تحریک آزادی میں مسلمانوں کی شہادت

تحریر عبد المصور, کشن گنج

ہندوستان کو عرصہ دراز کے جدوجہد اور سعئ پیہم کے بعد آزادی کی نعمت عظمیٰ حاصل ہوئی ہے۔ جس کے لیے ہندوستان کے ہر عام وخاص نے اپنے جان و مال کی قربانیوں کا نذرانہ پیش کرکے باشعور اور وفادار باشندے کے فہرست میں اپنا نام نصب کیا۔ اور رہتی دنیا تک آنے والی نسلوں کو ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جانے والے انگریز حکمرا‌ں کے شکنجوں سے چھٹکارا دیکر ایک ٹھنڈی سانس لینے کا موقع عنایت فرمایا ہے۔ میں ان تمام باشعور جیالوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں رب کریم انہیں نعم البدل عطا فرمائے۔

آزادی ہند کے خاطر جہاں ایک طرف ملک و ملت کے ہر عام وخاص اور تمام ادیان و مذاہب کے متبعین نے اپنے پیاری جانوں کا نذرانہ نچھاور کیا تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں نے جو نمایاں کردار اور شہادت پیش کی ہے یقیناً وہ قابل ستائش ہے۔ ا‌ن کی قربانیاں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔

مسلمانوں نے آزادی کی خاطر طرح طرح کی صعوبتوں کا تحمل کیا انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی۔پھانسی کے پھندوں کو گلے کا طوق نہیں بلکہ ہار سمجھ کر مسکراتے ہوئے اس دارفانی کو خیرآباد کہا۔ مالٹا اور کالا پانی کے غضبناک روداد جب تاریخ کی کسی صفحات پر نظر پڑتی ہے تو بے اختیار آنکھیں اشکبار ہونے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور بے ساختہ ظالموں کے حق میں بددعا نکلتی ہے۔

الغرض ہر طرح کے مصائب وآلام برداشت کرنے کے باوجود بھی زندگی کی آخری سانس تک ان کے ثبات قدمی میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی۔ بلکہ فرحت و شادمانی کے ساتھ اپنے منزل کی طرف ہمہ وقت رواں دواں رہے۔

ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار اور شہادت اظہر من الشمس ہے ۔
مگر صد افسوس کہ تاریخ کے اس سنہرے باپ کو یا تو طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے۔ یا پھر بالکلیہ ترک کر دیا جاتا ہے. اورنگ زیب وہ پہلا شخص ہے جس نے 1686 میں سب سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان چھوڑنے کو کہا تھا۔ حصول آزادی کے تقریبا دو سو سال قبل لڑی جانے والی جنگ جس کو دنیا جنگ پلاسی کے نام سے یاد کرتی ہے جس میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ نے 1757 میں انگریزوں کو شکست فاش دی۔

میسور کے جرأت مند فرمانرواں نواب حیدر علی نے 1782 میں انگریزوں کو ہرانے میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔ حیدر علی کے باشعور اور غیور صاحبزادے ٹیپو سلطان نے 1791 میں انگریزوں کو شکست دی۔ اور اس لڑائی کے بعد 1799 میں لڑی جانے والی جنگ میں رب کریم کو کچھ اور منظور تھا چنانچہ اسی لڑائی میں ٹیپو سلطان نے جام شہادت نوش کیا۔

ٹیپو سلطان ہندوستان کے اس عظیم عبقری شخصیت کو کہا جاتا ہے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف توپ اور میزائل استعمال کیا۔ سلطان کا مشہور قول تھا” شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی صدسالہ زندگی سے بہتر ہے” سلطان نے اسے سچ کرکے دکھلایا۔ جنرل پارس کو جب ٹیپو کی شہادت کی خبر ملی تو وہ اچھلتا کودتا ہوا آیا۔ اور سلطان کی نعش پر کھڑے ہوکر یہ جملہ بار بار دہرایا” کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے”

1842 تا 1831 تک سید احمد شہید کی قیادت میں تحریک مجاہد نے انگریزوں کو شکست فاش دی ۔اور مغربی اور شمالی صوبوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ مگر یہ تحریک 1831 میں سید احمد شہید کے شہادت کے بعد کمزور ہوتی گئی۔ آخر میں مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر نے 1857 کی جنگ آزادی کی قیادت کی جو 31 مئ کو شروع ہونے والی تھی۔ مگر برطانوی فوج میں موجود ہندوستانی سپاہیوں نے 10 مئی کو ہی بغاوت کر دی۔ یہ وہی 1857 کی جنگ آزادی ہے جس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہادت کا اعلی مقام ملا۔ جس میں 50 ہزار صرف علماء کرام تھے۔ تاریخ کے صفحات پر آج بھی یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جی ٹی روڈ پر دہلی سے کلکتہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو۔

موپلا کے تحریک کے دوران ایک ہی جنگ میں ٣ ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔ 1905 میں ریشمی رومال کی تحریک استاذ الاساتذہ حضرت اقدس مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا عبداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں شروع کی گئی جس کا مقصد ملک کے تمام ریاستوں کو انگریزوں کے خلاف ایک پلیٹ فارم میں کھڑا کرنا تھا۔ اس جرم کے پاداش میں مولانا کو کالا پانی کی صعوبتوں کو برداشت کرنا پڑا۔ بالآخر مالٹا کے جیل میں ہزار صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے زندگی کے آخری سانس لی۔

مگر افسوس صد افسوس کہ اتنی قربانیاں اور جدوجہد وکد وکاوش کے باوجود آج مسلمانوں کو ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ علماء اور بے گناہ مسلمانوں کی مقدس اور پاکیزہ جماعت پر دہشت گردی کا الزام تھوپا جاتا ہے۔ اور مدارس کو دہشت گردی کے اڈے کہتے کہتے زبان تھکتی نہیں ہے۔ اور طرح طرح کی باتیں سنا کر ملک بدر کی دھمکیاں دے کر خوف و ہراس کا ماحول گرم کرنا بعض لوگ اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اور ہمارے مجاہدین آزادی کے ساتھ ایسا متعصبانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ان کا نام کسی فہرست میں تو بہت دور کی بات حاشیے میں بھی تذکرہ کرنا مکروہ سمجھا جاتا ہے۔ بس دو چار نام ہی بمشکل کہیں کہیں پڑھنے اور سننے کو مل جاتا ہے۔

یہ ہماری بے اعتنائی یا پھر بد قسمتی کہہ لیجئے کہ نا تو ہم تاریخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی پڑھنے کی فرصت ملتی ہے۔ جنہوں نے آزادی میں آٹے سے بال نکالنے کے برابر بھی رول ادا نہیں کیا ہے‌۔ آج وہ تاریخ کی صفحات میں مجاہدین اعظم گردانے جاتے ہیں۔ (گویا انگلی کٹا کے مقام شہادت) اور جنہوں نے اس وطن عزیز کے خاطر اپنی پوری زندگی جنگ و جدل کرتے ہوئے گزار دی ۔ آج تاریخ کے صفحات کے حاشیہ میں بھی تذکرہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

زندہ اور باضمیر قوموں کی ایک الگ شناخت ہوتی ہے۔ وہ اپنے اجداد کے کارناموں کو اپنے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرتے ہیں۔ ان سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات کو اپنا مشعل راہ سمجھی جاتی ہے۔

باتیں تو بہت ہیں مگر قصہ مختصر, اس پوری تحریر کا خلاصہ اور لب لباب یہی ہے کہ آزادی کے خاطر مسلمانوں نے جتنی قربانیاں دی ہے وہ یقیناً ہم سب کے لئے نعت غیر مترقبہ ہے‌۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود تاریخ کی ورق گردانی کریں ۔ اپنی نسلوں کو تاریخ سے آگاہ کریں‌۔ انھیں تعلیم وتعلم کی ترغیب دیں۔ تاکہ کسی کو ہماری طرف تعصب بھری نگاہ ڈالنے کی جرأت نہ ہو۔
والسلام