علامہ اقبال کا یوم وفات

آج – 21؍اپریل 1938

حکیم الامت، ترجمان حقیقت، مفکر اسلام اور بیسویں صدی کے عظیم شاعر، شاعرِ مشرق ”حضرتِ علاّمہ محمّد اقبالؒ صاحب “ کا یومِ وفات…21 اپریل پر ایک مضمون

نام محمّد اقبال، ڈاکٹر ،سر، تخلص اقبالؔ ۔ لقب ’’حکیم الامت‘‘، ’’ترجمان حقیقت‘‘، ’’مفکراسلام‘‘ اور ’’شاعر مشرق‘‘۔ ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ایف اے مرے کالج، سیالکوٹ سے کیا۔ عربی، فارسی ادب اور اسلامیات کی تعلیم مولوی میر حسن سے حاصل کی۔۱۸۹۵ء میں لاہور آگئے۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لینے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں فلسفے کے پروفیسر ہوگئے۔۱۹۰۵ء میں بیرسٹری کی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔ وہاں قانون کے ساتھ فلسفے کی تعلیم بھی جاری رکھی۔ہائیڈل برگ(میونخ) یونیورسٹی میں ’’ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا‘‘ پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔

۱۹۲۲ء میں ان کی اعلی قابلیت کے صلے میں ’’سر‘‘ کا خطاب ملا۔ ۱۹۲۷ء میں پنجاب کی مجلس مقننہ کے ممبر چنے گئے۔۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔اقبال نے شروع میں کچھ غزلیں ارشد گورگانی کو دکھائیں۔ *داغؔ* سے بذریعہ خط کتابت بھی تلمذ رہا۔ اقبال بیسویں صدی کے اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ان کے اردو مجموعہ ہائے کلام کے نام یہ ہیں:

’بانگِ دار‘‘، ’’بالِ جبریل‘‘، ’’ضربِ کلیم‘‘،’’ارمغانِ حجاز‘‘ (اردو اور فارسی کلام)۔ ’’کلیات اقبال‘‘ اردو میں بھی چھپ گئی ہے ۔ فارسی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’اسرار خودی‘‘، ’’رموز بے خودی‘‘، ’’پیام مشرق‘‘، ’’زبور عجم‘‘، ’’جاوید نامہ‘‘، ’’مسافر‘‘، ’’پس چہ باید کرد‘‘۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:270*

پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ

💐💐 *شاعرِ مشرق عظیم شاعر حضرت علاّمہ اقبال صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت 💐💐

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
آنکھ وقفِ دید تھی، لب مائلِ گفتار تھا
دل نہ تھا میرا، سراپا ذوقِ اِستفسار تھا
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بے خطر کود پڑا آتِش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●