ڈراما ضحاک کا ایک جائزہ

ڈراما ’ضحاک‘ ان ایام میں لکھا گیا جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ تھی اور سیاسی ناخدائوں کی بزم میں دستورِ زباں بندی کا رواج تھا۔ ڈراما نگار خود ہی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ڈراما ضحاک ابتدائی چند صفحات کے علاوہ تمام و کمال ایمرجنسی ہی کے زمانے میں لکھا گیا۔ ہوا یوں کہ ایمرجنسی کے دور میں زبان بندی مکمل تھی۔ ہر صبح اخبار ہاتھ میں لیتے ہوئے شدید ذلت کا احساس ہوتا تھا کہ وہ شروع سے آخر تک سفید جھوٹ سے لبریز ہوتا تھا۔ لفظوں کے معنی بدل گئے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی خوشامدی سے سابقہ پڑتا تھا جو محض خوشامد کے زور پر آقا بنا ہوا تھا اور میری روزی روٹی کا مالک تھا۔ غرض ہر لمحہ اذیت ناک تھا۔ زبان پر تالے تھے۔ پڑوس میں رات کے پچھلے پہر کسی کے دروازے پر دستک ہوئی اور پھر وہ شخص کہیں نظر نہ آتا۔ ڈرائنگ روم میں، بس میں، سڑک پر لوگ سانس روکے ہوئے گزر رہے تھے کہ پتہ نہیں کون جاسوس ہو۔ میرا بھی یہی حال تھا۔‘‘۳؎

لیکن وہ فنکار ہی کیا جو پابندیوں کے حصار میں رہنے کے باوجود گفتگو کا ہنر نہ جانے۔ چنانچہ محمد حسن نے بھی کمال فنی مہارت کے ساتھ بڑے موثر پیرائے میں ایمرجنسی کے جبر و استبداد کے خلاف بڑے شد و مد سے احتجاج کیا۔ اس پر آشوب عہد میں فضا کس قدر سہمی ہوئی تھی اور ہوائیں ڈری ڈری سی تھیں، لوگوں کے ضمیر کا گلا کس بے رحمی سے گھونٹا جا رہا تھا، عوام کا شعور کس کرب میں مبتلا تھا، شاعر، ادیب اور فن کار کس آگ کے دریا سے گز ررہے تھے، خوف و ہراس کی تلوار کس طرح عوام کے سروں پر مسلط تھی، ناجائز کو جائز اور ظلم کو کیسے انصاف کانام دیا جا رہا تھا۔ ان تمام باتوں کی عکاسی ڈرامہ نگار نے بہ حسن و خوبی پیش کی ہے۔ بقول ڈاکٹر گیان چند جین:
’’یہ ڈرامہ ایک سیاسی تمثیل ہے۔ اس کا موضوع جبر و استبداد کے خلاف شدید احتجاج ہے۔ مصنف کے ذہن پر ایمرجنسی کا نقشہ طاری ہے اور یہ مسلسل تمثیل کے پردے سے جھانکتا رہتا ہے۔‘‘۴؎
’’ضحاک‘ ڈیمائی سائز کے اڑتالیس صفحات اور چھ مناظر پر مشتمل ایک مختصر ڈراما ہے۔ پہلے سین میں ضحاک کے شانوں پر اُگے ہوئے دو سانپوں کو دکھایا گیا ہے جو اسے پھن مار مار کر اس کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں لیکن کسی کے پاس اس کا علاج نہیں۔ تمام باکمال طبیب، ساحر، جادوگر، مذہبی اور روحانی پیشوا وغیرہ اپنی تدبیروں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ضحاک کرب سے بے قرار ہو کر جاہ و جلال کے عالم میں وزیر کو حکم دیتا ہے کہ قلعے کے دروازے کھول دیے جائیں، دربار عام اور دربار خاص کے ایوانوں سے پہرے ہٹا لیے جائیں اور دارالسلطنت کے گوشے گوشے میں یہ منادی کرا دی جائے کہ کوئی ہمارے درد کا درماں کرے ورنہ شہر کے ایک ایک فرد کو قتل کر دیا جائے گا اور راجدھانی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ اسی وقت بوسیدہ اور بدبو دار کپڑے پہنے الجھے ہوئے گندے بال اور پتھرائی آنکھیں لیے ایک فاترالعقل بوڑھا اندر داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے پاس اس اذیت کا علاج موجود ہے لیکن اس کے لیے بادشاہ کو اپنی روح کا سودا کرنا ہوگا۵؎۔ بادشاہ کرب کے عالم میں اپنی رضامندی کا اظہار کرتا ہے۔ بوڑھا (شیطان) ضحاک کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ ان سانپوں کو صبح و شام دو دو انسانوں کے بھیجے کھلائے جائیں تاکہ شکم سیر ہونے کے بعد وہ پھن مارنا بند کر دیں۶؎۔ اس طرح ضحاک کے ظلم و ستم کا بازار گرم ہوتا ہے اور روزانہ انسانوں کو موت کے منہ میں ڈھکیلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اب وزیر اعظم کے سامنے یہ مشکل آن کھڑی ہوتی ہے کہ وہ کون سی تدبیر اختیار کرے تاکہ اس کے محسن شہنشاہ کو قاتل نہ کہا جائے۔ لہٰذا ڈرامے کے دوسرے سین میں وہ درباریوں کو ہدایت دیتا ہے کہ سب کو بادشاہ کا یہ راز پوشیدہ رکھنا ہوگا کہ اس کے کاندھوں پر دو سانپ ہیں اور انھیں روزانہ انسانی بھیجوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وہ پہلے راہب کی زبان سے یہ جملے کہلاتا ہے اور اس کی زبان سے یہ باتیں ادا ہوتے ہی اس کی گردن اڑا دیتا ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ ’جو ان لفظوں کو زبان سے نکالے گا اس کا یہی انجام ہوگا۔‘‘ پھر وہ جرجان کو راہب اعظم کا عہدہ عطا کر کے اس بات کا حکم دیتا ہے کہ حلف کی رسم ادا کی جائے۔ ایک لمحہ کے لیے اس کے دل میںبھی شاعر، استاد، راہب، جج اور رقاصہ کی طرح یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ آخر اس کے ضمیر کو کس طرح سکون نصیب ہوگا۔ لیکن سب کے متضاد خیالات کو سن کر وہ بھڑک اٹھتا ہے اور انھیں جاہل کے لقب سے نوازتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا مسئلہ ضمیر نہیں انسانی بھیجے ہیں اور اس کے حصول کی انھیں فکر کرنی ہے۔ وزیر اعظم کا مدعا فقط یہی ہے کہ اسے روزانہ انسانی بھیجے دستیاب ہوتے رہیں اور یہ کام اتنی ہوشیاری سے کیا جائے کہ عوام کی جانب سے کسی منفی رد عمل کا اظہار نہ ہو۔ بلکہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں کہ لوگ بہ رضا و رغبت اپنے ملک اور بادشاہ کی خاطر جان دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس کے لیے عوام کو ہر سطح اور ہر قیمت پر موت کا سبق پڑھنا ہوگا۔ شاعر، استاد اور جج اس کام کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے فرائض کی دہائی دیتے ہیں لیکن فوجی افسر کے کڑے تیور کو دیکھ کر کوئی بغاوت کا علم بلند نہیں کرتا بلکہ سب اس نادر شاہی فرمان کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔
تیسرے منظر کے نصف حصے میں ضحاک اور اس کی ملکہ نوشابہ کے درمیان ہوئے مکالمے ہیں۔ ضحاک نوشابہ سے پوچھتا ہے کہ آخر اس نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس کے شانوں پر ہمیشہ کے لیے سانپ مسلط ہو گئے ہیں۔ جمشید کو زندہ آروں سے چروانا، قلم کاروں کے ہاتھ کاٹ دینا، ملک کو ایک سرکاری زبان دینے کی خاطر دوسری زبان بولنے والوں کی زبان کھنچوا لینا، زیادہ اجرت مانگنے والے مزدوروں اور کسانوں کو گورخر کی کھال میں زندہ سلوا دینا، آبادی کو کم کرنے کے لیے مردوں کو آختہ کرانا اور عورتوں کے رحم نکلوا کر پھنکوا دینا وغیرہ جیسے مظالم کو انصاف کا نام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ سارے وہ فرائض تھے جو ملک کے نظم و نسق کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کے لیے پورے کرنے لازمی تھے۔ جب اس نے ان ذمے داریوں سے منہ نہیں موڑا تو پھر وہ آخر کون سا پاپ ہے جس کا عذاب اسے دن رات بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جواب کے طور پر نوشابہ اس کی ہاں میں ہاں ملاتی ہے اور مختلف دلیلوں سے یہ ثابت کرتی ہے کہ ضحاک عوام میں بے حد مقبول ہے اور اس نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ وقت کا تقاضا تھا۔ ابھی دونوں کی گفتگو جاری ہی رہتی ہے کہ صبح کے چار بج جاتے ہیں اور سانپ پھر پھن مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ضحاک اور نوشابہ مرصع کرسیوں پر جا بیٹھتے ہیں۔ اسی وقت وزیر اعظم، فوجی افسر اور باڈی گارڈ کو ساتھ لیے دس تندرست و توانا نوجوانوں کے ساتھ حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ سیستان کے صوبے کی طرف سے یہ آخری نذرانہ ہے۔ دیگر کارروائیوں کے بعد راہب باری باری سبھی قیدیوں سے یہ اقرار کراتا ہے کہ انھیں اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے شہنشاہ پر قربان ہونا منظور ہے۔ جب چھٹے قیدی فریدوں کا نمبر آتا ہے تو وہ اپنی جان دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ گستاخی کی سزا کے طور پر اس سے قبل کہ وہ قتل کر دیا جاتا، نوشابہ اسے اپنی تحویل میں لے لیتی ہے تاکہ اس کی تربیت کر کے اسے عرفان اور نروان جیسی نعمتوں سے سرفراز کر دے۔
چوتھے سین میں نوشابہ فریدوں کو سمجھا بجھا کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتی ہے۔ ساتھ ہی وہ فریدوں کے ہونٹوں سے اپنی پیاس بجھانے کی خواہش مند ہے لیکن فریدوں اس کی کسی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اسی منظر میں یہ راز بھی فریدوں پر آشکار ہوتا ہے کہ نوشابہ بھی ایک کسان کی لڑکی ہے جسے وقت کے ہاتھوں مجبور ہو کر محل کی زینت بننا پڑا ہے۔ پانچویں سین میں شاعر، رقاصہ، جج، استاد اور راہب کے ضمیر کی الجھنوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ وہ ایک جگہ بیٹھے اپنے گنہگار ضمیر کا ماتم کر ہی رہے ہیں کہ یہ اطلاع آتی ہے کہ فریدوں قید سے فرار ہو گیا۔ سب گھبرا جاتے ہیں کہ اب یہ راز فاش ہو جائے گا کہ انسانی بھیجوں کی ضرورت ملک اور قوم کو نہیں بلکہ بادشاہ کو ہے۔ وہ سراسیمگی کے عالم میں اس خبر پر راے زنی کر ہی رہے تھے کہ فوجی افسر آتا ہے اور سب گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ منتخب شہنشاہ اور ریاست کے خلاف سازشیں کر رہے تھے۔ اخبار نویسوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ کل کے اخبارات میں سیاہ حاشیے پر یہ خبر شایع ہوگی کہ یہ لوگ سڑک حادثے میں مارے گئے۔ ان معزز اصحاب کی موت کے سبب ملک میں تین دن کا سوگ منایا جائے گا۔ چھٹے اور آخری منظر میں شاعر، جج، استاد، راہب اور رقاصہ کے ساتھ نوشابہ کو بھی پا بہ زنجیر کر کے دربار میں پیش کیا جاتا ہے۔ ضحاک کے حکم سے انھیں قتل کرنے کے لیے جلاد جیسے ہی پوزیشن سنبھالتے ہیں کہ اچانک ہاتھ میں مشعل لیے فریدوں داخل ہوتا ہے۔ یہ فتح کی مشعل ہے۔ عوام کی حمایت سے فریدوں اس ظلم و ستم کے بازار کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
’’ضحاک‘ کا پلاٹ بالکل گٹھا ہوا ہے۔ چوں کہ یہ تمثیلی نوعیت کا ڈراما ہے اس لیے اس میں معنی کی کئی سطحیں نظر آتی ہیں جس کی بنا پر اس کے پلاٹ میں تہہ داری آ گئی ہے۔ خود محمد حسن نے بھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے اسے تین سطحوں کا ڈراما قرار دیا ہے۔ ایک سطح ایمرجنسی سے منسلک ہے۔ دوسری سطح سیاسی ناخدائوں کے گھنائونے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کس طرح وہ غیر جانب دار اداروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور تیسری سطح کا موضوع بقول محمد حسن:
’’وہ صنعتی ترقی اور وہ مشین ہے جو انسان کی دریافت ہے مگر خود انسان کی آقا بن گئی ہے اور منافع کے لیے استعمال ہونے والی یہ مشین انسان کو ایسے تشنج میں مبتلا کر چکی ہے کہ جس کی قیمت انسان اپنی روح کو گروی رکھ کر ادا کرتا ہے۔‘‘۷؎
اور سچ تو یہ ہے کہ معنی کی ان تینوں سطحوں کو نہایت سلیقے اور اعتدال و توازن کے ساتھ اجاگر کیا گیا ہے۔ جہاں ضحاک کے ظلم و ستم کی عکاسی کی گئی ہے وہاں اس ظلم و ستم کے خلاف فریدوں کا پرزور اور موثر احتجاج بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی صنعتی نظام کی کھوکھلی ترقیوں کو بھی تختۂ مشق بنایا گیا ہے جس نے انسانی قدروں کو درہم برہم کر کے ان پر اپنا ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے۔ ڈرامے میں پیش آنے والے تمام واقعات ایک دوسرے سے پوری طرح مربوط ہیں اور کسی بھی واقعہ کو خواہ مخواہ ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ پورے پلاٹ میں کہیں بھی جھول نہیں اور نہ عمل کی رفتار سست یا مدھم پڑتی معلوم ہوتی ہے۔ خیالات کو کم سے کم الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے کسی طرح کا ابہام نہیں پیدا ہوتا بلکہ اثر آفرینی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ پورے قصے میں عصری زندگی کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔
جہاں تک ڈرامے کے مرکزی خیال کا تعلق ہے، ڈراما نگار نے خود ہی اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
’’ڈرامے کا تصور بہت سیدھا سادا ہے اور یہ ہے کہ انسانیت اور اس کے بہترین اداروں کا نجات دہندہ محنت کش طبقہ ہے اور فریدوں اس کا نمائندہ ہے اور یہ خیال رومانویت کے بجائے نئی حقیقت پسندی کے ذریعہ ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘۸؎
ڈراما نگار کا یہ قول بالکل بجا ہے کیوں کہ ضحاک اور اس کے درباریوں کی شکل میں شرکی جن قوتوں نے سر ابھارنے کی کوشش کی ہے، فریدوں کے احتجاج کے بعد وہ اسے زیر کرنے کے لیے اپنے نرغے میں لے لیتی ہیں اور ڈرامے میں پیش آنے والے واقعات ڈرامے کے تیسرے سین سے ہی فریدوں کے گرد رقص کرنے لگتے ہیں۔ آخر کار فریدوں ہی معصوم عوام کا نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے جس نے اپنی حکمت عملی، شجاعت اور زورِ بازو سے کام لے کر ظلم کی قوتوں کو اپنے پیروں سے کچل ڈالا۔
کردار نگاری کے لحاظ سے بھی’’ضحاک‘ ایک قابل قدر ڈراما ہے۔ اس کے اہم کرداروں میں ضحاک اور فریدوں ہیں۔ نوشابہ، بوڑھا اور وزیر اعظم معاون کردار ہیں۔ فوجی افسر، شاعر، جج، راہب، رقاصہ، قیدی، درباری اور سپاہی ذیلی اور ضمنی کرداروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ضحاک اس ڈرامے کا اساسی کردار ہے جسے مصنف نے اپنے عہد کے ڈکٹیٹر کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ کردار ایک ظالم اور جابر حکمراں کا ہے جو اپنے سکون کی خاطر معصوم عوام کے خون کو جائز تصور کرتا ہے۔ ظلم کی چربی اس کی آنکھوں میں اس طرح چھا گئی ہے کہ اسے حق اور ناحق میں تمیز محسوس نہیں ہوتی۔ تنہائی میں اپنی بیوی نوشابہ سے جذبات سے معمور لہجے میں گفتگو کے وقت عوام پر اپنے ڈھائے ہوئے ظلم و ستم کو اس طرح بیان کرتا ہے جیسے یہ سارے اقدامات ظلم نہیں تھے بلکہ وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں سے مجبور ہو کر اس نے ایسا کیا تھا اور یہ سلطنت کے استحکام کے لیے ضروری تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ کون سا امتحان ہے جس میں وہ پورا نہیں اترا، جس کے لیے اسے سانپوں کے عذاب میں مبتلا ہونا پڑا۔ ضحاک کا ذہن گمراہ سہی لیکن اس کا ضمیر زندہ ہے جو اس کی روح میں تلاطم برپا کیے ہوئے ہے اور اسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا بلکہ ہر وقت کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ اگر اس کا ضمیر بیدار نہ ہوتا تو بوڑھے کے ذریعہ اسے سانپوں کے لیے انسانی بھیجوں کا جو نسخہ ہاتھ آ گیا تھا وہ اس سے مطمئن ہو جاتا لیکن ضمیر کی یہی بیداری کانٹا بن کر اس کے دل میں چبھتی رہتی ہے اور اسے مجبور ہو کر یہ کہنا پڑتا ہے :
’’تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہر رات ہماری نیندیں کربناک ہیں۔ ہر رات وہی خوفناک بوڑھا اپنے بھیانک قہقہہ کے بعد ہمیں خبردار کرتا ہے کہ سیستان کی پہاڑیوں کے اس پار ہمارا قاتل کسانوں کے قبیلے میں مفلسی اور عذاب کے سائے میں پل کر جوان ہو رہا ہے اور ایک دن محنت کا خونیں جھنڈا اٹھائے اس کا گروہ ہمارے تخت کو پلٹ دے گا۔ وہ کہتا ہے کہ اس دن ہماری توپوں کے دہانے ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اس مسخرے سے پوچھو وہ ہمیں کیوں ڈراتا ہے۔ آخر کیوں وہ ہمیں آسمانوں سے للکارتا ہے کہ یومِ حساب قریب ہے۔‘‘۹؎
یہ آواز ضحاک کے گمراہ ذہن کی نہیں بلکہ زندہ ضمیر کی ہے۔ مگر اس کا ضمیر ذہن پر غالب نہیں آتا۔ شر خیر پر حاوی ہے۔ ضحاک کو اپنی طاقت پر اتنا غرور ہے اور اقتدار کا خمار اس قدر چڑھا ہوا ہے کہ اپنے انجام تک پہنچنے کے باوجود بھی اپنے گناہوں پر نادم نہیں ہوتا۔ ڈرامہ نگار نے ضحاک کے کردار پر کافی محنت کی ہے اور ایک جابر اور مطلق العنان حکمراں کو جیسا ہونا چاہیے بالکل اسی انداز میں پیش کیا ہے۔ اگر اس منفی خصوصیت کے حامل کردار کے رویے میں کہیں بھی لچک ظاہر ہو جاتی تو یہ کردار نگاری کی خامی ہوتی۔
ضحاک کے کردار کو آگے بڑھانے اور اسے ایک نئی قوت عطا کرنے میں نوشابہ کا بڑا ہاتھ ہے۔ نوشابہ ضحاک کی بیوی ہے۔ ڈرامے کے چوتھے منظر میں کورس کے بعد وہ فریدوں کو جو داستانِ غم سناتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی کسان گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جسے شاہی سپاہیوں نے زبردستی اس کی ماں کی گود سے چھین کر اور احتجاج کی صورت میں ماں اور بھائی کو قتل کر کے محلوں کی زینت بنا دیا اور اسے ملکہ بننے پر مجبور کیا۔ نوشابہ کے الفاظ میں:
’’جب تک یہ کسان کی بچی میرے اندر جاگتی رہی، میں انکار کرتی رہی۔ پھر ایک دن میں نے ملکہ کا تاج پہنا اور اس کسان بچی کی لاش کو گدھوں نے نوچ نوچ کر کھا لیا۔‘‘۱۰؎
کسان گھرانے کی معمولی دوشیزہ سے بادشاہ وقت کی ملکہ بننے تک اسے پرخار اوراذیت ناک ذہنی سفر طے کرنا پڑا ہے اور ملکہ بننے کے بعد اس نے حالات سے بھلے ہی سمجھوتہ کر لیا لیکن ذہنی طور پر وہ ضحاک کی کبھی شریک حیات نہیں بن سکی۔ وہ اپنی زندگی خوف کے شامیانے کے نیچے گزار رہی ہے۔ ایک عام رعایا کی طرح اس کے دل میں بھی ضحاک کا ڈر اس قدر گھر کر چکا ہے کہ وہ ہمیشہ اندر سے سہمی سہمی سی رہتی ہے۔ بادشاہ کے ظلم و ستم سے وہ اچھی طرح واقف ہے لیکن اس میں اتنی جرأت و ہمت نہیں کہ سچ بات کہہ سکے۔ وہ فریدوں کے سامنے حقائق کا اظہار کر سکتی ہے لیکن ضحاک کی خوشامد کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ ضحاک جب اس سے اپنی ذہنی الجھنوں اور باطن کی کشمکش بیان کرتا ہے تو چہ جائیکہ وہ اسے اپنی حکمت عملی سے کام لے کر راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتی، الٹے اس کے ظلم کو مختلف دلیلوں سے صحیح ثابت کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حالانکہ ضحاک اس سے یہاں تک کہتا ہے کہ اگر کوئی چیز:
’’سچ ہے تو ہمارے شانوں پر پھن مارتے ہوئے سانپ یا تیرا ملائم جسم، باقی سب جھوٹ ہے۔ رب اعلیٰ کی قسم ہمیں اس جھوٹ سے بچا لے۔‘‘۱۱؎
لیکن نوشابہ اسے’’اس جھوٹ‘ سے بچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ اسے یہی یقین دلانے کی سعی کرتی ہے کہ اس کی سلطنت ہزاروں سال اسی طرح قائم رہے گی۔ چونکہ:
’’عوام آپ کے قصیدے گا رہے ہیں۔ ملک میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ قیمتیں گر رہی ہیں۔ آبادی کم ہو رہی ہے۔ لوگوں کی رگوں میں جاں نثاری کا وہ جذبہ ہے کہ ہر ریاست سے لوگ اپنی جان حکومت پر نثار کرنے کے لیے اپنے بھیجے نذر کے لیے لا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا منظر انسانی تاریخ نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ عوام نے کبھی کسی شہنشاہ کو اتنا پیار نہیں دیا۔ بے مثال، انوکھا، بے نظیر۔‘‘۱۲؎
نوشابہ ایسا کیوں کرتی ہے؟ صرف اس لیے کہ اسے خوف ہے کہ اگر اس نے بادشاہ کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔ وہ اپنے شوہر کو ظالم تصور کرتی ہے لیکن اس سے جھوٹ بولتی ہے۔ مگر یہ جھوٹ چھپائے نہیں چھپتا۔ ضحاک سے گفتگو کے وقت اس کا جسم کانپ رہا ہے اور آواز لرز رہی ہے۔ اس کے پیچھے کعبہ ہے تو آگے کلیسا۔ ایمان کی گرفت کمزور ہے اس لیے وہ عارضی طور پر ہی سہی لیکن کفر کی جانب کھنچتی چلی چلی جا رہی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے تصور کر لیا ہے کہ اب اسے اس ماحول سے نجات نہیں مل سکتی۔ یہی صورت حال اس کا مقدر ہے۔ لہٰذا ہنس کر یا رو کر جیسے بھی ہو حالات سے سمجھوتہ کیے بغیر چارہ نہیں۔
ضحاک‘ کا سب سے اہم کردار فریدوں ہے جو ڈرامے کے تیسرے سین میں سیستان سے لائے گئے آخری قیدیوں کے صف میں کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ راہب جب اس سے دوسرے قیدیوں کی طرح یہ قبول کرانا چاہتا ہے کہ اسے اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے شہنشاہ پر قربان ہونا منظور ہے تو وہ چیخ کر کہتا ہے:
’’نہیں! میرا کوئی ملک نہیں۔ میری کوئی قوم نہیں۔ میرا کوئی شہنشاہ نہیں۔ مجھے جان دینا منظور نہیں۔‘‘۱۳؎
فریدوں کی اس جرأتِ رندانہ پر پورے دربار میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ فوجی افسر اور سپاہی اسے اپنے نرغے میں لے لیتے ہیں۔ راہب جب اس کی گستاخیوں پر اسے ٹوکتا ہے تو اس کی باتوں کا جواب دینے کے ساتھ ہی جج سے مخاطب ہو کر طنزیہ انداز میں یہ سوال کرتا ہے:
’’مجھے آئینی آزادی دینے والے! کیا تمھارا دستور مجھے جینے کی آزادی نہیں دے سکتا؟‘‘۱۴؎
قریب تھا کہ تلوار کا ایک ہی وار اس کی زبان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے لیکن فوراً نوشابہ آڑے آتی ہے اور فریدوں کو قتل سے بچانے کے لیے اس کی تربیت کا ذمہ لیتی ہے۔ اس کے خیال میں اگر فریدوں کے خون کا ایک قطرہ بھی بہا تو بادشاہ کا پاکیزہ نظام مجرم ہو جائے گا۔ چوتھے منظر میں فریدوں نوشابہ سے کہتا ہے:
’’ملکۂ عالم! آخر میں نے کیا قصور کیا ہے کہ مجھے موت کی سزا دی جا رہی ہے۔ زندگی بھر ان ہاتھوں نے ہل اور ہنسیا کے سہارے بنجر زمینوں میں بھی پھول کھلائے اور اناج کے دانے اُگائے۔ ان ہاتھوں نے بھوکوں کو کھانا دیا، ناتوانوں کو زندگی دی۔ کیا اس کا یہی انعام ہے کہ مجھے بے قصور قتل کر دیا جائے۔ کیا میرا فقط یہی گناہ ہے کہ میں غریب ہوں۔ میں ایک معمولی کسان ہوں، بے آسرار سہارا کسان۔‘‘۱۵؎
ان باتوں سے فریدوںکی شخصیت بہت حد تک بے نقاب ہو جاتی ہے۔ وہ کسانوں، بھوکوں، غریبوں اور ناتوانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ ایک معمولی کسان ضرور ہے لیکن ظلم و ستم کے آگے سپر ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ ایک خودسر، نڈر، بے خوف اور بہادر نوجوان ہے جو ہر طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ نوشابہ اسے لاکھ سمجھاتی ہے کہ چیونٹی کائنات کے خلاف یلغار نہیں کر سکتی، معمولی کیڑا آسمانوں سے نہیں ٹکرا سکتا۔ کسان ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سائنس، مذہب، علم و دانش، فوجیں، ہتھیار، فتوحات کے وسیلے، انصاف، قانون وغیرہ سب بادشاہ کے زر خرید ہیں، غلام اور دلال ہیں۔ کوئی خالی ہاتھوں سے کب تک ان زبردست قوتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ انکار فضول اور بے کار ہے۔ اس لیے وہ بھی حالات کے آگے سر جھکا دے لیکن فریدوں پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ بے خوفی سے اپنے خیالات پر اٹل رہتا ہے۔ خلوت میں نوشابہ اس سے بوس و کنار کی طلب گار ہوتی ہے۔ اگر وہ چاہتا تو بہ آسانی ایسا کر سکتا تھا لیکن وہ اس ’کارِ خیر‘ کو انجام دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ اس کی سیرت اور کردار کا ایک روشن پہلو ہے۔ فریدوں کے ذریعے ادا کیے گئے دو جملے ملاحظہ فرمائیے:
’’نہیں! میں اس طرح مرنا چاہتا ہوں کہ میرے ہونٹوں پر انکار زندہ رہے۔‘‘۱۶؎
’’اتنا کچھ جھوٹ دیکھا ہے کہ سچ پر سے ایمان اٹھ گیا ہے۔ اتنا جھوٹ سنا ہے کہ سچ کی پہچان جاتی رہی۔‘‘۱۷؎
ڈاکٹر قمر اعظم ہاشمی کا یہ قول درست ہے :
’’وہ اپنی اذیتوں اور مصیبتوں کے باوجود جبر و استبداد کے نظام کے خلاف پرزور صدائے احتجاج بلند کرتا ہے اور یہ اثباتِ حیات کی دلیل ہے۔ اس کی شعوری بیداری، حق پسندی اور عزم و استقلال نے فریدوں کے کردار کو ایثار پسند اور حیات آفریں قوت کا مظہر بنا دیا ہے۔‘‘۱۸؎
’’ضحاک‘ کے کرداروں میں وزیر اعظم بھی کم اہمیت نہیں رکھتا۔ مگر ضحاک، فریدوں اور نوشابہ کے سامنے اس کا کردار دبا دبا سا ہے۔ وزیر اعظم بادشاہِ وقت کا وفادار ملازم ہے۔ وہ اسے سانپوں کی تکلیف سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا۔ تھک ہار کر وہ اپنے آقا کے سامنے آتا ہے اور کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہے مگر ضحاک غصے سے بے قابو ہو کر اسے دھتکارتا ہے کہ تم نمک حرام اور ذلیل کتے ہو۔ تم ہماری تکلیفوں سے واقف ہو پھر بھی اس کی چارہ گری نہیں کرتے۔ وہ مجبور ہو کر کہتا ہے:
’’جہاں پناہ! روئے زمین کے تمام باکمال طبیب اپنی تدبیروں میں ناکام ہو چکے، تمام ساحر اور جادوگر، مذہبی اور روحانی پیشوا اپنی آبرو کھو چکے۔ اعلیٰ ترین دماغ تھک گئے اور انسانی علم و دانش اپنی شکست تسلیم کر چکی۔‘‘۱۹؎
بوڑھے کے ذریعہ جب ضحاک کو انسانی بھیجوں کا نسخہ معلوم ہوتا ہے تو وہ وزیر اعظم کو اس سے آگاہ کرنے کے بعد فوراً دو چوبے داروں کو قتل کر کے ان کی کھوپڑیوں سے بھیجے نکال کر سانپوں کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ سانپ اسے ڈسنا بند کر دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ضحاک تھکان سے چور ہو کر گر پڑتا ہے اور سو جاتا ہے۔ سارے درباری سکتے کے عالم میں کھڑے ہیں۔ وزیر اعظم کی نظروں میں بھی ہمدردی، افسوس اور ہیبت کی ملی جلی آمیزش ہے۔ وہ سب کو باہر جانے کا اشارہ کرتا ہے۔ تنہا ہوتے ہی بے اختیار اس کی زبان پر یہ الفاظ آ جاتے ہیں:
’’زمانے کو سبھی لفظوں کے معنی بدلنے پڑیں گے تاکہ میرے محسن شہنشاہ کو قاتل نہ کہا جائے۔‘‘۲۰؎
اور وہ فوراً شہنشاہ کو قاتل کے خطاب سے بچانے اور لفظوں کے معنی بدلنے کی مہم شروع کر دیتا ہے۔ وہ موجودہ راہب کو قتل کر کے جرجانؔ نامی درباری کو یہ عہدہ عطا کرتا ہے اور اسی کے ذریعے حلف کی یہ رسم پوری کرائی جاتی ہے کہ سب اس راز کو راز ہی رکھیں گے۔ چند لمحوں کے لیے وزیر اعظم کے دل میں بھی یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے ضمیر کو کیسے مطمئن کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خلش بہت جلد معدوم ہو جاتی ہے۔ اپنے آقا کی خاطر وہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔ انسانی بھیجوں کی فراہمی کی ذمہ داری اسی کے سر ہے اور وہی اس کی منصوبہ سازی کرتا ہے۔ وزیر اعظم ضحاک کے ظلم میں برابر کا شریک ہے۔ سارے درباریوں کو تلوار کے زور پر جادۂ اعتدال سے منحرف کرنے کی کوشش اسی نے کی ہے۔ اسی نے سب کے ضمیر پر خوف کے پہرے بٹھا دیے ہیں۔ لیکن جب وہ خود اپنے ضمیر کو سنگسار کر دیتا ہے تو اس کی حیثیت فرمانبردار کتے سے زیادہ نہیں رہ جاتی اور ایسی حالت میں وہ ہماری نفرتوں کا مستحق قرار پاتا ہے۔
فوجی افسر، رقاصہ، شاعر، جج اور راہب کے کردار بھی مردہ اور بے جان نہیں ہیں بلکہ اپنی اہمیت کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ رقاصہ، شاعر، جج اور راہب وقت کے تیور کو بھانپ کر جب راہِ فرار کی گنجائش نہیں پاتے تو اپنے ضمیر کو گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن یہ چوں کہ فن کاروں اور دانش وروں کا طبقہ ہے لہٰذا جلد ہی اس لاچاری اور یاس بھری زندگی سے بے زار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ڈرامے کے پانچویں سین میں یہ چاروں بیٹھے اپنی زندگی کا ماتم کر رہے ہیں اور اپنے اوپر لعنت بھیج رہے ہیں۔ شاعر کے ان جملوں میں پوشیدہ تڑپ کا اندازہ کیجیے:

تخئیل کی ساری شمعیں روشن کرو دوستو! سچائی کے قد آدم آئینوں سے سارے نقاب، ساری دھند دور کر دو۔ آئو، آج کی رات ہم اپنے بھیانک چہرے دیکھیں، قاتلوں سے زیادہ خوفناک، خونیوں سے زیادہ دہشت ناک چہرے۔ میںنہیں جانتا قابل نفرت کون ہے مگر ہر لفظ مجھے ذلیل اور رسوا کرتا ہے۔ کورے کاغذکا ہر صفحہ میرا منہ چڑھاتا ہے۔ میرا ضمیر بے قرار ہے۔‘‘۲۱؎
اور یہ ان کے ضمیر کی تڑپ ہی ہے جو انھیں خاموشی کے ساتھ جان دینے کے لیے آمادہ کر دیتی ہے۔ انھیںبہ خوبی اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اس وحشت ناک فضا میں آزادی کی سانس نہیں لے سکتے اس لیے زندگی کی قیمت چکا کر ہی سہی، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لینا چاہتے ہیں۔ صرف فوجی افسر ہی ایسا کردار ہے جو مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ چوں کہ وہ طاقت کی علامت ہے اس لیے کہیں بھی اس کا سر جھکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ڈراما جس ماحول میں لکھا گیا اس کا تقاضا بھی یہی تھا کہ یہ کردار طاقت کے نشے میں سرشار نظر آئے۔
مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈراما ’ضحاک‘ کی کردار نگاری میں تمام فن اور لوازم کا خیال رکھا گیا ہے۔ کس کردار کو کتنا ابھارنا اور کتنا دبانا ہے، کس کردارکو لچیلا ظاہر کرنا ہے اور کس میں سپاٹ پن کی خصوصیات پیداکرنی ہیں، ان تمام باتوں سے ڈراما نگار بہ خوبی عہدہ بر آ ہوا ہے۔ کہیں سے کوئی سقم ڈھونڈے نہیں ملتا۔ ایسی کامیاب ترین کردار نگاری اردو کے بہت کم ڈراموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
’ضحاک‘ کے مکالمے بھی نہایت چست اور درست ہیں۔ ’ضحاک‘ کی کہانی چوں کہ شاہی دربار سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس کے مکالموں میں رکھ رکھائو، رعب و دبدبہ اور وقار کا ہونا ضروری تھا۔ ڈرامہ نگار نے جس کردار کی زبانی جو مکالمے ادا کرائے ہیں وہاں ان کی حیثیت اور موقع و محل کا لحاظ رکھا ہے۔ ضحاک کا لہجہ عام طور پر تحکمانہ ہے۔ وہ مطلق العنان حکمراں ہے، اس لیے اس کی باتوں سے رعونت کی بو آتی ہے۔ البتہ جہاں اس کی باطنی الجھنوں کی عکاسی کی گئی ہے وہاں اس کی گفتگو میں قدرے بے چارگی کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔ وزیر اعظم جلیل القدر عہدے پر فائز ہے۔ اسے بادشاہ کے راز کو پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کے لیے وہ طاقت کا استعمال کرتا ہے۔ بادشاہ کے سامنے اس کی گھگی بندھی رہتی ہے۔ لیکن اس کی غیر موجودگی میں اس کے ایک ایک جملے میں شعلے کی لپک اور بجلی کی کڑک محسوس ہوتی ہے۔ ایک مثال دیکھیے:
’’پوچھنے والوں کی زبانیں گدی سے کھینچ لو۔ شک کرنے والے دل ان کے سینے چیر کر نکال لو۔ ہماری مملکت میں سوال جرم ہے جس کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘۲۲؎
اور یہ فوجی افسر کا آمرانہ رویہ بھی ملاحظہ ہو:
’’ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ تم میں سے کسی کا بھی قد تلوار سے لمبا نہیں ہے اور تم اپنی چمک دار قبائوں اور اعزازات کی لمبی لمبی فہرستوں کے باوجود ہمارے غلام ہو غلام۔ اس سے آگے کچھ نہیں۔‘‘۲۳؎
جہاں شاعر، رقاصہ، جج، راہب اور استاد بیٹھے اپنے ضمیر کا نوحہ پڑھ رہے ہیں ان میں صرف رقاصہ کے ان جملوں پر نظر ڈالیے:
’’مجھے فاحشہ کہو اور کچھ گالیاں دے لو مگر تمھارے اندر کا کوڑھ اس سے اور بھی بھیانک ہو جائے گا۔ ہاں میں نے اپنا آرٹ بیچا۔ ناچ ناچ کر لوگوں کی موت کی طرف بلایا۔ مجھے اپنی جان پیاری تھی مگر تم نے تو قلم کی عصمت، فکر کی پاکیزگی، فن کا غرور سب کچھ بیچ کھایا ہے۔‘‘۲۴؎
ان مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر بات موقع و مصلحت کے ساتھ ساتھ انتہائی دل نشیں اور موثر پیرائے میں ادا کی گئی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان مکالموں میں ہر جگہ ایک ادبی شان موجود ہے۔
’’ضحاک‘ میں کشمکش اور تصادم کی فضا ابتدا سے انتہا تک موجود ہے۔ ڈرامے کے شروع میں ہی ضحاک کے شانوں پر دو سانپ دکھائے گئے ہیں جو پھن مار مار کر اس کی اذیتوں میں مستقل اضافہ کر رہے ہیں۔ دراصل ذہنی کشمکش کا آغاز یہیں سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب بوڑھا اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے انسانی بھیجوں کا نسخہ تجویز کرتا ہے تو قارئین کے ذہن کی رگیں یکایک تن جاتی ہیں اور دماغ جھنجھنانے لگتا ہے۔ وزیر اعظم بھیجوں کے حصول کے لیے جو فضا ہموار کرتا ہے اور اس کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کرتا ہے اس سے بھی ہماری کشمکش برقرار رہتی ہے۔ ضحاک اور نوشابہ خلوت میں جو گفتگو کرتے ہیں اس سے دونوں کی داخلی الجھنوں کا پتہ چلتا ہے۔ البتہ ان الجھنوں کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ بادشاہ کے سکون کی خاطر موت کا درس دیتے ہیں، ان کا ضمیر بھی ہر وقت ان سے متصادم رہتا ہے لیکن ڈرامے کا اصل تصادم وہاں رونما ہوتا ہے جہاں فریدوں اطاعت شاہی سے انکار کر دیتا ہے اور ہنسی خوشی اپنی جان دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ یہاں سے قصہ ایک نیا رخ اختیار کرتا ہے اور دل کی دھڑکنیں تیز تر ہو جاتی ہیں۔ تیسرے سین کے آخر میں تلوار گرنے اور گردنیں الگ ہونے کی بے رحم آوازیں، فریدوں کا ضحاک کی قید سے فرار ہو جانا، شاعر، جج، راہب، استاد، رقاصہ اور نوشابہ کی گرفتاری وغیرہ جیسے واقعات سے پورے ڈرامے میں تصادم کی لہریں معمولی فرق کے ساتھ رواں دواں رہتی ہیں۔
’’ضحاک‘ کی ایک اور خوبی جو ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے، وہ اس کا طنزیہ اسلوب ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ پورے ڈرامے میں عصری زندگی کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔