غبار خاطر کی جمالیات

محی الدین احمد ابوالکلام آزاد اسم بہ مسمی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے جہاں صحافتی بلندیوں کو معیار دیا ہے، وہیں امت کی تازگی اور دانائی کے لئے ترجمان الکلام جیسی کتاب ترجمہ و تفسیر کے موضوع پر بالغ ذہن کو بخشی ہے۔ ایک طرف جہاں صحافتی میدان میں انہوں نے الہلال اور البلاغ جیسے شاہکار پرچے دیے تو وہیں دوسری طرف ترجمہ نگاری کے ذخیرے میں غبار خاطر جیسے منفرد نوعیت کے خطوط کے مجموعے سے اضافہ کیا، جو اپنی اشاعت اول سے ہی متنازعہ اور متنوع جہات کی جمالیات کا محور رہا ہے۔ جس میں خطوط کے لاحقے اور سابقے کا حسن بھی ہے اور خود نوشت و یادیاشت کی حسین وادیاں بھی۔ گوناگوں مضامین کی سنجیدگی بھی ہے اور خود کلامی کی خیال آفرینی بھی۔ منطق و فلسفہ کا استدلالی و مباحثی جمال بھی ہے اور روزنامچہ کی سرگرمیاں بھی، رپورتاژ کی افسانوی روداد بھی ہے اور انشائیہ کی بے تکلف ترنگ بھی، تاریخ کے سنہری واقعات بھی ہیں اور قید خانے کی گوشہ نشینی کا غور و فکر بھی، قوم و ملت ہجوم کی اجتماعی شور انگریزی بھی ہے اور عالمی ادب کے استعارات ، تشبیہات ، تمثیلات ، علامات اور پیکر و تجسیم کی حسین تصوراتی پرچھائیوں کے ساتھ مسرت و بصیرت کی قوس قزح بھی۔ تحقیقی و تنقیدی مزاج بھی ہے اور بین الاقوامی حالات کی آگہی بھی۔ غرض کہ کلام کی جتنی رنگینیاں گنائی جاسکتی ہیں ان تمام کی جمالیاتی کہکشاں کا مجموعہ ”غبار خاطر“ ہے اور کلام کے ان ہی اوصاف حمیدہ کے سبب محی الدین احمد، ابوالکلام ہیں۔ غبار خاطر کی ہمہ جہتی کو عبدالقوی دسنوی نے اپنے مضمون ”مطالعہ غبار خاطر“ میں اپنے مخصوص شعور و اسلوب میں یوں بیان کیا ہے:

” اس (غبار خاطر) نے قلب و نظر، عقل و شعور، گفتار و کردار اور تحریک و تقریر کے سب کو متاثر کیا۔ صاحب دل، صاحب نظر، صاحب قلم اور صاحب علم سبھوں نے اس سے فیض اٹھایا اور اس کی عظمت، اس کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت کا اعتراف کیا، لیکن ایک گروہ ایسے (نقطۂ نظر رکھنے والے) حضرات کا بھی رہا ہے جو خط نگاری میں اسے کوئی درجہ دینا تو الگ بات رہی، خطوط میں شمار کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کسی نے اس کتاب کو مضامین کا ذخیرہ کہا، کسی نے انشائیوں کا مجموعہ قرار دیا، کسی نے خود کلامی سے تعبیر کیا، کسی نے روزنامچہ کی خصوصیات اس میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور کسی نے اس میں خود نوشت کی خوبیاں پائیں۔“

لیکن اس کے باوجود غبار خاطرکو عبدالقوی دسنوی خطوط ہی کا مجموعہ قرار دیتے ہیں۔ راقم بھی مصنف کی تعین صنف پر اس معنی میں اتفاق کرتا ہے کہ انہوں نے ان تحریروں کو خطوط کا نام دے کر شائع کیا ہے لیکن راقم نے غبار خاطر میں دیگر اصناف کے حسین نقوش کو نشان زد کرکے غبار خاطر کی متنوع و جمالیات کا مطالعہ کیا ہے۔ عبد القوی دسنوی اس کتاب کو خطوط کا مجموعہ قرار دیتے ہیں اور اس طرح دلیل کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہیں:

” لیکن اس کتاب کو خطوط کا مجموعہ ہی کہوں گا صرف اس لیے نہیں کہ ان مکاتب میں خط کی بہت سی خوبیاں موجود ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ اس کتاب کے مصنف نے اسے خطوط کا مجموعہ قرار دیا ہے اور خط ہی سمجھ کر انہیں اس وقت اپنے عزیز دوست حبیب الرحمن خان شیروانی کو لکھے ہیں۔“

اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے میں بھی بنیادی طور پر اسے خطوط کا مجموعہ ہی مانتا ہوں لیکن میری کوشش یہ ہے کہ اس مجموعہ میں مکتوب نگاری کے علاوہ دیگر اصناف کلام کے نقوش کی موجودگی کے سبب جو رنگارنگ جمالیات اس مجموعے میں سمٹ آئی ہیں، ان پر کلام کروں تاکہ اس کتاب کی عظمت اور اہمیت خوب اجاگر ہو اور ہمہ جہتی کے حسن سے پردہ اٹھ سکے جن کے سبب اہل ذوق مزید مسرت اور بصیرت حاصل کر سکیں۔

ابوالکلام آزاد کی کتاب غبار خاطر میں خود نوشت یا خود نوشت خاکہ کے نقوش بھی ابھرتے ہیں۔ ذاتی خاکے میں انسان کی اپنی باطنی کیفیات، سیرت و کردار ، نجی حالات و کوائف اور حقیقی داخلی مطالعے کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس نوع کی تخلیقات کے کئی فائدے ہیں۔ ایک مفید پہلو ان کا یہ ہے کہ علم نفسیات کے لئے کار آمد مواد ہو سکتا ہے کیونکہ ان تخلیقات میں شخصیت کے متنوع مظاہر کے ساتھ فرد کے راز سر بستہ بھی اس کے طرز بیان کے ذریعے منکشف ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسی تخلیقات سے جہاں مصنف کا مقصد اپنی وضاحت کے ساتھ ہوتا ہے وہیں دوسری دوسروں کی رہنمائی میں یہ تخلیقات ممدو و معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ کسی بھی خودنوشت نگار کی زندگی کے سردوگرم حالات و کوائف کسی حد تک بے کم و کاست نظر آتے ہیں۔ ان کی زندگی کے واقعات ، یاد ستائش تجربات اور مشاہدات بے تکلف تحریروں کے ذریعے قاری کے سامنے آجاتے ہیں، ایسے ہی بعض مشاہدات، تجربات اور تاریخی و سیاسی واقعات کے ساتھ ساتھ قید خانے کے ماحول اور فضا غبار خاطر کی جمالیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ خط اور خود نوشت کے امتزاجی نقوش کی جمالیات پر مبنی چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

” گرفتاری سے پہلے آخری خط جو آپ کے نام لکھ سکتا تھا وہ 3 اگست 1942 کی صبح کا تھا۔ کلکتہ سے بمبئی جا رہا تھا، ریل میں خط لکھ کر رکھ لیا کہ بمبئی پہنچ کر اجمل خان صاحب کے حوالے کر دوں گا۔ وہ نقل رکھ کر آپ کو بھیج دیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انہوں نے خطوط کی نقول رکھنے پر اصرار کیا تھا اور میں نے یہ طریقہ منظور کرلیا تھا۔ لیکن ممبئی پہنچتے ہی کاموں کے ہجوم میں اس طرح کھو گیا کہ اجمل خان صاحب کو خط دینا بھول گیا۔ 19 اگست کی صبح کو جب مجھے گرفتار کرکے احمد نگر لے جارہے تھے تو بعض کاغذات رکھنے کے لئے راہ میں اٹاچی کیس کھولا اور یکایک وہ خط سامنے آ گیا۔ اب دنیا سے تمام علاقے منقطع ہو چکے تھے ممکن نہ تھا کہ کوئی خط ڈاک میں ڈالا جا سکے۔ میں نے انہیں اسے اٹاچی کیس سے نکال کر مسودات کی فائل میں رکھ دیا اور فائل کو صندوق میں بند کر دیا۔“
”….. دو بجے ہم احمد نگر پہنچے اور 15 منٹ کے بعد قلعہ کے اندر محبوس تھے۔ اب اس دنیا میں جو قلعہ سے باہر تھی اور اس دنیا میں جو قلعہ کے اندر تھی، برسوں کی ساخت حائل ہو گئی۔“
(غبار خاطر صفحہ 6-7)

ان اقتباسات کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری بیک وقت مکتوب نگاری اور خود نوشت نگاری کے عناصر کی فیضیابی کے ساتھ ساتھ قید خانے کے ماحول اور فضا کا تصوراتی تجسیم کے ذریعے احساس جمال کے لمحات سے گزر سکتا ہے، ایک دن کے بعد دوسرا دن کیسے وارد ہوتا ہے یہ خاصے کی چیز ہے۔ قید خانے میں اگرچہ لمحات خوف و ہراس میں گزرتے ہیں لیکن ابو کلام آزاد کے ذیل کے اقتباس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی سیاحتی مقام کے دلآویز مناظر یا سرگرمی کو بیان کر رہے ہیں۔ میں نے قید خانے کے حوالے سے جتنی تحریریں پڑھی ہیں ان میں خوف و ہراس یا تشویش و تنہائی کا احساس ستاتا ہے جبکہ ابو کلام آزاد کا قید خانے کا ماحول کچھ عجیب ہی لطف دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ حسن رخ لیلیٰ میں اور زیادہ چشم مجنوں میں ہے، حسن کا یہ تصور ابوالکلام آزاد کی تحریروں پر منطق ہوتا ہوا نظر آتا ہے، قید خانے کا دوسرا دن کس طرح نمودار ہوتا ہے ابو کلام آزاد کی تحریر میں ملاحظہ کریں:

” دوسرے دن یعنی دس اگست کو حسب معمول صبح تین بجے اٹھا، چائے کا سامان جو سفر میں ساتھ رہتا ہے، وہاں بھی سامان کے ساتھ آ گیا تھا، میں نے چائے دم دی، فنجان سامنے رکھا اور اپنے خیالات میں ڈوب گیا۔“
(غبار خاطر- 07)

ذیل کے اقتباس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک باکمال ادیب جب قید تنہائی یا عقوبت خانوں کی گہرائیوں میں جا نکلتا ہے تو وہ اپنی طبیعت کی بلندی اور اپنی شعور و آگہی کی عظمت کو بھی فراموش نہیں کرتا بلکہ وہ وہاں بھی ادبی جواہر پارے ہیں قوم و ملت کو دیتا ہے۔ابو کلام آزاد نہ صرف سیاسی موضوعات رکھتے تھے بلکہ عملی سیاست کے ساتھ ساتھ نظریہ ساز رہنما کی حیثیت رکھتے تھے، یہ مضمون ان کی سیاسی مہمات کی گنجائش نہیں رکھتا بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ عملی سیاست کے ساتھ ایک نظریہ ساز رہنما بھی تھے۔ خط کی بے تکلفی، خود نوشت کے عناصر سے لے کر تاریخی، سیاسی آگہی اور تلمیحاتی جمالیات تک، یہ سب کچھ غبار خاطر کے آنے والے اقتباسات کے خمیر میں دیکھے جا سکتے ہیں:

” اپریل 1945 میں میں جب احمد نگر سے بانکوڑا میں قید تبدیل کر دی گئی تو طبیعت کی آمادگیوں نے آخری جواب دے دیا، صرف بعض مصنفین کی تکمیل کا کام جاری رکھا جا سکا اور کسی تحریر و تسوید کے لیے طبیعت مستند نہ ہوئی۔ آخری مکتوب جو بعض سیاسی مسائل کی نسبت ایک عزیز کے نام قلمبند ہوا ہے ، 3 مارچ 1945ء کا ہے‌۔ اس مکتوب پر یہ داستان بے ستون و کوہکن ختم ہو جاتی ہے، اگرچہ زندگی کی داستان ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔“
(غبار خاطر-8)

”…… رہائی کے بعد جب کانگریس ورکنگ کمیٹی کی صدارت کے لیے 21 جون کو کلکتہ سے بمبئی آیا اسی مکان اور اسی کمرہ میں ٹھہرا جہاں تین برس پہلے اگست 1942 میں ٹھہرا تھا، تو یقین کیجئے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے 9 اگست اور اس کے بعد کا سارا ماجرا کل کی بات ہے، اور یہ پورا زمانہ ایک صبح شام سے زیادہ نہ تھا۔ حیران تھا کہ جو کچھ گزر چکا وہ خواب تھا یا جو کچھ گزر رہا ہے یہ خواب ہے۔“
(غبار خاطر-9)

ابو کلام آزاد نے اپنے خطوط میں جہاں خود نوشت، خود کلامی، تاریخی اور سیاسی عناصر اور مسائل کو شعوری طور پر جگہ دی ہے، وہیں انہوں نے اپنی ان تحریروں میں فارسی، عربی اور اردو شعروں، مصرعوں اور ضرب الامثلوں کے ذریعے ادبیت اور جمال پیدا کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔اردو شعرا میں سے خاص طور پر غالب کے اشعار اور تراکیب کے ذریعے اپنے اسلوب کو حسین بنایا ہے۔ انہوں نے شعوری طور پر ادبی اور شعری تراکیب میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرکے غبار خاطر کو دلآویز اور ادبی حسن سے مالا مال کیا ہے۔ مرزا غالب کے خیال و تراکیب سے کس قدر انہوں نے استفادہ کیا ہے اس کا اندازہ ذیل کے اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:

” دہلی اور لاہور میں انفلوئنزا کی شدت نے بہت ختنہ کر دیا تھا، ابھی تک اس کا اثر باقی ہے، سرگردانی کسی طرح کم ہونے پر نہیں آتی، حیران ہوں اس وبال دوش سے کیوں کر سبکدوش ہوں! دیکھئے ”وبالِ دوش“ کی ترکیب نے غالب کی یاد تازہ کردی:

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

29 جولائی کو اس وبال کے ساتھ کلکتہ واپس ہوا تھا۔ چار دن بھی نہیں گزرے کہ کل 2 اگست کو بمبئی کے لیے نکلنا پڑا۔ جو وبال ساتھ لایا تھا اب پھر اپنے ساتھ واپس لیے جا رہا ہوں؀

رو میں ہے رخش عمر، کہاں، دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں”
(غبار خاطر صفحہ 11)

ابو کلام آزاد نے اپنی تحریروں میں ادبی حسن اور اپنے خیالات و نظریات کو مؤثر ترین بنانے کے لیے لفظوں کے ذریعے ماحول کی تصویریں بنائی ہیں۔ رنگوں سے تصویر بنانے والے مصور سے کہیں زیادہ ایک ادیب اپنے لفظوں کے ذریعے تصویر بناتا ہے۔مصور رنگ کی تصاویر کا ایک ہی رخ سامنے آتا ہے اور اس کی بنائی ہوئی تصویر جامد ہوتی ہے جبکہ ادیب کی لفظی تصویر ایک تو متحرک ہوتی ہے اور دوسرا اس کے تصوراتی مشاہدے سے تصویریں اور ماحول اس سے محو گفتگو بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اچھے ادیب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کیفیات اور خیالات کو بھی تجسیمی پیکر دے کر خیالات و کیفیات کو انسانی یا جانداروں کے تلازمے دے دیتا ہے۔ اس تخلیقی عمل کو مختلف اصطلاحات کا نام دیا گیا ہے مثلاً پیکرتراشی، مرقع نگاری، محاکات، تجسیم، تمثیل یا انگریزی میں allegory۔

ابوالکلام آزاد نے اپنی شاہکار کتاب غبار خاطر کی تحریروں میں ان عناصر کے ذریعے کمال ہنرمندی سے جمالیات پیدا کی ہیں۔ کشمیر ڈل جھیل کے ہوس بورڈ میں قیام کیا اور اپنے دوست حبیب الرحمن شیروانی کو یاد کرتے ہوئے وہاں کے مناظر کو ایسی لفظی تجسیم دی ہے کہ وہاں کے ماحول و فضا اور مناظر کو گویا قاری خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مسرت حاصل کر رہا ہے۔ خط کے لاحقے کے ساتھ چند اقتباس ملاحظہ کریں:

”صدیق مکرم
وہی صبح چار بجے کا جانفزا وقت ہے۔ ہاؤس بوٹ میں مقیم ہوں۔ دہنی طرف جھیل کی وسعت شالامار اور نشاط باغ تک پھیلی ہوئی ہے۔ بائیں طرف نسیم باغ کے چناروں کی قطاریں دور تک چلی گئی ہیں۔“
(غبار خاطر -6)

ایک دوسرے مقام پر دیکھیں:
” میں نے چائے دم دی، فنجان سامنے رکھا اور اپنے خیالات میں ڈوب گیا۔ حالات مختلف میدانوں میں بھٹکنے لگے تھے۔“
(ایضاً -7)

انشائیہ بھی ادب کی ایک اہم صنف ہے جس میں مصنف اپنی فکر کا نچوڑ بے تکلفی کے ساتھ تحریر کرتا ہے یا اپنے منفرد خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ غبار خاطر کو بعض ادبا نے انشائیہ کا مجموعہ کہا ہے، یہ بات بھی اپنی جگہ پر کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ انشائیہ کے بے تکلفی، دماغی ترنگ اور فکر انگیز تحریروں کی جمالیات بھی غبار خاطر میں اپنی اور متوجہ کرتی ہے۔ شیخ آدم کے مطابق انشائیہ ایک ایسی جامع اور فکر انگیز تحریر ہوتی ہے جس میں مصنف بے تکلفی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔“

انشائیہ نگار اپنے مخصوص تاثرات محسوسات اور تجربات کو ایسی مہم کے ساتھ لفظیات میں ڈھالتا ہے کہ اس کی تخلیق اس طرح ایک ”کل“ بن جاتی ہے کہ اپنا ایک منفرد اور مجموعی تاثر چھوڑ جاتی ہے۔ یہی وہ وصف ہے جو انشائیہ کو ادب میں کھینچ لاتا ہے۔ غبار خاطر کی کی تحریروں میں انشائیے کے زیادہ تر نقوش ابھرتے ہیں۔ انہیں تحریروں میں ایک تحریر ”حکایت زاغ و بلبل “ ہے اور دوسری تحریر ”چڑیا چڑے کی کہانی“ ہے۔ ان تحریروں میں خطوط نگاری کے لاحقے اور سابقے ضرور ہیں لیکن یہ اپنی حقیقت میں انشائیے ہیں بلکہ ان تحریروں میں خط اور انشائیہ کے ساتھ ساتھ خاکہ نگاری کے نقوش بھی ابھرتے ہیں اس طرح ان تحریروں میں ان تینوں اصناف کی جمالیات کا احساس بھی کیا جا سکتا ہے۔ دو چند مثالیں ملاحظہ ہوں؛ انشائیہ کے ساتھ خاکہ اور مزاح کا امتزاج اس اقتباس میں دیکھیں:

” ایک دن صبح چائے پیتے ہوئے نہیں معلوم سید محمود صاحب کو کیا سوجھی، ایک طشتری میں تھوڑی سی شکر لے کر نکلے اور صحن میں جابجا کچھ ڈھونڈنے لگے۔۔۔۔۔۔چھپرہ میں ایک مرتبہ انہوں نے مرغیاں پالی تھیں۔ دانہ ہاتھ میں لے کر آ، آ کرتے تو ہر طرف سے دوڑتی ہوئی چلی آتیں۔ یہی نسخہ چڑیوں پر بھی آزمانا چاہا، لیکن چند دنوں کے بعد تھک کر بیٹھ رہے۔ کہنے لگے عجیب معاملہ ہے دانہ دکھا دکھا کر جتنا پاس جاتا ہوں اتنی ہی تیزی سے بھاگنے لگتی ہیں گویا دانوں کی پیشکش بھی ایک جرم ہوا!
خدایا جذبہ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے!
کہ جتنا کھینچتا ہوں اور کھینچتا جائے ہے مجھ سے“
(غبار خاطر -189-190)
”……….. کووں کی دراز دستیوں سے جو کچھ بچتا، ان کوتاہ دستوں کی کامجوئیوں کا کھاجا بن جاتا۔ پہلے روٹی کے ٹکڑوں پر منہ مارئیں، پھر فوراً گردن اٹھا لیتیں، ٹکڑا چپاتی جائیں، اور سر ہلا ہلا کر کچھ اشارے بھی کرتی جائیں، گویا محمود صاحب کو دعوت دیتے ہوئے بطریق حسن طلب یہ بھی کہتی جاتی ہیں کہ
گر چہ خوب است ولیکن قدرے بہتر ازیں “
(غبار خاطر -191-192)
یہ ہیں محی الدین احمد جو کلام کے مختلف پیرایوں پر گرفت رکھتے ہیں، جس کے سبب وہ ابوکلام ہیں۔ انہوں نے غبار خاطر کی تحریروں میں مکتوب نگاری، خودکلامی، خودنوشت، رپورتاژ، انشائیہ اور خاکے سے لے کر تاریخ، سیاسیات، مذہبیات تک ادب اور علوم کے مختلف رنگوں سے جمالیاتی کہکشاں سجائی ہے۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک
(اسسٹنٹ پروفیسر )