حالت دیکھ لیں تو وہ ہمارے یہاں آنے پر پابندی لگا دیں گے۔ میری بات سن کر ایک بڑا قہقہہ لگاتے ہوئے فرمانے لگے۔’’اس کو ان مقامات کی قدر و منزلت کا کیا پتہ‘‘۔وہ ان روح کیف مناظر سے نا آشنا ہے۔ چھوڑو تم ادھر دیکھو۔دربار کے صحن میں بیٹھے بابا محمد دین منیر ، بیگم شکیلہ جمال، بشیر باوا، سلطان کھاروی ، امین راہی ، راجا رسالو، حمید جہلمی، لالہ محسن رفیع جواز، اطہر نظامی، شفقت تنویر مرزا، عصمت اﷲ زاہد، اقبال قیصر، اسلم کاشمیری، ویر سپاہی، احمد شہباز خاور اور سید تنویر بخاری اور کتنے احباب رونق محفل بنے بیٹھے ہیں۔ بھلا علم و ادب کی ان ہستیوں کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی پریشانی ہو سکتی ہے۔ پھر خود ہی پیر وارث شاہؒ کا لنگر لینے کے لیے قطاروں میں لگ کر ہمارے لیے لنگر لے کر آتے اور میں دل ہی دل میں سوچتا کہ عالمی ادبیات کا عظیم تخلیق کار نور محمد نور کپور تھلوی آج حضرت پیر وارث شاہؒ کے ایک ادنیٰ عقیدت مند کی حیثیت سے لنگر کے لیے ضابطے کے تحت قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ یہی اُن کی ایک صوفی شاعر سید وارث شاہؒ سے عقیدت و احترام کی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی جذبے سے سرشار میں نے اُن کو کئی بار قطار میں با ادب کھڑے دیکھا ہے۔ پیر وارث شاہؒ کے عر س میں اس قدر خوش اور کشاں کشاں نظر آتے جیسے کسی شادی کی تقریب میں آئے ہوئے ہوں۔ کبھی دربار کے احاطے سے باہر گھنے برگد کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہیر خوانی سننے کے لیے چلے جاتے اور کبھی دو چار شاعر دوست اکٹھیکر کے مشاعرہ سجا لیتے۔ ہر نئے آنے والے شاعر کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اُٹھ جاتے اور خوشی اور مسرت سے معانقہ کرتے۔ پیر سید وارث شاہؒ سے ان کی عقیدت کے حوالے سے متعدد نظمیں ملتی ہیں۔ ان کی ایک پنجابی نظم’’پیر وارث شاہ دا عرس‘‘ میں سے چند اشعار نذر قارئین ہیں۔جیوندا جاگدا میں پنجاب ڈِٹھاوارث شاہ دے عرس تے جا میاںڈھولی ڈھول تے ڈگا جد ماردے سنہندا خوب سی گج گجا میاںکِتے پوے دھمال تے کِتے لُڈیکِتے ہیر دا پڑھن پڑھا میاں(ترجمہ:آج میں نے وارث شاہ کے عرس میں پنجاب کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ پنجاب اپنی اصلی حالت میں چلتا پھرتا اور خوشیاں مناتا زندگی کی خوشیوں میں شریک ہے۔ ڈھولی ڈھول کو پیٹ کر رونق بڑھا رہا ہے اس طرح ہر طرف خوب رونق لگی ہوئی ہے۔ کہیں لوگ دھمال اور کہیں لُڈی کے ذریعے اپنے دلوں کو مسرور کر رہے ہیں تو کہیں لوگ اپنے دلوں کو مسرور کرنے کے لیے ہیر خوانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔)
چودھری عبدالستار مرحوم(سابق جی ایم، سرگودھا جیوٹ ملز، شیخوپورہ) بھی نور محمد نور کپور تھلوی سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور وہ بھی متعدد بار سید وارث شاہ اور سید عبداﷲ شاہ بخاری کے آستانوں پر ہمارے ساتھ حاضری دیتے رہے ہیں ۔ وہ نور محمد نور کپور تھلوی کے فرزند اکبر کیپٹن محمد اکرم کے گہرے دوست تھے۔ چودھری عبدالستار ، نور محمد نور کپور تھلوی کے ہمراہ امرتا پریتم ، فیض احمد فیض ، حبیب جالب ، احمد فراز، سیف خالد، احمد ندیم قاسمی اور دیگر کئی نامور شعراء کو ملنے جاتے رہتے تھے۔
نور محمد نور کپور تھلوی ایک عالم فاضل انسان تھے ۔ میں نے اپنے بچپن میں انھیں پہلی بار انگریزی اخبار’’پاکستان ٹائمز(The Pakistan Times)‘‘ پڑھتے دیکھا ہے۔ دریاؤں کے پلوں سے بہت سا پانی گزر گیا ۔۔۔وقت کی دوڑ انسان کو بہت دور لے گئی لیکن ان کے ہاں’’ پاکستان ٹائمز‘‘ اخبار آتا رہا اور وہ ہمیں اس اخبار سے پیراگراف نکال کر ترجمہ کرنے کو دیتے رہتے۔ انگریزی زبان سے شغف نے انھیں انگریزی لکھنے اور پڑھنے کی طرف مائل رکھا۔
اپنے بیٹوں خصوصاً کیپٹن محمد اکرم سے جو بسلسلہ ملازمت سمندر پار جاتے رہتے تھے اُن سے انگریزی میں گھنٹوں طویل نشست کرتے۔ اسی طرح اپنے منجھلے بیٹے میجر ڈاکٹر محمد اسلم سے طبی نقطہ نظر سے بیماریوں اور انسانی افعال پر سیر حاصل گفتگو کرتے تو گمان ہوتا کہ وہ خود بھی ایک مایہ ناز ڈاکٹر ہیں۔
ان کی علم دوستی کے حوالے سے اُن کے بیٹے کیپٹن محمد اکرم رقم طراز ہیں:’’شعر و شاعری سے والدِ گرامی کی رغبت اور محبت اُس وقت بھی تھی جب میں پرائمری سکول کا طالب علم تھا۔ ۱۹۵۷ء میں ہمارے گھر میں فیض احمد فیض ، منیر نیازی، ساحر لدھیانوی کے علاوہ کئی نامور شعراء کے شعری مجموعے موجود تھے۔ ان کی چھوٹی سی لائبریری میں ’’نقوش‘‘ کے تمام ایڈیشن اُس وقت بھی موجود تھے ۔ اُس وقت وہ بہاولپور میں MVE (موٹر وہیکل ایگزامینر) تھے۔ جب میں چوتھی جماعت میں ہوا تو ان کو بہاولپور کے ساتھ ساتھ ضلع ملتان کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا۔ بعد ازاں ان کا تبادلہ ملتان ہو گیا۔ وہ ملتان کے مشہور شاعر عاصی کرنالی سے اپنی شاعری Discussکیا کرتے تھے اور ان سے’’ گلستان‘‘’’ بوستان‘‘بھی پڑھا کرتے تھے۔ علامہ اقبال کی تمام کتابیں بھی قرینے سے پڑی ہوتی تھیں۔ حساب اور الجبرے کی ایک کتاب جس کے مصنف دل محمد صاحب تھے وہ ہمیشہ ان کے میز پر پڑی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ فارسی کی بے شمار کتابیں بھی ان کی الماری میں موجود تھیں۔ ماشاء اﷲ ان کا جغرافیہ بڑا عمدہ تھا۔ بحری جہازوں کے Routesاور سمندری گزر گاہوں کے بارے میں ان کا علم بہت وسیع تھا۔ اس لیے ان سے گفتگو کر کے مزا آ جاتا تھا۔ گھر میں انھوں نے دنیا کا ایک بڑا نقشہ دیوار پر اپنے کمرے میں آویزاں کر رکھا تھا تو وہاں سے دیکھ کر میرے جہاز کے بارے میں پوچھتے کہ اس دفعہ نہر سویز کی بجائے امریکہ جانے کی بجائے جہاز نے راس اُمید کی طرف کا راستہ کیوں اختیار کیا۔‘‘(۲)
جس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنی شانیں ظاہر کر نے کے لیے بہت بڑی کائنات بنائی ہے۔ اس بڑے پھیلاؤ والی کائنات کے بارے میں غور و فکر کا ہونا کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں۔ صرف زمین اور زمین کے اوپر موجود مخلوقات کے بارے میں غور کرنا شروع کریں تو بندے کا دماغ، سوچ اور سوچنے کی تمام صلاحیتیں جواب دے دیتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی ان تمام مخلوقات کے بارے نہیں جان سکتا۔ ایک زمین، ایک موسم لیکن فصلیں مختلف اور اُن کی تاثیر بھی مختلف ہوتی ہے۔
جس طرح ہر علاقے اور ہر خطے کی آب و ہوا ، فصلیں، پھل ، پھول اور پودوں میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ہر علاقے اور ہر خطے کے رہنے والوں کے مزاج اور طور طریقوں میں بھی علیحدہ علیحدہ رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔ کپور تھلہ چڑھتے پنجاب میں ایک منفرد رنگ، ڈھنگ اور مزاج والی ریاست ہے۔ وہاں کے رہنے والوں کا رہن سہن ، طور طریقے اور سوچ فکر کی پہچان بھی منفرد تھی۔ کپور تھلہ کی پہلوانی کے چرچے بھی دور دور تک سنائی دیتے تھے۔ پہلوان کھُلے مزاج اور بہادر دل کا مالک ہوتا ہے۔۔۔۔نوابوں اور پہلوانوں کی دھرتی کپور تھلہ(ہندوستان) میں آنکھ کھولنے والی شخصیت میں ایک نام نور محمد ہے۔ ریاست کپور تھلہ کے علاقے نور پور راجپوتاں میں چودھری محمد بخش راجپوت کے گھر ۱۹۱۷ء کو پیدا ہونے والے نور محمد نے تیس سال اس دھرتی کا پانی پیا۔ ہوا خوری کی اور وہاں کی تہذیب و تمدن میں اپنے شب و روز گزارے۔۔۔۔پنجاب کی تقسیم کے بعد راجپوتوں کا یہ نوجوان پنجاب کے سورماؤں(بہادروں) کی سرزمین (رچنا دوآبہ) میں آباد ہو گیا۔ احمد خان کھرل ، سوجا بلوچ اور بھگت کبیر جیسے بہادروں کے دوآبے میں رہ رہ کر چودھر ی نور محمد نور کے اپنے سینے میں پیدا ہونے والے سچیار پودے کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع ملا۔ اُن کے اندر کے شاعر نے اڑتالیس سال بعد شعور کا الفا(لباس) پہنا۔ کانوں میں حق کی مندریں ڈالیں اور سچ کی ونجھلی بجانا شروع کر دی۔ انھوں نے سچ کی ونجھلی بجانا شروع کی تو ان کی پہچان ہی بدل گئی ۔ تب وہ چودھری نور محمد کی بجائے نور محمد نور کپور تھلوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ بقول نور محمد نور کپور تھلوی:وہ نورؔ مر چکا ہے جسے جانتے تھے تماک شخص بے نوا ہے جو بیٹھا ہے رُوبرو
یہ ایک سچی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سچے اور کھرے بندے کے علاوہ کسی دوسرے بندے کو سچ ہضم نہیں ہوتا۔ سچ ہر کسی کو مچ(آگ) لگاتا ہے۔ لیکن سچا بندہ ایسے سچ سے مزے لیتا ہے۔ سچی بات ہے کہ نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری میں سچ پڑھ کر مزہ آجاتا ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی فرماتے ہیں:قدر دانوں ہمارے شعر سُن لوکھِلے صحرا میں ہیں پھُول چُن لو(تھوہر کے پھول ، ص 82)
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنی شاعری کے باغ کی بنیادپختہ عمر میں رکھی جب ذہن اور سوچ پختہ ، ارادے مضبوط اور نظر دُور اندیش ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے باغ میں ہر طرح کے پھول کھلائے ہیں۔ ہر پھول کی خوشبو منفرد ، علیحدہ رنگ ، شکل و صورت جُداگانہ ، اس کی بناوٹ اور جسامت بھی دل کش اور منفرد نظر آتی ہے۔ اس باغ میں معاشرتی گلاب بھی نظر آتے ہیں اور وسیب کے گینڈے بھی ۔۔۔۔اخلاق کے چنبے بھی ہیں اور سماج کے موتیے بھی ،ذکری فکری رات کی رانی بھی ہے ، ثقافت کے آم اور مالٹے بھی، تہذیب کے تناور برگد بھی ہیں اور محبت کی شیشم بھی۔ نور محمد نور کپور تھلوی کے اس شعری باغ میں ظلم کی گرجھیں ، جبر کے شکرے ، کوڑ کے کوے، رشوت کے طوطے، بے انصافی کے اُلو، بے ایمانی کے گیدڑ، معاشی بگھیاڑ اور تفرقہ بازی کی لگڑ بگڑوں کو دور بھیجنے والی زور دار آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ ان زور دار آوازوں کو نظمیں کہا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں تہذیب و تمدن کا منہ زوال کی طرف ہو جائے اُسے ایسی آوازیں اچھی نہیں لگتی۔ بلکہ اس معاشرے کے عوام ادب کے معنی ہی بدل دیتے ہیں۔ وہ لب و رخسار ، جام و صبو، زلف و پیچ، خلوت خانہ ، میخانہ اور عیش و عشرت والی شاعری کو ہی ادب سمجھنے لگ جاتے ہیں۔(۳)
لفظ ادب تین حروف [+۱د+ب] کا مجموعہ ہے۔ یہ تینوں حروف الگ الگ لفظ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ۱=انسان ، د=دوستی، ب=بات،۔۔۔۔۔مطلب یہ ہوا کہ انسان دوستی کی بات کو ہی ادب کہا جاتا ہے۔ انسان کی خوشیوں ، غموں اور اس کے دُکھ درد کی باتوں کو شاعری میں سمونے یا نثر میں سجانے کا نام ہی ادب ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری انسان دوستی کی بھرپور عکاسی ہے۔ انسان دوستی علم بھی ہے اور ادب بھی ۔ جبکہ انسان دشمنی جاہلیت ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شعری مجموعہ ’’تھوہر کے پھُول‘‘ کی شاعری کو بہار کے پھُولوں سے تعبیر کرتے ہیں اور تازہ ہوا کے جھونکوں سے کسی طرح بھی کم نہیں سمجھتے۔قدر دانوں ہمارے شعر سُن لوکھِلے صحرا میں ہیں پھُول چُن لوہیں معنی خیز یہ کلمات میرےکرو جب غور اپنے سر کو دُھن لوبھروسہ خضرؑ پر بھی تم نہ کرنااگر امرت بھی دے تو اُس کو پُن لوسناؤ شعر جب بھی دوستوں کوتو سب سے نورؔ تم دادِ سخن لو
ممتازصُوفی شاعر ، محقق ، نقاد اور سکول آف تھاٹ سید تنویر بخاری ’’کلیاتِ نور‘‘ کے دیباچے میں رقم طراز ہیں:’’بابا جی نور محمد نور کپور تھلوی پنجابی کے تمام کلاسیکل شعراء کے عقیدت مند تھے۔ وہ خاص طور پر باوا فریدؒ ، شاہ حسینؒ، سلطان باہوؒ، بلھے شاہؒ، وارث شاہؒاور مولوی غلام رسولؒ کو بہت مانتے تھے۔۔۔۔نئے دور کے بھارتی شعراء میں موہن سنگھ ماہر، موہن سنگھ دیوانہ، درشن سنگھ آوارہ اور شِو کمار بٹالوی کو بہت سراہتے تھے۔ اردو شعراء میں اقبال ، فیض، حفیظ جالندھری، حبیب جالب،شوق عرفانی، قمراجنالوی اور خلیق قریشی ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔‘‘(۵)
شاعری میں اُن کا اپنا ہی انداز ہے۔ اُن کا اپنا کہنا ہے کہ:’’میں ادبی حوالے سے ’’غیر مقلد ‘‘ ہوں، میرے نظریے ، خیالات اور احساسات جیسے کیسے بھی ہیں ، میرے اپنے ہیں۔ میں نے کبھی کسی کی نظم یا غزل چوری نہیں کی۔ میں تو نئے رنگ ڈھنگ اور علیحدہ علیحدہ لہجے کو اپنی شاعری میں بیان کرنے کے تجربات کرتا رہتا ہوں۔‘‘(۶)
نور محمد نور کپور تھلوی مذہب کے سچے ماننے والوں میں سے تھے لیکن وہ مذہب کے ٹھیکے داروں، ملاں، ملوانوں سے سخت بیزار تھے۔ کیونکہ اُن کے نزدیک یہ لوگ ریا کار ہیں۔ وہ سچے اور سُچل پیروں کے آگے سر جھکاتے تھے لیکن جھُوٹے پیروں کو آگے بڑھ کر نمٹتے تھے۔ اس طرح وہ پیٹ کے لالچی رہبروں اور لیڈروں کی بھی بھرپور مذمت کرتے تھے۔ دیس پیار اور پاکستانیت اُن کے خون خمیر میں رچا ہوا تھا۔ وہ جاگیردار وں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے مقابلے میں محنت کشوں، مزدوروں ، کسانوں اور غریبوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن کمیونسٹ یا سوشلسٹ کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ وہ ابو ذر غفاری کے مرید ضرور ہیں۔ لینن یا مارکس کی پیروی بالکل نہیں کرتے۔ انھوں نے سیاسی موضوعات پر بھی نظمیں لکھیں لیکن معاشرتی موضوعات پر انھوں نے اپنے خیالات کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ اُن کے نزدیک ’’سیاست‘‘ شاعری کے لیے ’’شجر ممنوعہ‘‘ نہیں۔ اُن کی شاعری میں ’’مزاحمتی شاعری‘‘ کے عناصر وافر تعداد میں ملتے ہیں۔ اُنھوں نے ایوب، یحییٰ، بھٹو اور ضیاء دور کی آمریت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا ہے۔(۷)جو دانائے خود بین چاہتے ہو بننامٹانی پڑے گی تمھیں نورؔ ہستی(جہانِ رنگ و نور، ص 80)نورؔ اپنی زندگی میں اس حقیقت کو نہ بھُولباعثِ رحمت ہے نیکی اور بدی مذموم ہےحُلیہ، پیدائش، ابتدائی حالات، تعلیم
چوڑی پیشانی ، کڑاکے دار لہجہ، روانی زبان و قلم، بیدار ذہن، عالمانہ گفتگو، محققانہ باریکیاں، محبوبانہ مسکراہٹیں، تاریخ ساز ادائیں، میٹھے بول اور کڑوے حقائق ، راہ حق پر ڈٹ جانا۔۔۔۔یہ ہے نور محمد نور کپور تھلوی کی زیست کی مختصر کہانی۔۔۔۔
۵/اگست ۱۹۱۷ء کو راجپوت قبیلے میں چودھری محمد بخش کے گھر ریاست کپور تھلہ مشرقی پنجاب (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپور تھلہ کی منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم ریاست کپور تھلہ سے حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی خُدا داد صلاحیتوں اور کچھ حاصل کرنے کے جذبے سے گریجوایشن تک علمی مدارج طے کیے۔ اس کے علاوہ آپ نے فارسی، عربی، اور اردو فاضل جیسے علمی کورسز بھی کیے۔ آپ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ۱۹۳۹ء میں آپ دوسری جنگ عظیم کے وقت فوج میں ڈرائیور انسٹرکٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔۴۷۔۱۹۴۶ء میں آپ اپنے چچا چودھری نبی بخش کے پاس ایران کی آئل کمپنی میں فیلڈ انچارج کے طور پر کام کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے اوائل میں آپ کچھ عرصہ لائل پور کاٹن ملز میں کلرک کے عہدہ پر کام کرتے رہے۔ بعد ازاں اس ملازمت کو چھوڑ کر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) میں موٹر مکینک بھرتی ہو گئے۔ موٹر مکینک کے عہدہ سے ترقی کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے ذریعیبتدریج ورکس مینجر اور بعد ازاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ٹرانسپورٹ ونگ میں موٹر وہیکل ایگزامینر(Motor Vehicle Examiner)کے عہدے پر ترقی کر گئے۔۱۹۵۷ء میں آپ کراچی پورٹ ٹرسٹ میں اسسٹنٹ انجینئر تھے۔
وہ ہمیشہ دیانتداری سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ وہ اپنے افسرانِ بالا کے ناجائز مطالبات، دباؤاور سفارش کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وقت کے حکمران کے اشارے پر غلط کام نہ کرنے پر اُن کا تبادلہ ان کو تنگ کرنے کے لیے دوسرے صوبے کے شہر پشاور کر دیا گیا۔وہاں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ سفارش، اقربا پروری اور رشوت زوروں پر تھی جو اُن کے اُصولوں کے خلاف تھے۔ انھوں نے ہمیشہ معیار اور سچائی کو ملحوظ خاطر رکھا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں روشن مثالیں قائم کیں۔ کبھی اصولوں پر سودے بازی نہ کرنے کی خوبی تمام زندگی اُن کے ساتھ ساتھ رہی۔ صوبہ سرحد میں تمام کام وہاں کے جرگوں کی مرضی سے ہوتے تھے۔ ایسے کام اور فیصلے دیکھ کر آپ زیادہ عرصہ وہاں اپنی خدمات سرانجام نہ دے سکے۔ اور اپنا استعفیٰ اپنے سے بڑے آفیسر کی میز پر رکھ کر سیدھے اپنے گھر لائل پور(فیصل آباد) آ گئے۔ پھر لائل پور آ کر اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں سرگرم عمل ہو گئے۔ 1966ء میں آپ کچھ عرصہ پاکستان برما شیل میں مینجر تعینات ہو گئے اور جلد ہی اس ملازمت کو خیر باد کہہ کر گھر گرہستی کے مسائل میں مصروف ہو گئے۔ نور محمدنور کپور تھلوی نے تادمِ مرگ حق و صداقت کا علم بلند رکھا۔ خودداری، غیرت، شرافت، ایمان داری، ملنساری، حیا اور انکساری ان کی زندگی کے نمایاں وصف تھے۔وہ اکثر کہا کرتے تھے:”Your livings should always be simple but your ideas should always be high.”(۸)
خاندانی پس منظرتقسیم برصغیر کے بعد آپ کا خاندان وریاہ کپور تھلہ سے ہجرت کر کے ضلع فیصل آباد (لائل پور) کی مغربی سمت قصبہ ڈجکوٹ کے قریب ایک گاؤں چک نمبر ۸۷ گ ب (بابے دی بیری) میں آباد ہو گیا۔ ’’بابے دی بیری‘‘ نام سکھوں نے اپنے گردواروں کے نام پر رکھا ہوا تھا۔ اس نام کا ایک گاؤں سیالکوٹ(پاکستان) اور دوسرا کپور تھلہ (ہندوستان) میں موجود ہے۔
آپ کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو یہاں پر ہی زمینیں الاٹ ہوئیں۔ دیگر اراضی کے ساتھ ساتھ اسی گاؤں میں آپ کے والد کو آموں کا ساڑھے چار ایکڑ پر مشتمل ایک قدیم باغ بھی الاٹ ہوا۔ آپ کے چار بھائی اور ایک بہن تھی۔ آپ سب بہن بھائیوں سے بڑے تھے۔ آپ کے بہن بھائی آپ کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ بھائیوں میں مبارک علی خاں، شفاعت احمد خاں، محمد حیات خاں اور محمد گلزار خاں اور بہن ہدایتاں بی بی شامل ہیں۔
حیف صد حیف کہ یہ سب سراپا خلوص و شفقت ہستیاں نشیب زینۂ ایام پر عصا رکھتے ہوئے خاموشی سے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئیں۔ قلم میں اتنی سکت نہیں کہ تقدیر کے ستم حرف حرف لکھ کر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر سکے۔ ہماری محفل سے وہ آفتاب و ماہتاب غروب ہو گئے کہ جن کے دم سے ہمارا وجود برقرار تھا۔ دل کی انجمن میں انھی کی وجہ سے رونقیں تھیں۔تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامےکوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا
شادی اور آل اولادنور محمد نور کپور تھلوی کی شادی ۲۳ برس کی عمر میں ۱۹۴۰ء کو اپنی پھوپھی زاد نذیراں بی بی سے ہوئی۔ جو بڑی پرہیز گار اور نیک خاتون تھیں۔ آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا محمد اکرم پاکستان بحریہ میں کیپٹن کے عہدہ پر فائز ہے ، منجھلا بیٹا محمد اسلم پاکستان آرمی میں میجر ڈاکٹر ہے، چھوٹا بیٹا افتخار احمد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہے اور ایک ٹیکسٹائل گروپ میں جنرل مینجر فنانس کے عہدہ پر فائز ہے، ایک بیٹی طاہرہ ارشد نے بی۔اے ، دوسری بیٹی عابدہ اقرار ایم۔اے انگریزی اور سرکاری معلمہ ہیں۔
شاعری میں اُستاد۱۹۶۵ء میں نور محمد نور کپور تھلوی نے شاعری کا باقاعدہ آغاز تو کر دیا تھا مگر انھیں ایک اُستاد کی تلاش تو ضرور رہی لیکن کوئی بندہ ایسا نہ ملا جو اُن کے مزاج اور طبیعت پر پورا اُترتا۔ ۱۹۸۲ء میں سید تنویر بخاری کے جادوئی علم و فضل سے متاثر ہو کر اُن کے حلقہ تلامذہ میں شامل ہو گئے۔ علم کی پیاس نے انھیں عمر کے آخری حصے میں بھی بے چین رکھا۔ سید تنویر بخاری کی شاگردی میں آنے کا عمل بھی علم کی پیاس ہی تو تھی۔ اُن کے اُستاد اُن سے سے ۲۵ برس چھوٹے تھے۔ وہ ایسے شاگرد دیکھے گئے جن کو اُستاد بھی ’’بابا جی‘‘ کہہ کر بلاتے اور اُن کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔
تصانیف/شعری مجموعے۱۔ ’’زنبیلِ سُخن‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۳ء، پنجابی کلچرل سنٹر، شیخوپورہ۲۔ ’’جہانِ رنگ و نور‘‘ شعری مجموعہ ،مطبع ۱۹۸۵ء، احمد پبلی کیشنر، اُردو بازار، لاہور۳۔ ’’تھوہر کے پھُول‘‘ شعری مجموعہ، مطبع ۱۹۸۹ء، شاہین پبلی کیشنز، اُردو بازار، لاہور۴۔ ’’کُلیاتِ نور‘‘ مطبع ۲۰۰۲ء، گلزار پبلی کیشنز، فیصل آباد، پاکستانبیادِ نور محمد نور کپور تھلوی٭ ’’جامع مسجد نورِ مدینہ‘‘ بمقام چک نمبر 87گ ب (بابے دی بیر) براہ ڈجکوٹ ، ضلع فیصل آباد، پاکستان٭ نور محمد نور کپور تھلوی نمبر (خصوصی اشاعت)ماہنامہ ’’لکھاری‘‘ لاہور، دسمبر2011صفحات 176٭ نور محمد نور کپور تھلوی ۔۔۔۔آثار و احوالمقالہ ایم فل اردو، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد2016ء٭ نور محمد نور کپور تھلوی تھنکرز فورم (علمی و ادبی تنظیم)٭ النور فاؤنڈیشن (سماجی و رفاہی تنظیم)٭ نور اینڈ نور لاء ایسوسی ایٹسڈسٹرکٹ کورٹس، فیصل آباد، پاکستان
فیصل آباد کی محافلِ شعر و سُخننور محمد نور کپور تھلوی ، فیصل آباد کی ادبی محافل کی جان تھے۔ آپ بڑے شوق سے شہر میں ہونے والے ہر محفلِ مشاعرہ میں بطور خاص شرکت کرتے۔ جب کبھی پنجابی ادبی محاذ کے مشاعروں میں یہ نوجوان بزرگ قلمکار بابا شوق عرفانی ، نور محمد نور کپور تھلوی ، بابا عبیر ابو ذری، ڈاکٹر حبیب العیشی، سید زیارت حسین جمیل، بیکس بٹالوی، اسیر سوہلوی اور بسمل شمسی اکٹھے ہو جاتے تو ایسے لگتا جیسے زندگی سمٹ کر اس مختصر سی جگہ میں آ گئی ہو۔ اُن کی باتوں میں ادب سے لے کر سیاست تک ہر رنگ موجود ہوتا تھا۔ اِس ضمن میں ممتاز محقق اور نقاد ڈاکٹر شبیر احمد قادری رقم طراز ہیں:’’فیصل آباد کو پیار اور محبت کا مرکز بنانے میں ادیبوں اور فن کاروں کے کردار کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو ساری دُنیا جانتی اور پہچانتی ہے۔ فیصل آباد کے ادیبوں اور شاعروں میں ایک نمایاں اور قد آور شاعر کا نام نور محمد نور کپور تھلوی ہے ۔ جن کو لوگ پیار سے ’’بابا جی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ میرا ان ’’بابا جی‘‘ سے تعارف فیصل آباد کے ایک اور بابا جی شوق عرفانی کی بیٹھک میں ہوا۔ یہ بیٹھک (چنیوٹ بازار) فیصل آباد شہر کا ایک معروف ادبی مرکز تھا۔ جہاں پر رات دن ادیب بیٹھتے اور شعر و سخن کے علاوہ سیاسی گفتگو بھی کیا کرتے تھے۔ پنجابی ادبی محاذ کے زیرِ اہتمام ہونے والے ہفت روزہ مشاعروں میں جن شاعروں کو باقاعدگی سے شریک ہوتے دیکھا ہے اُن میں بابا عبیر ابو ذری، بسمل شمسی، احمد شہباز خاور، بیکس بٹالوی، میاں اقبال اختر، اسیر سوہلوی، جگنو گرداسپوری شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور بزرگ جن کو اُن کی بارُعب شخصیت کی بنا پر ہر کوئی احترام سے ملتا اور وہ شعر بھی بڑے اچھے انداز میں سناتے اور مشاعرہ لوٹ لیتے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی رونقِ محفل ہوتے تھے۔ اس لیے وہ باتیں بھی بڑی پُر مغز کرتے تھے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی دوسرے شعراء اور قلم کاروں سے جو نوک جھونک ہوتی ۔ شوق عرفانی اس سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ اس محفل میں شوق عرفانی (جو پاکستان رائٹرز گلڈ سب ریجن فیصل آبادکے سیکرٹری تھے) کی حیثیت ایسے دھاگے کی تھی ، جس نے ان خوبصورت موتیوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ انھی موتیوں میں جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ نور محمد نور کپور تھلوی کی چمک دمک اور شان بان سب سے منفرد ہوتی تھی۔ نور محمد نور کپور تھلوی کے بچھڑنے سے شہرِ ادب ایک بزرگ اور کہنہ مشق شاعر کے وجود سے محروم ہو گیا ہے۔ بلاشبہ وہ خیر کی قدروں کے نقیب تھے اور بری قدروں کو بری نظر سے دیکھتے تھے اور یہی ایک اچھے اور کھرے ادیب کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی اور غیروں کی خیر چاہے۔۔۔۔خیر، امن اور سلامتی کے گیت گاتا چلا جائے۔۔۔۔یہی اُس کے اخلاص کی نشان دہی کرتی ہے۔۔۔۔نور محمد نور کپور تھلوی کے فن آگاہ اور مزاج آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اُنھوں نے ہر عہد اور ہر دور میں یہی رنگ بکھیرے اور اسی خوشبو کو عام کیا ۔ یہی دولت تقسیم کی اور اسی نور سے ظلمتوں کے خاتمے کی تمام تر کوششیں کیں۔‘‘(۹)
ان کی ایک مشہور پنجابی نظم ’’دو نور جہاناں‘‘ (ملکۂ ہند تے ملکۂ ترنم) کا بڑا چرچا تھا۔ شعری نشست ہو یا کوئی نجی محفل۔۔۔۔یہ نظم ان سے فرمائش کر کے بار بار سنی جاتی۔ اوپر سے ان کے پڑھنے کا انداز اور بھی مزا دوبالا کر دیتا تھا۔ اس نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں:اک نورجہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والیجے اوہ نور جہاں سی حُسن والی ، تے ایہہ نور جہاں آواز والیایس نور جہاں نے اوس وانگر اُپر کسے دے ظلم کمایا نہیںاپنے میحل دے بیٹھ جھروکیاں وچ کسے دھوبی تے تیر چلایا نہیںکیہڑا راگ ہے راگ دی لغت اندر جیہڑا ایس نے سودھ کے گایا نہیںجے اوہ نور جہاں سی سوز والی تے ایہہ نور جہاں ہے ساز والیاک نور جہاں جہانگیر والی ، اک نور جہاں اعجاز والی
اسی نظم کا آخری بند نور محمد نور کپور تھلوی کی فکر اور سوچ کا کھُل کھلا کر اعلان کر رہا ہے اور یہ اشعار اقوال زریں کے درجے تک پہنچ کر ذہنوں کی تطہیر کا ذریعہ بنتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں:جیہڑے وچ مصیبتاں کم آونسکے بھائیاں دے نالوں اوہ یار چنگےسونے وچ خوشبو نہ مول ہووےمینوں سونے توں پھلاں دے ہار چنگےجیہڑے ہیرے نوں چٹ کے مرن سوہنےاوس ہیرے توں لوہے دے تار چنگےمینوں شاہی چوں خُون دی بو آوےبادشاہواں نالوں فنکار چنگےدیندے کڈھ اُداسیاں دِلاں وچوںسرگم چھیڑ دے جدوں آواز والیاِک نور جہاں جہانگیر والیاِک نور جہاں اعجاز والی
نور محمد نور کپور تھلوی جب اپنی یہ نظم مکمل کر لیتے تو ’’واہ واہ‘‘ کی آوازیں اس وقت تک بلند ہوتی رہتیں جب تک وہ اپنی سیٹ پر جا کر نہ بیٹھ جاتے۔ وہ یہ نظم جس مشاعرے میں بھی سناتے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ سامعین بار بار اس نظم کے سننے کی فرمائش کرتے۔ اس موازناتی نظم کو نور محمد نور کپور تھلوی کی سوچ اور فکر کا بھرپور اظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کا فکر و فننور محمد نور کپور تھلوی ایک باکردار ، وضع دار اور ایک بلند پایہ انسان تھے۔ وہ اسلامی سوچ اور فکر کے علمبردار تھے ۔ ان کی عظمت کا راز ان کی دردمندی ، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فراواں جذبات میں پوشیدہ تھا۔ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت کے قائل تھے۔ ان کی محبت لین دین کی کوئی صورت ہر گز نہ تھی بلکہ وہ اپنے احباب پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ ان کی شخصیت انھیں ایک اچھے شہری ، عظیم محبِ وطن ، بے لوث تخلیق کار اور عظیم انسان کے روپ میں سامنے لاتی ہے۔ انھوں نے ملت اور معاشرے سے ہمیشہ اپنا قلبی تعلق استوار رکھا۔ قدامت پسندی کو وہ ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ قدامت پسندی کے مسموم اثرات نے پوری قوم کو فکری انتشار ، نفاق ، خانہ جنگی اور تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ترقی پسند سوچ کے مثبت پہلوؤں کو وہ ہمیشہ پیش نظر رکھتے تھے۔ ان کا اُٹھنا بیٹھنا ترقی پسند مصنفین کے ساتھ رہا۔ اِس صحبت کا اثر یہ ہوا کہ اُن کی اپنی تحریروں میں بھی روشن خیالی کے مثبت پہلو ہمیں جا بجا ملتے ہیں۔ اِسی ضمن میں ان کے بڑے بیٹے کیپٹن محمد اکرم لکھتے ہیں:’’۱۹۸۸ء میں، میں ایک بحری جہاز کا کپتان تھا جو کہ ہندوستان کی بندرگاہ بمبئی جا رہا تھا چونکہ Bombayمیں اُن کی جوانی کے کئی خوب صورت سال گزرے تھے۔ وہاں کے ترقی پسند مصنفین کی صحبت میں اُن کو بیٹھنے کا وافر موقع ملا تھا۔ اس لیے بمبئی (Bombay)سے ان کو خاص لگاؤ تھا۔ بمبئی کے بارے میں انھوں نے میری بڑی رہنمائی کی اور مسلمانوں کے علاقے بھنڈی بازار کے بارے میں تفصیلاً بتایا کہ مدن پورہ میں جا کر وہ گھر ضرور دیکھنا جہاں وہ رہتے رہے تھے۔‘‘(۱۱)
نور محمد نور کپور تھلوی کا خیال تھا کہ ترقی پسند سوچ کے ذریعے افراد کی زندگی کے مسائل کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے میں خاطر خواہ کامیابی ممکن نہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں سستیجذباتیت سے ہٹ کرعقل و خرد اور فہم و ادراک کی کسوٹی پر تمام اقدار و روایات کو پرکھنا چاہیے۔ نور محمد نور کپور تھلوی اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ِ ادب تھے۔ ایک رجحان ساز ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے انسانی آزادی اور حریت فکر و عمل کو ہمیشہ اپنا مطمع نظر بنایا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ وطن ، اہلِ وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اُن کے لاشعور میں رچ بس گئی تھی۔ چونکہ وہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند ادیب تھے۔ انھوں نے اپنی ترقی پسندانہ خیالات کا ہمیشہ برملا اظہار کیا۔ وہ کبھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ زمانۂ پیری میں اُن کا لہجہ اور فکر ہمیشہ جوان اور توانا رہا ورنہ پچاس ساٹھ برسوں میں جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ وہ ایسی سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے کہ جو بھی ایک بار ان کی قربت میں بیٹھ لیتا۔ پھر وہ ان کی جادوئی اثر اور علم پرور گفتگو سننے بار بار ان سے ملنے کے لیے بے قرار رہتا۔ وہ اپنی خوبی پر فخر نہیں کرتے تھے اُن کا فخر یہی تھا کہ وہ فخر نہیں کرتے تھے۔ وہ بنیادی طور پر ایک ترقی پسند ، قوم پرست اور جمہوری مزاج رکھنے والے انسان تھے۔ اپنی علمیت ، شرافت اور اخلاق کی بدولت اپنی مثال آپ تھے۔
بین الاقوامی شعراء و قلم کاروں سے روابطنور محمد نور کپور تھلوی کے بین الاقوامی شہرت کے حامل شعراء و ادباء سے گہرے مراسم تھے۔ فیض احمد فیض سے تو آپ کے دوستانہ مراسم تھے۔ وہ آپ کے فن کو بہت سراہتے تھے۔ علاوہ ازیں حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، حمید اختر، اے حمید، منیر نیازی، عاصی کرنالی، رؤف شیخ، حبیب جالب، حفیظ تائب، ڈاکٹر رشید انور، صائم چشتی، صدف جالندھری، عبدالستار نیازی، بری نظامی، سیف خالد، افضل احسن رندھاوا، ریاض مجید سے آپ کی ملاقاتوں کا سلسلہ رہا ہے۔ بقول نور کپور تھلوی:خدا جانے کس حال میں اب وہ ہوں گےجنھیں دیکھنے کو ہیں آنکھیں ترستی(جہانِ رنگ و نور ، ص 79)
نور کپور تھلوی کے تمام پیارے دوست اور عزیز اُن کی آنکھوں کے سامنے آسودہ خاک ہوتے گئے۔ جن کے ساتھ انھوں نے زندگی کے شب و روز گزارے تھے۔ جن کے دم سے زندگی میں رعنائیاں اور بہاریں تھیں۔ جب یہ احباب ایک ایک کر کے عدم کی طرف رختِ سفر باندھتے گئے تو وہ اکثر مغموم نظر آتے اور کہتے کہ ہم بھی ’’چراغِ سحری‘‘ ہیں۔ نہ جانے کب تقدیر کا بلاوا آن پہنچے ۔ زمانہ پیری میں وہ اکثر اپنے دوستوں کا ذکر کر کے کتنی دیر فضا کو گھورتے رہتے تھے۔ اپنے ایک شعر میں اِس بات کا اظہار یوں کرتے ہیں:اُٹھ گئے نورؔ یار دُنیا سےہوشیار! اب تمھاری باری ہے٭٭٭کتنے اب رہ گئے باقینورؔ تمھارے سنگ کے لوگ(جہانِ رنگ و نور ، ص 66)
نور محمد نور کپور تھلوی جاگتی آنکھ کا شاعر ہے ۔ وہ اپنے گرد و پیش کی زندگی اور زندگی پر گزرنے والے حالات و واقعات کا گہرا شعور رکھنے والے قلم کار ہیں۔ وہ زمین پر گزرنے والے ظلم اور دُکھ دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے۔پھر اُس کا قلم اس ظلم اور ظالم سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ درحقیقت نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا ہے جس کے اندر خوبصورت بہاؤ کے ذریعے خیالات کا سیل رواں جاری ہے۔
فیصل آباد (لائل پور) شہر جسے کسی نے لالچ اور لٹھے کا شہر کہا ہے اور کسی نے اسے تکلے اورتکلیفوں کا شہر کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شہر میں تجارت کرنے والے دُنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کاروبار میں اس قدر اُلجھے ہوئے ہیں کہ انھیں شہر کی سماجی اورادبی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اُن کے نزدیک یہ ایک بے کار مشق ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کو اس بات کا بڑا قلق رہتا تھا کہ ہمارے فن کی پذیرائی کرنے والے تجارت میں سرگرداں ہیں وہ فن جسے ہم بہت عمدہ اور عرق ریزی کا نتیجہ کہتے ہیں اُن کے نزدیک اس کی چنداں کوئی اہمیت نہیں۔ بقول نور کپور تھلوی:ہے شہر تاجروں کا یہاں فکر وفن نہیںیاروں میں ذرہ بھر بھی مذاقِ سُخن نہیں
ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے نور محمد نور کپور تھلوی نے زندگی کے تضادات پر اپنی تشویش کا برملا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں المیہ یہ ہوا کہ دردمند ادیب دُکھی انسانیت کے مصائب و آلام ، سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کے سامنے بیان کرنے پر مجبور ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی اس صورت حال پر بہت گرفتہ ہوتے تھے کہ منزلوں پر ان طالع آزما مہم جو اور ابن الوقت استحصالی عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔جو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے نہ صرف زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی سعی کی بلکہ ادب کے وسیلے سے تہذیبی، ثقافتی ، روحانی اور انسانی اقدار کے تحفظ پر بھی اصرار کیا۔ اُسے پختہ یقین تھا کہ انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے ان اقدار عالیہ کا تحفظ ناگزیر ہے۔ حیف صد حیف اجل کے بے رحم ہاتھوں نے بزم ادب کے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا سکوت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کرنے والا قلم کار ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھا کہ در و دیوار حسرت ویاس کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اس کی رحلت کے بعد درد کی جو ہوا چلی ہے۔ اُس کی وجہ سے تنہائیوں کا زہر رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ نور محمد نور کپور تھلوی کے الفاظ زندہ رہیں گے۔پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیںجس سمت نظر اُٹھی آواز تری آئی
ایک عظیم محب وطن کی حیثیت سے نور محمد نور کپور تھلوی نے وطن، اہل وطن اور استحکامِ پاکستان کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت کا برملا اظہار کیا۔ انھوں نے ماضی یا مستقبل کی نسبت حال پر زیادہ توجہ دی۔ وہ ایک مضبوط ، مستحکم اور صحت مند اندازِ فکر کی شخصیت تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد حالات نے جو رُخ اختیار کیا۔ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ منزلوں پر اُن موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ جو شریکِ سفر نہ تھے۔ بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں انھوں نے اقتصائے وقت کے مطابق قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں حصہ لیا اور اپنی شاعری سے مثبت شعور و آگہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی ۔ نور محمد نور کپور تھلوی مصلحت وقت کے قائل نہ تھے۔ جو بات ان کے دل ، دماغ ، ذہن و ذکاوت اور ضمیر کی ترجمانی کرتی وہ ببانگ دہل کرتے۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس نور محمد نور کپور تھلوی کے اسلوب کا نمایاں اور روشن وصف سمجھا جاتا ہے۔ صنائع بدائع ، رنگ، خوشبو ، اور حسن و خوبی کے جملہ استعارے اس کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کی علمی فضیلت ، لسانی مہارت، بصیرت اور ذہن ذکاوت کی سطح فائقہ ان کے اسلوب کو زرنگار بنا دیتی ہے۔ گلدستہ معانی کونئے ڈھنگ ، نئے آھنگ سے سجانے اور ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنے میں وہ جس فنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ان کے صاحب اسلوب ادیب ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی خارجی زندگی کے معمولات ، تجربات اور مشاہدات جب اُس کے لاشعوری اور داخلی محرکات سے ہم آہنگ ہو جاتے تو اُن کا تخلیقی عمل اپنی صد رنگی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔حق کی خاطر سر کٹانے والے پھر درکار ہیںمنتظر ہے کربلا پھر ہاشمی سردار کی(زنبیلِ سُخن ، ص 29)
آج کے دور میں کسی بھی قلم کار کے لیے اپنی کتاب شائع کروانا کسی کٹھن سے کم نہیں ہے۔ شعری مجموعوں کے شائع ہونے کے عمل سے شاعر کو کئی بار اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ بہت سے معاشی طور پر کمزور شاعر بے سروسامانی کے عالم میں کہیں سے ادھار رقم لے کر بھی اس کارِ ثواب میں حصہ ڈالنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ اوپر سے روایتی خود ستائشی کے چند جملے کسی دوسرے ادیب سے لکھوانا بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا شاعری کے دیگر لوازمات ۔۔۔۔ دیباچہ، فلیپ لکھوانے کے لیے شاعر کو کس قدر اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ دیباچہ نگاروں کے گھرں کے پے در پے چکر اور وعدے قلم کار کو دہرے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔نور محمد نور کپور تھلوی نے ان مراحل سے دو چار شاعر کے اس درد بھرے جذبات کو بہت عمدگی سے قلم و قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ اپنی ایک غزل میں اس جذبے کا اظہار یوں کرتے ہیں:سمجھ کر دُنیا میں اِک کارِ ثوابہم نے بھی چھپوا دی ہے اپنی کتاببے سروسامانی شاعر کے لیےکیا طباعت بھی ہے کوئی کم عذابگر کہیں عالم سے دیباچہ لکھووہ مہینوں تک نہیں دیتا جوابچھپ کے جب آ جائیں گے بازار میںقدر و قیمت کا لگے گا پھر حسابگو پذیرائی اُسے حاصل نہ ہوشاعروں میں نام تو ہو گا جنابنورؔ اپنی کوشش اول ہے یہبہت سے شاعر ہیں تیرے ہم رکاب
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے پورے زمانے کو شاعری کے خلاصے میں سمیٹ لیا ہے ۔ ان کی نظمیں ان کے جری سیاسی عقائد اور سماجی کارناموں کا عہدنامہ ہے۔ روزمرہ کے خدشے ، اندیشے ، وسوسے، سانحے اور حادثے شاعرانہ دھڑکن میں دُھل کر زندہ ہو گئے ہیں۔ عصری ماحول کے ایک ایک جزئی واقعے کو انھوں نے شعروں میں موتی کی طرح پرودیا ہے۔ اُن کے جواہر خانے میں زندہ سچائی کے گہر جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ ایک باشعور شاعر کی طرح اُن کی تخلیقات زندگی کو بدلنے اور انقلابی قوتوں کو اجاگر کرنے میں انوکھی قوت اور نرالی انفرادیت سے مزیّن ہیں۔ انھوں نے شاعری کے فنی اور تکنیکی حُسن کا رشتہ براہِ راست انسانی سماج اور اُس کی ساخت سے جوڑ دیا ہے۔ وہ سماج کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں انسانی جذبات کی اٹھان اور انسانی زندگی کی ترجمان بن کرانسانیت ، اخوت، ہمدردی کی اقدار کو پیدا کرتی ہے اور خود کو Isolateہونے سے بچا لیتی ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی مختلف النوع تبدیلیوں سے یک قلم منقطع رہ کر صرف خوابوں خیالوں کا ادب پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اب ہمارے پاس ادبی تخلیق کے لیے جیتی جاگتی اقدار نہیں ہیں۔ ہم نے مسائل پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے گرد و پیش سے الگ ہو گئے ہیں۔ اصل میں خالص تجریدی ، مابعد الطبیعیاتی ، وارداتِ قلبی اور نرا حسن و عشق کا حامل صرف ذہنی ادب پیدا کرنا یا دوسرے لفظوں میں ادب کو مقصود بالذاتِ سے آگے کوئی حیثیت دینے پر تیار نہ ہونا، ادب کو ایسی دماغی مشق بنا دیے کی سوچ سے مملو ہے۔ جس کے نزدیک روحِ عصر ازلی و ابدی طور پر مردہ شے ہے۔ یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہوش مند اور حساس شاعر معاشرتی عوامل، سماجی حالات، سیاسی واقعات ، معاشی متعلقات اور عصری معاملات سے الگ تھلگ رہ کر بھی سوچ سکتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری حریتِ فکر اور جرأت اظہار کی عمدہ مثال ہے ۔ ان کے کلام میں موضوع، مشاہدے اور تجربے کا جو تنوع پایا جاتا ہے وہ انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر اُن کی گہری نظر ہے۔ شعر و ادب کے بارے میں اُن کا جرأت مندانہ تعمیری اور اصلاحی اسلوب لائق صد رشک و تحسین ہے۔ حق گوئی اور بے باکی ہمیشہ ان کا مطمع نظر رہا ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف ایک قلم بکف مجاہد کی حیثیت سے جدوجہد میں مصروف ہیں جنھوں نے وتیرہ بنا لیا ہے کہ عوام کو ترقی اور خوش حالی کے ثمرات سے محروم رکھا جائے۔
اُن کی شاعری کا اعزاز و امتیاز ہے کہ وہ معاشرتی قباحتوں کی مصلحتاً پردہ پوشی کے ہمیشہ خلاف رہے ہیں۔ ان کے کلام میں جو دردمندی ہے ۔ وہ حب الوطنی کا فقید المثال مظہر ہے۔ ان کی دوستی انسان دوستی کی اساس پر استوار ہے۔ انسانی زندگی کے جملہ مسائل، ان کے کلام میں اس طرح جلوہ گر ہیں ، جس طرح حیات و کائنات میں خوش رنگ شگوفے اپنی بوقلمونی اور ندرت سے قلب و نظر کو مسحور کر دیتے ہیں۔ ان کے اشعار جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے مجموعہ کلام’’جہانِ رنگ و نور‘‘ میں اپنی حقیقت پسندانہ سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے حیات آفریں اقدارکی موثر انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔ زندہ و تابندہ اقدار کے تحفظ کی خاطر حرف صداقت لکھنے والے اس جری شاعر نے اپنی شاعری میں انسانیت، محبت اور حُسن کی عظمت کو جاوداں بنا دیا ہے۔(۱۳)حیوان بھی قتل نہیں کرتے اپنے ہم جنس حیوانوں کوپھر کون سی چیز ہے اُکساتی اِس فعل پہ ہم انسانوں کو(جہانِ رنگ و نور، ص 42)اندر سے نکلنے والا تو بس اِک سجدہ ہی کافی ہےاﷲ کی عبادت کیا شے ہے یہ خبر نہیں نادانوں کو(جہانِ رنگ و نور، ص 42)دُنیا کی زندگانی تو رو دھو کے کاٹ لیکیا آخرت کا نورؔ بھی کچھ بندوبست ہے(جہانِ رنگ و نور، ص 43)طبیعت میں پیدا کرو انکسارییہی سمجھو ہر شخص ہے خود ہے عالی(جہانِ رنگ و نور، ص 44)تجربہ بصیرت عقل آدمی کو نتائج سکھاتے ہیں ہر نیک و بد کےغلط ہے یہ دعویٰ کہ گُر زندگی کے کسی اِک شخص کے سکھائے ہوئے ہیں(جہانِ رنگ و نور، ص 49)جنازہ اُٹھے جب تعصب کا اِک دناُسے نورؔ تم دینا خود بڑھ کے کندھا(جہانِ رنگ و نور، ص 53)جو دل میں بس رہا ہے اُسے ڈھونڈئیے کہاںتیرا سُراغ اس لیے مشکل نہیں رہا(جہانِ رنگ و نور، ص 55)ایک دہشت سی دل پہ طاری ہےہر گھڑی زندگی کی بھاری ہے(جہانِ رنگ و نور، ص 56)عملِ تخلیق رُک نہیں سکتالمحہ لمحہ جہاں میں جاری ہے(جہانِ رنگ و نور، ص 56)
نور محمد نور کپور تھلویؔ نے اپنے شعر ی مجموعہ ’’زنبیلِ سخن‘‘ میں اپنی بصیرت افروز باتوں کو شعروں کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ اُن کی شاعری میں ذاتی احساس کے بجائے آفاقی اور کائناتی مسائل کا احساس نمایاں ہے۔ ایک محبِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے انھیں اپنی ذات کی نسبت ، معاشرتی ، قومی اور ملی مسائل کے بارے میں زیادہ شدت سے احساس ہے۔ یہی احساس ان کے تخلیقی عمل کو مہمیز کر کے قاری کے ذہن کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔ معاشرے کے پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ ان کی دلی وابستگی انھیں حقیقی معنوں میں حریت فکر کا علمبردار شاعر بنا دیتی ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے اس مجموعہ میں نہایت دلآویز اندا ز میں جذبوں کو صورت گری اور حالات و واقعات کی مرقع نگاری اس فنی مہارت سے کی گئی ہے کہ جہانِ تازہ اور جدت تخیل کی معجز نما کیفیت قلب و نظر کو مسحور کر دیتی ہے ۔ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی تفہیم اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری ایک وجدانی کیفیت سے آشنا ہوتا ہے اور ذہنی مسرت کے یہ حقیقی منابع نور محمد نور کپور تھلوی نے زندگی اور ماحول سے تلاش کیے ہیں۔ اپنے اس تجربے میں انھوں نے اپنے قاری کو شامل کر کے اپنی فنی پختگی اور ابلاغ پر قدرت کا ثبوت دیا ہے ۔ نور محمد نور کپور تھلوی نے تہذیبی اور ثقافتی اقدار کو ایک زندہ جاندار روایت کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ زندگی اور اس کی مققنیات کے بارے میں وہ فرد کے لاشعوری محرکات کو تخلیق فن کے لمحوں میں اس طرح پیش نظر رکھتے ہیں کہ ان کی شاعری یدِ بیضا کی نقیب ثابت ہوتی ہے ۔ (۱۴)
نور محمد نور کپور تھلوی نے اپنے تجربات، مشاہدات اور احساسات کو اپنے تخیل کی جولانیوں سے خیالات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا ہے ۔ جذبات کے بے ساختہ پن اور خلو ص و صداقت نے اشعار کی تاثیر کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور میں نور محمد نور کپور تھلوی جیسے قادر الکلام شعرا کی بدولت اردو ادب کو عالمی ادبیات میں ممتاز مقام حاصل ہوا ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی انصاف اور امن کے علمبردار ہیں اور ان کی شاعری انھی ارفع جذبات کی امین ہے۔ ’’زنبیلِ سخن‘‘ واقعتاً اُردو شاعری کے افق پر ایک درخشندہ اور تابندہ ستارے کی مانند ہے جس کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کا خاتمہ ہو گا۔ اردو شاعری میں حریتِ فکر کی روایت کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں نور محمد نور کپور تھلوی کی خدمت تاریخِ ادب کا اہم ترین واقعہ ہے ۔ جسے ادب کا کوئی دیانت دار نقاد نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس منفرد اور متنوع انداز کی حامل کتاب کی اشاعت اردو داں طبقے کے لیے لائق صد افتخار ہے۔ہو رہا ہے چار سُو دُنیا میں باطل کا فروغپھر ضرورت ہے ہمیں شبیر کے کردار کی(زنبیلِ سخن، ص29)کوفیوں نے حسبِ عادت اپنی قسمیں توڑ کرکُرسیاں سنبھال لی ہیں وقت کے دربار کی(زنبیلِ سخن، ص29)کہتا ہوں قسم کھا کے جنابِ امیر کیاونچی ہے شان آج بھی عابد اسیر کی(زنبیلِ سخن، ص31)کب ڈگمگائے فرض سے پاؤں حُسینؑ کےیہ جرأت عظیم تھی پیروں کے پیر کی(زنبیلِ سخن، ص31)لُٹ چکا جب کارواں اپنا تو یہ عُقدہ کھُلاراہزنوں کو آج تک ہم راہ نما کہتے رہے(زنبیلِ سخن، ص33)بد دلی اچھی نہیں ہے نورؔ لوگوں کو نہ دیکھلوگ اچھوں کو بھی دُنیا میں بُرا کہتے رہے(زنبیلِ سخن، ص34)طاقت پہ اپنی اتنا نہ اِترائے چیرہ دستدیکھا ہے ہم نے خاک میں ملتا غرور کو(زنبیلِ سخن، ص37)سب کر رہے ہیں بات خدا کی زبان میںگرچہ کوئی بھی اُس کے ہوا رُوبرُو نہیں(زنبیلِ سخن، ص38)کیا ہو گیا جہاں کو کہ سب کچھ بدل گیااس دورِ بے حسی میں کوئی جستجو نہیں(زنبیلِ سخن، ص38)
جدید غزل گو شعرا میں نور محمد نور کپور تھلوی ایک ایسا توانا ، زندہ اور تخلیقی جوہر رکھنے والا شاعر ہے جن کے ہاں زندگی اپنا ایک مثبت مفہوم رکھتی ہے ۔ زندگی کے انتشار میں اثبات کی تلاش اور کشید اُن کی شاعری کا ایسا مرکزی جذبہ ہے جو اُن کے ہم عصر اور ہم عصر جدید شعرا کے ہاں خال خال ہی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ نور محمد نور کپور تھلوی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور واقعات سے لے کر بڑی بڑی چیزوں اور واقعات تک میں ایک ایسا ربط باطنی تلاش کر لیتے ہیں جس سے زندگی کی کلیت آشکار ہونے لگتی ہے ۔نور محمد نور کپور تھلوی کے رویے، شخصیت کی قوتیں اور تجربات ان کے مرکزی نظام سے پھوٹتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی کے مجموعہ کلام’’تھوہر کے پھول‘‘کی شاعری اور ان کے فکری رویوں کا بھی کچھ یہی عالم ہے ۔ ان کے فکری رویے اور شعری رویے ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں اور ایک دوسرے میں گم ہو کر زندگی کے نئے راستوں کی تخلیق بھی کرتے ہیں ۔ وہ اپنے نظام کا ادراک اور شعور رکھتے ہیں اور اپنے شعری رویوں کا بھی ۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو نور محمد نور کپور تھلوی کی غزل ان کی پوری شخصیت کی جلوہ گاہ ہے۔ اسی لیے میں ان کی شاعری کو پورے شعور کے ساتھ شاعر کہتا ہوں۔خود بناتا ہوں راستہ اپنامجھ سے رو میں بہا نہیں جاتا(تھوہر کے پھول، ص35)حرفِ صادق میں ایک راحت ہےمُنہ سے اُس کا مزا نہیں جاتا(تھوہر کے پھول، ص35)نُورؔ جن کے ضمیر ہیں آزادجبر اُن پر کیا نہیں جاتا(تھوہر کے پھول، ص35)منصور نے سچ بولا تو منصور ہوا وہہر ایک کی قسمت میں کہاں دار و رسن ہے(تھوہر کے پھول، ص36)معمولی سی کیا شے ہے بشر خاک کا پُتلاہر سمت مگر اس کی سمجھ جلوہ فگن ہے(تھوہر کے پھول، ص37)دُنیا میں وہ انسان ہی ہوتا ہے سُرخ رُوگر اپنے مشاغل سے اُسے سچی لگن ہے(تھوہر کے پھول، ص37)ہے نورؔ وہی آدمی تعریف کے قابلجو خلق کی خدمت میں شب و روز مگن ہے(تھوہر کے پھول، ص37)تعجب اس میں کیسا ہے یہ اعجازِ مسیحائیپیامِ زندگی ہے اُن کی ہر تحریر کاغذ پر(تھوہر کے پھول، ص38)تیری ناراضگی کا سوچ کر میں کانپ جاتا ہوںمجھے الفاظ بھی لگتے ہیں اِک شمشیر کاغذ پر(تھوہر کے پھول ، ص38)کرے تحقیق ہر اِک بات کی ہر فرد کا حق ہےکہ عقل و فکر لے کر ازل سے انسان آتا ہے(تھوہر کے پھول ، ص39)سزا وار عبادت بس خدا کی ذات باری ہےیہ نکتہ دین بن جاتا ہے جب ایقان آتا ہے(تھوہر کے پھول ، ص40)
کہا جس نے کہ خالق ہی مِرا معبودِ واحد ہےہوا جنت میں داخل نورؔ یہ فرمان آتا ہے(تھوہر کے پھول ، ص40)
فیصل آباد کے شمال میں 20کلومیٹر کے فاصلے پر ایک دُور افتادہ گاؤں چک نمبر87گ ب بابے دی بیر (براستہ ڈجکوٹ) ضلع فیصل آباد میں ہم سب احباب اُس شہر خموشاں پہنچے جس کی بے آباد زمین نے عالمی ادبیات کے اِس آسمان کو اپنے دامن میں ہمیشہ کے لیے چھپا رکھا ہے۔ راقم (اظہار احمد گلزار) کے ہمراہ اُن کے دو بیٹے میجر ڈاکٹر محمد اسلم اور رانا افتخار احمد کے علاوہ اُن کے دیگر بھتیجے بھانجوں میں رانا ابرار احمد، رانا الطاف احمد، رانا اقرار احمد ، رانا امتیاز احمد ، رانا اشتیاق احمد، رانا صداقت علی خاں، رانافقیر حسین، رانا محمد یٰسین، رانا ریاض احمد خاں، رانا شہباز احمدمنظور، محمد امین خاں اور پھوپھی زاد محمد سرور خاں (مرحوم) بھی تھے ۔ سب احباب عالمی ادبیات کے اس عظیم تخلیق کار کی قبر پر گلاب کے پھُولوں کی پتیاں نچھاور کرنے لگے ۔ میری آنکھوں سے آنسو مسلسلرواں تھے اور میں ایک کونے میں کھڑا چشمِ نم کے ساتھ دُعائے مغفرت پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیسے کیسے انمول نگینے خاموشی سے زیرِ زمین جا چھُپے ہیں جنھوں نے مدتوں اپنے خونِ جگر سے ادب کی آبیاری کی۔ آنسو چھلک کر میرے رُخسار پر گرتے جا رہے تھے اور میں مسلسل سوچ رہا تھا کہ اب نور محمد نور کپور تھلوی جیسے ہمدرد ، زیرک، فعال، مخلص ، اہل درد اور سچے لوگ’’چراغِ رُخِ زیبا لے کر‘‘ بھی ڈھونڈنے نکلیں تو نہیں ملیں گے۔ راغب مراد آبادی نے شاید اِسی لیے کہا تھا :جادۂ ہستی کے جب بھی پیچ و خم یاد آتے ہیںبندہ پرور آپ کے لطف و کرم یاد آتے ہیں
اِس سے قبل بھی بزرگوارم نور محمد نور کپور تھلوی میرے ساتھ اپنے اِس آبائی قبرستان میں آتے رہتے تھے جب وہ میرے ساتھ اپنے والدین اور بھائیوں مبارک علی خاں، شفاعت احمد خاں، محمد حیات خاں اور محمد گلزار خاں(راقم کے والد)اور اپنی بہن کی قبر پر فاتحہ پڑھنے اپنے اِس آبائی قبرستان آتے تھے ۔ آج وہ خود 87گ ب بابے دی بیر کی اِس بے آباد زمیں میں آسودہ خاک ہیں۔ میری سوچوں کا سلسلہ لامتناہی ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔اپنے عزیزوں کو یاد رکھنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے ۔ اپنے دِلوں کو بچھڑنے والوں کی یادوں سے عطر بیز کرنے کی ہر شخص کوشش کرتا ہے ۔ شاید اِسی سے شفا میسر آ جائے لیکن یہ غم اور درد کسی طور پر کم نہیں ہو سکتا۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے لفظوں میں اگر کوئی ربط ہے، میری تحریروں میں کوئی جان ہے ، میرے خیالوں میں کوئی سوچ ہے اور میری سوچ میں کوئی عقل ہے ، میرے پیار میں خلوص ہے اور میری باتوں میں کوئی اعتبار ہے تو اِس کی وجہ میرے یہ بزرگ ہیں جنھوں نے مجھے اچھے اور بُرے کی تمیز سکھائی۔ مجھے چاہنے والوں کا مددگار بنایا، دوستوں کے انتخاب میں میری مدد کی۔ بُرائی کو نظر انداز کرنے کا سبق دیا اور حق بات کرنے اور حق کا ساتھ دینے کا حوصلہ دیا۔ آج اگر لوگ مجھے خلوص اور محبت سے ملتے ہیں اور اُن کی نظروں میں کوئی نفرت نہیں ہوتی تو یہ میرے انھی بزرگوں کی تربیت اور شفقت کی بدولت ہے۔
اِسی اثنا میں اُن کے بیٹے میجر ڈاکٹر محمد اسلم نے میرے کاندھے کو تھپتھپایا اور میں اپنے خیالوں سے نکلا تو وہ مجھے اپنے ساتھ میرے والد گرامی رانا محمد گلزار کپور تھلوی کی تربت پر لے گئے۔ جن کی قبر نور محمد نور کپور تھلوی کے پہلو میں چوتھے نمبر پر ہے۔ ساتھ آگے ہی ان کے والدین کی قبریں اور ان کے ساتھ بھائی محمد حیات خاں اور پھر راقم کے والد بزرگوار محمد گلزار خاں کی آخری آرام گاہ ہے۔ وہاں جا کر ہم کتنی دیر گلو گیر اور غم و اندوہ میں ڈوبے کھڑے رہے ۔بعد ازاں گلاب کے پھولوں کی پتیاں تربت پر ڈال کر ان کے بلندی درجات کے لیے ہاتھ اُٹھائے لیکن میرے ہونٹ حرکت میں تھے ، زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ میں پھر پرنم آنکھوں سے خیالوں میں ڈوب گیا اور ابا جان کی حسین یادیں میرے ذہن میں بیدار ہو گئیں۔ ان کی قربت کا ایک ایک لمحہ سامنے آ گیا اور میں سوچنے لگا والدین ایسے چراغ ہوتے ہیں جن کے بجھنے سے صرف اندھیرا ہی نہیں ہوتا ۔ ہر دکھائی دینے والی، ہر محسوس کی جانے والی اور سوچی جانے والی چیز غائب ہو جاتی ہے، معدوم ہو جاتی ہے، بے وجود ہو جاتی ہے۔۔۔والدین کے دل جب دھڑکنا بند کر دیتے ہیں تو اُن دِلوں میں ہمارے لیے سچی پُرخلوص اور بے لوث محبت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ والدین کی آنکھیں جب بند ہو تی ہیں تو اُن میں ہماری وہ تصویریں بھی غائب ہو جاتی ہیں جو ہم سے زیادہ خوب صورت ہوتی ہیں۔ ہم سے زیادہ جوان ہوتی ہیں۔ ہم سے زیادہ ذہین اور عقل مند ہوتی ہیں۔ والدین کے ذہن اور دماغ جب کام کرنا بند کر دیتے ہیں تو اُن میں ہمارے بہتر مستقبل کے خواب، منصوبے اور خواہشیں بھی مر جاتی ہیں۔ والدین کے جسم جب ٹھنڈے ہو جاتے ہیں تو ہماری حفاظتوں کے قلعے اور عافیتوں کے حصار بھی ٹوٹ جاتے ہیں۔ والدین کے چھِن جانے سے کتنا کُچھ چھِن جاتا ہے ۔ ان کے کھو جانے سے کتنا کچھ کھو جاتا ہے ۔اُن کی میتوں کے ساتھ ہم کتنا کچھ دفن کر دیتے ہیں۔ اِس کا اندازہ ہم کبھی نہیں لگا سکتے۔ایک ایک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئےہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
دُعائے مغفرت کرنے کے بعد شہرِ خموشاں سے ایک کلومیٹر کی مسافت پرہم اپنے گاؤں پہنچے لیکن فرطِ غم سے دیر تک ہم نڈھال رہے ۔ صداقت علی خاں صداقتؔ کے بڑے سے ڈرائنگ روم میں سیاست سے لے کر دُنیا جہان کے ہر موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی۔ رانا افتخار احمد طرح طرح کے چٹکلوں سے محفل کو زعفران بنانے کی سعی کر رہے تھے۔ سامنے بڑے سے میز پر انواع و اقسام کی نعمتیں کھانے کے لیے رکھی ہوئی تھیں لیکن میں ابھی تک اپنے آپ کو سنبھال نہیں پایا تھا۔ میرا ذہن اور دماغ ابھی تک ان یادگار زمانہ لوگوں کی یادوں سے مہک رہا تھا ۔ میرے لیے اس سیاسی گفتگو میں چنداں دل چسپی نہیں تھی۔ میرے ذہن میں نور محمد نور کپور تھلوی کا یہ لافانی شعر گونج رہا تھا۔نہ جگ میرا ، نہ جگ تیراجوگی والا سب کا پھیرادُنیا ہے اِک رین بسیرااِک آئے ، اِک جائے بابادُنیا اِک سرائے
گوئٹے نے کسی شاعر کے مرنے پر کہا تھا’’کہ شاعر کا مرنا آسمان پر جگمگاتے ہوئے ستارے کا مرنا ہے جس سے لوگ سمت نمائی اور روشنی حاصل کرتے ہیں‘‘۔ نور محمد نور کپور تھلوی چپکے سے یہ جہاں چھوڑ گئے۔ ہمارے عہد میں درخشندہ ستارہ ٹوٹ گرااور ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔ اردواور پنجابی زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمین بوس ہو گئی۔
نور محمد نور کپور تھلوی کی موت ایک فرد کی نہیں بلکہ ہماری نصف صدی کی تہذیب کی موت ہے۔ اُن کا جامع کمالات وجود اس ویرانے میں ایک ایسا بلند مینارۂ تابندہ تھا جو بہت دور سے دمکتا نظر آتا تھا۔ ان کی موت سے محفل ثقافت درہم برہم ہو کر رہ گئی ۔۔۔ایک کے بعد دوسرا مسافر اس جگہ آ جاتا ہے لیکن جناب نور محمد نور کپور تھلوی کی شخصیت اس قدر غیر معمولی تھی کہ اُن کی مسند خالی رہے گی اور سینہ علم وہنر سے حشر کے دن تک دُھواں اُٹھتا رہے گا۔مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوںتب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں
بلند پایہ شاعر اور دانشور منظر فارانی اپنے ایک مضمون ’’نور۔۔۔کبھی نہیں مر سکتا‘‘ میں انہیں زبر دست خراج پیش کرتے ہیں ۔