علامہ اقبال کا تصور شعر اور مولانا روم

اردو ادب کی تاریخ میں علامہ اقبال بیسویں صدی کے ایک کامیاب مفکر شاعر مانے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی فکری و فلسفی سوچ سے اردو شاعری کی دنیا کو ایک نئی روح بخشی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جن تصورات کو پیش کرکے مقامِ شہرت حاصل کیا ان میں تصور خودی، تصور زماں و مکاں، تصور مرد مومن، تصور عمل اور تصور عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ موضوع کی مناسبت کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہاں صرف اقبال کے تصور عشق پر بات کرنا چاہوں گا۔

اقبال کے نظام فکر و فن میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔کسی چیز کی محبت میں حد سے گزر جانے کو ”عشق“ کہتے ہیں۔ عشق سے مراد وہ آگ ہے جو عاشقوں کے دل اور سینے میں جلتی رہتی ہے اور خدا کے سوا جو کچھ ہے اسے جلا کر خاکستر کر دیتی ہے، بالکل یہی کیفیت ایک انسان کی دوسرے انسان کے لیے بھی پیدا ہو سکتی ہے جسے صوفیانہ اصطلاح میں عشق مجازی کہتے ہیں۔ اقبال کی شاعری میں جس عشق کی روداد ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے وہ عشق حقیقی ہے یعنی کہ اقبال نے اپنی پوری شاعری خدا اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار ہوکر کی ہے، جس کا اعتراف انہوں نے خود مثنوی ’اسرار خودی‘ میں اس طرح کیا ہے کہ ”میری شاعری کا کوئی حرف قرآن حکیم سے باہر نہیں اگر باہر ہو تو روز محشر مجھے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے اور میری شاعری وجود میں آنے سے پہلے ہی فنا ہو جائے۔“ اقبال اس منزل تک اپنی لگن اور کوشش سے پہنچے مگر انہیں یہ راستہ دکھانے والے بلاشبہ ان کے والدین تھے جن کی بے مثال پرورش کی بدولت انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کا بیٹا انجمن حمایت الاسلام کے جلسے میں نظم سنا رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مجمع زار و قطار رو رہا ہے۔ اقبال نے اپنی والدہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے:

تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا
گھر میرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا

بلاشبہ اقبال ایک عالمگیر اور بین الاقوامی شہرت کے مفکر شاعر ہیں لیکن ان کو اپنی اس حیثیت کو منوانے کے لئے دنیا کے بیشتر نامور شاعروں اور مفکروں کا نظر غائر سے مطالعہ کرنا پڑا ہوگا۔ چنانچہ ان کے کلام و تصانیف کے مطالعے سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے بے شمار صاحب نظر افراد سے اپنے ذوق کے مطابق استفادہ کیا ہے۔یہ ضرور ہے کہ ان کے استفادے کی نوعیت ہمیشہ ان کے عقیدۂ توحید و رسالت کی پابند رہی ہے اور علمائے شعر و حکمت کے وہی خیالات ان کی توجہ کا مرکز بنے ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے کسی نہ کسی صورت مماثل تھے۔

علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں جن مفکرین سے فیض اٹھایا ان میں ایک اہم نام مولانا جلال الدین رومی کا ہے۔ اقبال نے جابجا اپنے کلام میں رومی کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال کے لیے رومی کی حیثیت ایک راہبر، ایک مرشد اور ایک دینی رہنما کی ہے۔ وہ انہیں پیر رومی میں کہنے پر فخر کرتے ہیں۔ ایک جگہ اعتراف کیا ہے کہ اسی مرد مومن کے فیض سے علم کے سربستہ راز ان پر فاش ہوئے اور انہی کے کرم سے یہ خاک اکسیر بن گئی۔ یہ فارسی شعر ملاحظہ ہوں:

باز بر خوانم فیض پیر روم
دفتر سربستہ اسرار علوم
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد

جلال الدین رومی کا زمانہ تیرہویں صدی عیسوی کا تھا اور اسلام کی تاریخ میں یہ سب سے پر آشوب دور تھا۔ اسی زمانے میں بلخ کا ایک نامور فرزند جلال الدین رومی مسلمانوں کی بے حسی اور بے عملی کو زائل کرنے اور ان میں جہد عمل کی نئی روح پھونک دینے کے لیے ایک فارسی مثنوی لکھنے میں مشغول تھا۔ رومی کو نکلسن نے دنیا کا سب سے بڑا صوفی شاعر اور جامی نے ان کی مثنوی کو ”زبان فارسی میں قران“ بتایا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ مثنوی اسلامی تعلیمات کا شعری اظہار ہے۔ اس میں رومی نے اسلام کے نامور مجاہدانہ کارناموں کا ذکر کرکے اپنے عہد کے شکست خوردہ مسلمانوں کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا، پھر ان کے سامنے ایک ایسا ضابطہ حیات پیش کیا جس پر عمل کرکے مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر سکیں۔ دیوان شمس و تبریز یعنی دیوان رومی اور مثنوی معنی کے مطالعے سے رومی کے افکار احساسات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مولانا رومی کے نظام فکر میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا تصور عشق رسمی عشق کے تصور سے الگ ہے۔ ان کے یہاں عشق کا مفہوم ہے اپنی پسندیدہ شے کے حصول کی شدید خواہش اور اس کے لئے دیوانہ وار کوشش کرنا۔ اس عشق کے بغیر زندگی کی تکمیل ممکن نہیں نہ اس کے بغیر انسان ترقی کے مدارج طے کرکے کامل انسان بن سکتا ہے۔ علامہ اقبال بھی عشق کے لئے یہی نظریہ رکھتے ہیں۔ اقبال کے تصور عشق میں ایسے وصل کی کوئی جگہ نہیں جس میں عاشقوں کے انفرادی وجود کے مٹ جانے کا خطرہ ہو۔ ان کا تصور عشق اردو اور فارسی کے دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق محض اضطراری کیفیت، ہیجان جنسی، حواس باختہ ازخود رفتگی، یا محدود کو لامحدود کردینے کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں عشق ایک عالمگیر قوت حیات کا، جذبہ عملی سے سرشاری کا، حصول مقصد کے لئے بے پناہ لگن کا اور عزم و آرزو سے آراستہ جہد مسلسل کا نام ہے۔

اقبال اطاعت رسول کو ہی حقیقی عشق تصور کرتے تھے۔ان کے خیال میں عشق میں اطاعت نہ ہو تو وہ عشق نامکمل ہوتا ہے۔ عشق کی بدولت آدمی میں ایک حیرت و آزادی کا ایسا شدید اور طاقتور احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ساری مادی اور خارجی بندشیں اس کی نظر میں کمزور اور بے وقعت ہو جاتی ہیں۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولین ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دین بتکدۂ تصورات
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام

اقبال کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں ان کی اردو اور فارسی شاعری سے ہوتا ہے۔ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں مدح رسول اکرمﷺ کو ایک نئے انداز کے ساتھ اختیار کیا۔ فرماتے ہیں:

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں

بقول عبدالسلام ندوی:
”اقبال کی شاعری محبت وطن اور محبت قوم سے شروع ہوئی اور محبت رسول پر اس کا خاتمہ ہوا “
(کامل اقبال)

اقبال کی ابتدائی زندگی سے آخری لمحے تک اگر کوئی بات مستقل اور دائمی رہی تو وہ محبت رسول تھی۔ ان کے ملازم علی بخش بتاتے ہیں کہ اقبال بلا ناغہ قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اتنے آنسو بہاتے تھے کہ قرآن پاک کے اوراق بھیگ جاتے تھے اور روزانہ کتاب کو دھوپ میں سکھایا جاتا تھا۔ اگر کسی محفل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا تو اقبال اپنے آپ پر قابو نہ رکھ پاتے تھے، حالت غیر ہونے کی وجہ سے احباب اقبال کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کی عظمت کا خیال اقبال کی شاعری کا خاصہ رہا ہے۔ مسلمانوں کے عروج و زوال کے ہر زمانے پر اقبال کی نظر رہی اور اقبال مسلمانوں کے زوال کا سبب صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے روگردانی کو مانتے تھے۔ فرماتے ہیں:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

مولانا اسلم جیراجپوری کا بیان ہے کہ ”اقبال نے اپنے پیام کا سرچشمہ رسول کی ذات کو بنایا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و توقیر اقبال صرف اس لیے نہیں کرتے کہ وہ مسلمانوں کے پیغمبر ہیں بلکہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق اس لیے بھی ہے کہ وہ رسول کی ذات میں ایک کامل انسان جلوہ گر پاتے ہیں۔“
(جوہر اقبال: ص ١٩١)

اقبال کے نزدیک انفرادی اور اجتماعی زندگی کو مستحکم کرنے کا ایک بہترین اور مؤثر ذریعہ عشق رسول ہی ہے۔عشق ایک عطیہ الہی اور نعمت ازلی ہے۔ عشق ہی وہ جذبہ ہے جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بغیر کسی خوف ہراس کے آگ میں جانے سے نہ روکا۔

علامہ اقبال کا رومی کے ساتھ غیر معمولی تعلق تھا۔ انہوں نے اپنے کلام میں ایک دو نہیں، جگہ جگہ اس بات کا اظہار کیا ہے کہ رومی ان کے مرشد معنوی ہیں اور بصیرت اور بصارت کے ساری منزلیں انہوں نے مولانا رومی کی رہنمائی میں حاصل کی ہیں۔ رومی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے کہیں انہوں نے ان کے خیالات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، کہیں ان کے اشعار کی تضمین کی ہے، کہیں مصرعے پر مصرعے لگائے ہیں، کہیں ان کے اشعار کو انتساب کے طور پر اپنے مجموعہ کلام کے سرورق کی زینت بنایا ہے اور کہیں ان کی زمین میں شعر کہنے کو اپنے لئے فخر جانا ہے۔ اسرار و رموز سے لے کر ارمغان حجاز تک رومی سے علامہ اقبال کے اظہار عقیدت کی یہی صورت ہے اور کئی مقامات پر اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ حیات و کائنات کے رازوں سے انہیں مولانا روم نے آشنا کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف

اس طرح آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ علامہ اقبال نے مولانا جلال الدین رومی کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا اور ان کی محبت رسول سے فیض تلمذ حاصل کر کے اپنی شاعری کے ذریعے ایک کامیاب فلسفۂ حیات پیش کیا جس پر عمل پیرا ہوکر آج کا مسلمان ترقی و عروج کی راہوں کی سیر کر سکتا ہے۔

حوالاجات:

  • اقبال سب کے لیے۔۔۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری (باب الاسلام پرنٹنگ پریس کراچی) ١٩٧٨
  • اقبال شاعر و مفکر پروفیسر نورالحسن نقوی ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ٢٠١٥
  • اقبال فن اور فلسفہ پروفیسر نورالحسن نقوی ٢٠١٧
  • بانگ درا مؤلف پروفیسر یوسف سلیم چشتی فرید بک ڈپو پرائیوٹ لمیٹڈ ٢٠١٦
  • فکر اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ١٩٧٧
ساجد منیر ریسرچ اسکالر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری جموں و کشمیر