انسان کو بیماری نہیں ،ناامیدی مار دیتی ہے

جنگِ عظیم دوئم دنیا کاایک بہت بڑا سانحہ مانا جاتا ہے۔اس جنگ میں ہزاروں ، لاکھوں کو گرفتار کرکے ٹارچرسیل میں ڈال دیا گیاتھا ، جہاں انہیں خوف ناک قسم کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔انسان جب بھی ٹارچر سیل میں ہوتا ہے تو جسمانی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ جذبات کی جنگ ، تنہائی کی جنگ اور اس جیسی کئی نفسیاتی جنگیں بھی اسے لڑنی پڑتی ہیں۔ اس کے ارد گرد کتنے سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مرررہے ہوتے ہیں اور جب وہ دوسروں کو مرتے دیکھتا ہے تو اپنی موت پر یقین اور بڑ ھ جاتاہے۔

یہ جنگ اتنی خوف ناک ہوتی ہے کہ چند دنوں میں انسان حوصلہ ہارکر مربھی سکتا ہے۔ اُس وقت بہت سارے کیمپس بنائے گئے جن میں جنگی قیدیوں کو رکھا جاتا۔ان کیمپوں میں ایک ڈاکٹر بھی موجود تھا جس کا نام وکٹر فرینکل تھا اور جو ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین رائٹر بھی تھا۔اس نے تین سال اس جنگی قید خانے میں گزارے اور جب وہاں سے ِرہا ہوا تو اس نے ایک شاہکار کتاب The man’s search for meaningکے نام سے لکھی جو بعدمیں کئی ہزار کی تعداد میں چھپی اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل یہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ زندگی کے اسباق سے بھرپور ایک کتاب تھی۔میں نے اپنی زندگی کے کئی اسباق اس سے سیکھے ہیں۔اس کتاب میں کئی ساری ایسی باتیں ہیں جن کودنیا کے ہر مشکل وقت میں دہرا لینے چاہییں۔

اس وقت ساری دنیا کوروناکی آزمائش سے گزررہی ہے۔ ہمارے ملک میں شدید خوف و ہراس پایاجارہا ہے۔ میڈیا پر ایک ہی خبر چل رہی ہے جس نے ہر سننے اور دیکھنے والی کی امید کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔یہ سارے حالات ان شاء اللہ چند دنوں میں ختم ہوجائیں گے۔ڈاکٹر فرینکل کے ساتھ ان حالات میں ایک سانحہ ہوا کہ ان کے خاندان کے جتنے لوگ تھے وہ سب اس قید خانے میں مرگئے۔اس کے ساتھ ایک واقعہ اور ہوا جس میں ہمارے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے۔

ان کے ساتھ ایک قیدی تھا جس نے فروری کے مہینے میں ایک خواب دیکھا اور اس خواب میں ایک آواز سنی جس میں اس سے کہا گیا کہ پوچھو مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟اس قیدی نے پوچھا کہ ہم اس جنگ سے باہر کیسے نکلیں گے اور اس اذیت سے نجات کب ملے گی؟ اس غائبانہ آواز نے کہا: تم تیس مار چ کو اس قید سے نجات پالوگے۔

‘‘فروری کا مہینہ ختم ہوا ، مارچ شروع ہوا اور وہ قیدی ایک ایک کرکے دِن گننا شروع ہوا اور سب سے عجیب بات یہ ہوئی کہ جب مارچ کا مہینہ اختتام کے قریب پہنچا تو قیدی کو محسوس ہونے لگا کہ ہم اس قید سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ 29تاریخ کو وہ قیدی بیمار ہوگیا اور 30مارچ کو اس کی وفات ہوگئی۔وکٹر کو معلوم ہوگیا کہ یہ قیدی کسی بیماری سے نہیں مرا بلکہ اس کی موت کی سب سے بڑی وجہ وہ امید تھی جو ختم ہوگئی تھی۔

اس کتاب میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ’’ انسان کو تکلیف نہیں مارتی ، انسان کو چیلنجز نہیں مارتے مگر امید کا ختم ہونا ،انسان کو ضرور ماردیتا ہے۔‘‘جس وقت انسان کی امید ختم ہوجاتی ہے ، جب اس کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور اس کاحوصلہ نہیں بچتا تو وہ انسان بھی نہیں بچتا۔وکٹر کا دوسرا مشاہدہ بڑا حیران کن تھا۔اس نے دیکھا کہ اس جنگی کیمپ میں زیادہ تر اموات کرسمس یا 31دسمبر کے درمیان میں ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے لوگوں کا خیا ل تھا کہ کرسمس کا موقع آگیا اور چند دنوں بعد نیا سال شروع ہورہا ہے توشاید یہ تکلیف بھی ختم ہو جائے اور ہمیں رہائی مل جائے لیکن چونکہ یہ امید بارآور نہیں ہوئی ،سب کی سب امیدیں ٹوٹ گئیں اور اسی وجہ سے اموات بھی زیادہ ہوگئیں۔

یہ مت بھولیں کہ جب بھی کسی انسان کی امید ختم ہوجاتی ہے تو صرف امید ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ انسان کا پورا مدافعتی نظام بھی تباہ ہوجاتا ہے اور جب یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو پھر چھوٹی سی بیماری بھی اس کو مارسکتی ہے یعنی بیماری بعد میں طاقتور ہوتی ہے اس سے پہلے آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے اور اس صورت میں بیماری انسان پر غالب آجاتی ہے۔

اس کتاب میں جو مزید مفید باتیں ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ آپ کو اپنی زندگی کا Whyمعلوم ہونا چاہیے۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پیچھے جو نیت ہے وہ کیا ہے؟آپ کا لانگ ٹرم گول کیا ہے ؟آپ کا وژن کیا ہے؟وکٹر کہتا ہے کہ آج کی تکلیف اس انسان کے لیے بہت چھوٹی ہوتی ہے جس کے پاس کل کے لیے بہت بڑا خواب ہو۔جس کے پاس کوئی بہت بڑا Whyہے۔ جو تکلیف کو سہہ کر یہ سوچ رہا ہے کہ میں نے کہیں پہنچنا ہے اور اس کے بعد میرے لیے کوئی بڑی اہم چیز پڑی ہوئی ہے۔

اس Whyوالے نظرئیے پر واصف علی واصف ؒ کا ایک شاندار جملہ جو میں اکثر نقل کرتا ہوں کہ ’’بڑی منزل کا مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔‘‘آج کی تکلیف ، آج کا چیلنج اس کے لیے چھوٹاہے جس کا آنے والے دِنو ں میں خواب بڑا ہے ، جس کے عزائم بڑے ہیں ، جو تکلیف پر پاؤں رکھے گا اور آگے نکل جائے گا۔اشفاق صاحب منچلے کا سودا میں ایک بہت خوب صورت جملہ لکھتے ہیں کہ :جو راستے کے کتوں کی پروا کرتا ہے انہیں منزلیں نہیں ملا کرتیں۔‘‘اگر آپ نے کہیں پہنچنا ہے تو پھر آپ کے لیے راستے کی تکلیف اور مسئلے مسائل سب چھوٹے ہیں۔آپ مسئلے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ دیں کہ’’تو چھوٹاہے اور میری ہمت بڑھی ہے ۔‘‘اور اگر پھر بھی وہ آپ کو بڑا محسوس ہو تو اس کو انگلی اٹھاکر کہیں کہ ’’تو چھوٹا ہے میرے اللہ کی قدرت تم سے بہت بڑی ہے۔‘‘

جس انسان کا خود پریقین ا ور اپنے رب پر ایمان ہوتا ہے تو اس کے سامنے مسئلے بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ میں گزشتہ دنوں سے مسلسل یہی کہہ رہا ہوں کہ بھرپور احتیاط کیجیے لیکن اپنے رب پر بھروسا ضرور رکھیے۔ خوفزدہ یا پریشان اگر ہوں بھی تو خوف کو اتنی اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کی امید ہی ختم کردے۔

وکٹر کا کہنا ہے کہ انسان کی زندگی میں جتنے بھی مسائل آتے ہیں ان کو برداشت کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری جسمانی صحت نہیں بلکہ ذہنی صحت ہے۔ اس صورت میں یہ دیکھا جائے گاکہ آپ اعصابی طورپر کتنے مضبوط ہیں۔ لیکن اگر آپ روز ٹی وی پر منفی خبریں دیکھ رہے ہیں اور صرف یہ سن رہے ہیں کہ کتنے مرگئے اورکتنے رہ گئے تو یہ آپ کے اعصاب کو ختم کرکے رکھ دیں گی اور جب انسان کے اعصاب کمزور ہوں گے تو اس کا مدافعتی نظام بھی خراب ہوگا اور بیماریاں اس پر حاوی ہوجائیں گی۔دنیا میں بہادر ایک بار مرتا ہے لیکن بزدل روز مرتا ہے،کیونکہ اسے عادت پڑچکی ہوتی ہے مرمر کر مرنے کی ۔لہٰذا زندگی کے جنگ لڑنے کے لیے اپنے Whyکو مضبوط رکھیں ، زندگی جینے کی وجہ بنائیے ! وکٹر کہتا ہے کہ تین سا ل کی بامشقت قید میں ،میں اس لیے زندہ رہا کہ آگے کی زندگی میں میرے پا س خواب تھے اورمیں نے کتاب لکھنی تھی۔

وکٹر کا دوسرا مشاہدہ یہ تھا کہ جب آپ کسی مسئلے کو دیکھتے ہیں تو اس کو ایک نام،عنوان یا معنی دیتے ہیں۔یہ بڑا اہم ہوتا ہے کیونکہ جب بھی آپ کسی مسئلے کو کوئی معنی دیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کے لیے اس مسئلے سے نمٹنا بڑا آسان ہوجاتاہے کیونکہ اس کے بعد ہی آپ مسئلے کے حل کی طرف چلے جاتے ہیں اوراس کو حل کرلیتے ہیں یا اپنے اوپرحاوی کرلیتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی جگہ آپ کی گاڑی خراب ہوگئی ہے ،آپ باہر نکل کر غصہ ہوتے ہیں اور برا بھلا کہہ کر خود کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتے ہیں۔جبکہ دوسری صورت یہ ہے جس میں آپ یہ سوچیں کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ گاڑی کی خرابی مجھے کسی حادثے سے بچانے کے لیے ہو۔اوراس میں کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہو۔قدرت کہیں سے آپ کو روکتی ہے اس لیے گاڑی خراب ہوجاتی ہے۔لہٰذا آپ کسی بھی حالت میں صرف منفی پہلو پر نہیں بلکہ ایک سے زیادہ پہلو پر سوچنے کی عادی ہوجائیں۔

انسان کی فطرت ہے کہ دن بھر میں اوسطاً منفی خیالات زیادہ سوچتا ہے اور اس منفی سوچنے کی وجہ سے وہ ہر چیز کا بھی منفی پہلو نکال لیتا ہے ،مثبت کو نہیں دیکھتا۔جیسا کہ اب کوروناکی وبا کی وجہ سے ہم آج جتنا وقت اپنی فیملی کو دے رہے ہیں ،اس سے پہلے کبھی اتنا وقت نہیں دیا۔ان چند دنوں میں جتنا مطالعہ کیا ،پہلے کبھی نہیں کیا۔جتنی احتیاط لوگوں نے شروع کردی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کی،لوگ جس قدر فطرت کے قریب ہوگئے ،اتنے شاید پہلے نہ ہوئے ہوں۔فضا،آلودگی سے جس قدر پاک ہوئی ہے شاید اس سے پہلے نہ ہوئی ہو ۔یہ جو قدرت نے Reset کا بٹن دبایا ہے اس سے کتنے مثبت پہلو نکلے، ہمیں اس پر بھی غورکرنا چاہیے۔

محترم قارئین! اگر کوئی انسان مریض بن گیا ہے تو اس کے لیے ہماری دعا ہے کہ اللہ اس کو شفاء دے لیکن جو تندرست ہیں وہ اپنی منفی سوچوں سے مریض بننے کی تیاری شروع نہ کریں۔ احتیاط کو خوف کی حد پر لے جانا مریض بننے کی تیاری ہے اورمیں اس سے آپ کو روکنا چاہتا ہوں۔ زندگی کے ہر مسئلے ، ہر آزمائش کا ایک مثبت رُخ ہوتاہے۔آپ دنیا کے کسی بھی بحران کو مثبت رُخ دیں گے تو آپ کی زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔یاد رکھیں آپ جب بھی چیزوں کو منفی معنی دیں گے تو آپ ان سے ڈیل نہیں کرسکتے ،لیکن اگر آپ مثبت معنی دینے کے قابل ہوں اور اس آزمائش کو ایک نیا لیبل دے دیں تو وہ آپ کے لیے ایک عظیم موقع بن جائے گا۔یہ کبھی مت بھولیے گا کہ دنیا میں ہر طرف مسائل ہی مسائل تھے اور ان کے حل کی تلاش نے دنیا کو ترقی دی ہے۔ اگر مسائل نہ آتے تو حل بھی نہ ہوتے۔آپ کی زندگی میں بھی اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس کا حل ڈھونڈیں ،ترقی آپ کا انتظار کررہی ہے۔

اس کتاب سے اگلا سبق جو میں نے سیکھا وہ یہ تھا کہ آپ کی زندگی میں جب بھی کوئی مسئلہ ہے تو آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ایک یہ کہ آپ اس مسئلے پر منفی ردِ عمل دیں ،جیسے بہت سارے لوگ دیتے ہیں اور ایک راستہ یہ ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر اس کی ذمہ داری لیں اور اچھے انداز میں حل کریں۔ایسے موقع پر انتخاب کرنا اور یہ فیصلہ کرنا کہ میں نے کیا کرنا ہے ،یہ صلاحیت اللہ نے انسانوں کو دی ہے۔

وکٹرکی کتاب میں سب سے خوب صورت بات یہ بھی ہے کہ آپ سے سب کچھ چھینا جاسکتا ہے ،آپ سے طاقت چھینی جاسکتی ہے ،آپ کے مال و متاع کو چھینا جاسکتا ہے ، گھر گاڑی اور بنک بیلنس چھینا جاسکتا ہے لیکن ایک چیز ایسی ہے جو آپ سے نہیں چھینی جاسکتی اور اس کانا م ہے ’’قوتِ فیصلہ‘‘ اپنی زندگی کافیصلتہ آپ نے کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ حالات کی زَد میں آکر فیصلہ کرتے ہیں تو آپ ترقی نہیں کرسکتے کیونکہ پھر آپ کو اپنا فیصلہ حالات پر چھوڑنا پڑے گا لیکن اگر آپ حالات کے مطابق خود کو تیار کرکے اپنے فیصلے خود کرتے ہیں تو آپ کی زندگی بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔

اس سے پہلے بھی دنیا میں بہت زیادہ آزمائشیں اور بحران آئے ہیں اوران میں انسانوں کے نقصان کی وجہ اطلاع بروقت نہ پہنچنا ،سمجھ بوجھ نہ ہونا، سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقی یافتہ نہ ہونا اور اس بیماری سے لڑنے کا طریقہ نہ جاننا تھا۔ اس لحاظ سے آج ہم ایک بہترین وقت میں ہیں، جس میں معلومات انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہیں ،آپ کو اطلاع مل رہی ہے جس کے مطابق آپ وائر س اور بیماری سے احتیاط کرسکتے ہیں۔آج کے حالات نے گزر جانا ہے۔بازار اورمارکیٹیں ایک بار پھر کھل جائیں گے۔پلے گراؤنڈز،پارک اور مساجد ایک بار پھر آباد نظر آئیں گی ،اللہ ہماری پیشانیوں کو ایک بار پھرسجدے کی توفیق دے گا۔ اسکولز ، کالجزاور مدارس ایک بارپھر تعلیم و تربیت کی سرگرمیوں سے متحرک ہوجائیں گے اور انسان دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ بس۔۔امید ٹوٹنے مت دیجیے گا!!