مرزا غالب کی مکتوب نگاری کا تنقیدی جائزہ

غالب کی حالات زندگی

تاریخ ولادت

مرزا اسد اللہ خان غالب 7رجب۱۲۱۲ کو یعنی اواخر 1797ء میں اکبر آباد (اگرہ) میں عبداللہ بیگ کے گھر پیدا ہوئے۔ عرفیت مرزا نوشہ طے پائ بہت بعد کوئی یعنی 4 جون ۱۸۰۰ء کو آخری مغل بادشاہ نے نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کے خطابات سے نوازا تو پورا نام اس طرح ہوگیا۔ نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ اسد اللہ بیگ خان عرف مرزا نوشہ۔

تعلیم و تربیت

مرزا غالب کے زمانے کا دستور تھا کہ امیر زیادہ گھر پر ہی تعلیم پاتے تھے۔مرزا نوشہ کی تعلیم کا آغاز بھی اسی طرح گھر پر ہی ہوا ۔شیخ معظم ایک معلم اگرے میں اتالیقی کے لیے شہرت رکھتے تھے انہیں اس کام پر مامور کیا گیا ۔لیکن لڑکے کا دل کھیل کود، چوسر، شطرنج جیسے تفریحی مشاغل پر مائل تھا ۔تیرہ برس کی عمر میں شادی ہوگئی اور تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ غالب کا اپنا بیان ہے کہ شادی کی اگلےسال جب ان کی عمر 14 سال کی تھی فارسی عربی کا عا لم ملا عبدالصمد ہر مرد آگرے آیا ۔غالب نے اس سے عربی فارسی سیکھیں اور ان دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کر لی ہے سب افسانہ طرازی ہے ملا عبدالصمد ہر مزد نام کے کسی عالم کا ہندوستان اور کسی طرح ثابت نہیں ہوتا ۔غالب نے خود ایک خط میں لکھا ہے کہ بے استادا نہ کہلاوں اس لئے میں نے ملا عبدالصمد نام کا ایک عالم تراش لیا ۔اصلیت یہ ہے کہ غالب نے جو کچھ سیکھا اپنی کوشش سے سیکھا بہت ذہین تھے وہ جو کتاب ایک بار دیکھ لیں اس کے مطالب ذہن نشین ہو گئے ایک خط میں غالب نے اپنی اس صلاحیت کا بھی ذکر کیا ہے

شادی

تیرہ برس کی عمر تھی کہ عمرو بیگم سے شادی ہوگی جن کی عمر اس وقت گیارہ برس تھی یہ نواب الہی بخش معروف کی بیٹی تھی معروف نصیر دہلوی کے شاگرد تھے۔ غالب کی بات تحریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بیوی سے ان کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے اس سلسلے میں اکثر اس خط کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں غالب نے اپنی بیوی کو پھانسی کا پھندا کہا ہے اور لکھا ہے کہ نہ داند نہ ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک ذریعہ انسان تھے بہت سی باتیں ہنسی دل لگی میں لکھی ہے انہیں سچ مانگنا غلط ہوگا کہ یہ تو سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں آپس میں محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے بارے میں فکر مند رہتے تھے ۔عمرو بیگم سے غالب کے سات اولادیں ہوئیں مگر سب کی شیرخواری کے زمانے میں موت ہو گئی پندرہ مہینے سے زیادہ کوئی نہ جیا آخر انہوں نے عمرہ بیگم کے بھانجے مرزا زین العابدین خاں عارف کو بیٹا بنا لیا دونوں ان سے بہت محبت کرتے تھے وہ جوانی میں مر گئے تو غالب نے ان کا بہت پر درد مرثیہ کہا ۔اس کے چند شعر یہاں درج کیے جاتے ہیں؀

لازم تھا کہ دیکھو کہ میرا رستا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

عارف کے دو بیٹے تھے باقر علی خان اور حسین علی خان ۔عارف کی وفات کے بعد غالب اور عمرہ بیگم نے حسین علی خان کو گود لے لیا۔ کچھ دن بعد باقر علی خان بھی یہیں آکر رہنے لگے۔ ان دنوں سے غالب اور ان کی بیگم کو بہت پیار تھا غالب کے خطوط میں ان بچوں کا ذکر موجود ہے۔شوہر کی وفات کے وقت عمر بیگم خیات تھی ایک روایت کے مطابق شوہر کے چھ مہینے بعد اور دوسری روایت کے مطابق پانچ برس بعد وفات پائی۔

دہلی میں اقامت

غالب کا مولد یعنی جائے پیدائش تو اکبرآباد تھی اور یہ شہر انہیں عزیز بھی بہت تھا ہمیشہ محبت سے اسے یاد کرتے تھے لیکن جس طرح کی زندگی گزارنے کے وہ آرزو مند تھے اس کے لیے دہلی ہی موضوع تھی اخر کار ان کی نظر انتخاب اسی جگہ پر پڑی۔دہلی میں آمدورفت کا سلسلہ سات برس کی عمر سے شروع ہو گیا تھا لیکن مستعل رہائش کی صورت اس کے دس بارہ سال باہر نکل سکیں ۔جس کی تمنا رکھتے تھے وہ دہلی میں بھی میسر نہ آیا۔ذاتی مکان زندگی بھر میں سر نہاں یا کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہیں دو ایک بار ایسے مکان بھی ملے جن کا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔مرتے دم تک دلی میں ہیں کیا ہو رہا ہے یہی شہرت پائی ہیں طرح طرح کی ماں مصیتیں برداشت کیں اور یہی سپردخاک کیے گئے۔

شاعری کا آغاز

شعر و شاعری کی طبیعت کو خاص مناسبت تھی کم عمری سے ہی اردو فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہنے لگے تھے اردو شعر گوئی کا آغاز پہلے ہوا اور انہوں نے اسد تخلص اختیار کیا ۔پھر فارسی میں شعر کہنے لگے تو غالب تخلص اپنایا آگے چل کر اردو میں بھی اکثر یہی تخلص استعمال کرتے تھے ۔لیکن ضرورت شعری کی بنا پر بعض غزلوں میں اسد تخلص بھی جگہ پاتا تھا ۔کہیں تو پورا نام بھی رکھ دیا ہے جیسے :مارا زمانے نے اسدللہ خاں تمہیں۔ ایک بار ایسا واقعہ پیش آیا کہ اسد تخلص کو بالکل ترک کر دیا گیا ۔غالب سے پہلے ایک شاعر میر امانی اسد گذرے تھے ان کا انداز بالکل مختلف تھا کسی نے غالب کے سامنے یہ مطلع پڑھا اور خوب داد دی؀

اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
میرے شیر شاباش رحمت خدا کی

غالب نے فرمایا کہ یہ مطلع میرا ہو تو مجھ پر لعنت ۔ایک شاگرد منشی شیو نرائن آرام نے میر امانی اسد کے ایک شیر کو غالب کا سمجھ لیا اور لکھا کہ اپنی وہ غزل جس کا ایک مصرع ہے “اسد اور لینے کے دینے پر پڑے ہیں “مجھے بھیج دیجئے انہیں جواب دیا کہ اس غریب کو تو میں کیا کہوں لیکن یہ غزل میری ہو تو مجھ پر ہزار لعنت میر امانی اسد کے شیروں کو غالب سے منسوب کیا جانے لگا تھا ۔اس لیے انھوں نے یہ تخلص بالکل ترک کر دیا۔غالب نے فنی شعر گوئی میں کسی کو اپنا استاد نہیں بنایا نہ اس سلسلے میں کسی سے صلاح مشورہ کیا ان کے اپنے شعری ذوق اور خداداد شعری صلاحیت نے رہنمائی کی۔

پنشن کا مقدّمہ

غالب کے خطوط میں پنشن کے مقدمے کا جابجا ذکر ہے اور ان کی زندگی پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا۔ غالب کے والد عبداللہ بیگ خان کے انتقال کے بعد چاچا نصراللہ بیگ خان نے غالب کی کفالت کی۔یہ لارڈلیک کی ماتحتی میں چاسو سواروں کے رسالدار تھے ۔ایک معقول جاگیر ملی ہوئی تھی اچانک ان کا انتقال ہوگیا تو جاگیر واپس لے کر ان کے متعلقین کے لیے دس ہزار روپے کی رقم مقرر کر دی گئی ۔فروز پور جھرکہ کے نواب احمد بخش خان جاگیردار تھے اور 25 ہزار روپے باطور ما گزاری سرکار کو ادا کرتے تھے۔انہیں ہدایت دی گئی کہ اس میں سے دس ہزار روپے سال نصراللہ بیگ خاں کے وارثوں کو دیے جائیں ۔اس کا غالب کو علم تھا نواب احمد بخش میں کسی طرح دوسرا حکم نامہ حاصل کرلیا جس میں کہا گیا تھا کے دس ہزار کے بجائے پانچ ہزار روپے دیے جائیں ان پانچ ہزار کی تقسیم کے بارے میں حکم دیا گیا کہ پندرہ سو روپے سال مرزا نوشا یعنی غالب اور ان کے بھائی مرزا یوسف کو اور 2000 روپے سال خواجہ حاجی کو دے دیے جائیں خواجہ حاجی نصراللہ بیگ کا رشتہ دار نہیں تھا لیکن جب ان کا رسالہ برطرف ہو گیا تھا تو پچاس سوار باقی رہ گئے تھے اور ان کا افسر خواجہ حاجی تھا اس لئے اس کی تنخواہ بھی مقرر ہوئی۔

غالب دوسریے حکمنامے سے بے خبر تھے لہذا وہ متواتر سرکار انگریزی میں یہ درخواست پیش کرتے رہے کہ غالب احمدبخش دس ہزار کے بجائے نصراللہ بیگ کے وارثوں کو صرف تین ہزار روپے دے رہا ہے ۔اور دو ہزار خواجہ حاجی کو غلط دیے جا رہے ہیں کیونکہ اس کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔ عالم نے اس سلسلے میں تگ و دو کی کلکتے کا سفر کیا انگریز افسروں سے ملاقاتیں کیں بار سوخ حکام کی سفارشیں بہم پہنچائیں ۔لیکن کوئی کوشش کارگر نہ ہوی ان کے خلاف فیصلہ ہوگیا اپیل کی گئی وہ بھی رد ہوگی۔

نواب شمس الدین خان فیروز پور جھرکا کے رئیس مقرر ہوگئے تھے کیونکہ نواب احمد بخش خان نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔کچھ عرصہ بعد ایک انگریز افسر ولیم فیروز کا قتل ہو گیا نواب شمس الدین خان ملوث پائے گے۔ انہیں پھانسی دی گئی اور انکی جاگیر ضبط ہوگی ۔اب غالب کو براہ راست سرکار انگریزی کے خزانے سے پینشن ملنے لگی اسی اثنا میں غدر برپا ہو گیا ۔غالب گوشہ نشین ہوگئے مگر اس الزام سے نہ بچ سکے کہ باغیوں کے ہمدرد تھے اور باغیوں کی خوشامد کرتے تھے پنشن بند ہوگئی اور خلعت ودربار بھی موقوف ہو گیا اس کا پینشن بند ہونے سے زیادہ غم تھا کیونکہ یہ نشان امارت تھا۔

انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اگر کامیابی ہوئی اور چار می ۱۸۴۰ء کو تین سال کی رکی ہوئی رقم ایک ساتھ مل گئی قرض ادا ہو گیا عزت بحال ہوگئی درباروخلعت کو وہ پینشن سے زیادہ اہم خیال کرتے تھے اس کی کوشش جاری رہی دو سال بعد اس مہم میں بھی کامیاب ہوے۔

آمدنی کے دیگر ذرائع

غالب کے ذرائع آمدنی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک تو وہ جو ماہانہ یا سالانہ تھے دوسرے وہ جو بطور انعام اور امداد یا نزر وقتا فوقتا کہیں سے مل جاتے تھے پینشن کے ملنے بند ہونے پھر سے جاری ہونے کی تفصیل اوپر پیش کی جاچکی ہیں یہ تصدیق نہ ہو سکی کہ غالب کی وفات کے بعد پنشن کا کوئی حصہ گزارا کے طور پر ان کی بیگم کے نام جاری ہوا یا نہیں ۔اس کے علاوہ آمدنی کے دیگر ذرائع کا اختصار کے ساتھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

۱) قلعہ معلی سے غالب کا باقاعدہ تعلق تھا اٹھارہ سو پچاسویں میں بادشاہ دہلی نے انہیں خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا تھا پچاس روپے ماہانہ اس کام کی تنخواہ مقرر ہوئی تھی اور خلعت کے علاوہ نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔حالات فراہم کرنے کا کام حکیم احسن اللہ خان کے سپرد تھا غالب ان حالات کو ضبط تحریر میں لے آتے تھے ۔اس کتاب کا نام” مہر نیم روز” تھا۔اس کا حصہ اول 1894 عیسوی میں مکمل ہوا ۔اس میں ابتدا سے لیکر ہمایوں کی وفات تک کے حالات درج تھے۔دوسرا حصہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے سب مکمل نہ ہو سکا اس سے پہلے بھی غالب کا قلعے میں آنا جانا تھا مداح گوئی کے عوض خلعت و انعام پاچکے تھے۔

۲) نواب صدیق علی خان والی رام پور سے بھی غالب کی گہرے مراسم تھے نوعمری کے زمانے میں وہ خصوصی تعلیم کے لیے دہلی آئے تو غالب سے فارسی پڑی شاعری میں ان کے شاگرد ہوئے۔ناظم تخلص استاد ہی کا دیا ہوا تھا زندگی کی آخری دس برسوں میں ریاست رام پور کے زور پر ماہانہ ملتا تھا ۔اس مقام پر رقم کی علاوہ بھی وہاں سے کچھ نہ کچھ مدد ملتی رہتی تھی غالب نے دوبارہ رامپور میں قیام بھی کیا دوران قیام سو روپے ماہانہ طعام کی مدد میں دیا جاتا تھا۔

۳) سلطنت اودھ سے بھی غالب کا تعلق رہا نواب واجد علی شاہ نے مدد گوہی کے صلے میں پانچ سو روپے سالانہ مقرر کیا ۔مگر ان کی سلطنت دو سال بعد ختم ہو گئی۔نصیر الدین حیدر کی مدد مدح میں قصیدہ کہہ کر بھیجا غالب کے بیان کے مطابق اس پر پانچ ہزار روپے بطور انعام عطا ہوئے جو درمیان کے لوگ کھا گئے۔

٤) غالب ہر ریاست حیدرآباد میں بھی رسوخ پیدا کرنے کی کوشش کی شمس عمرہ اور سالار جنگ اول کی مدح میں قصیدہ کہ یہ سراغ نہیں ملتا کہ ان قصیدو ں کا صلہ انہیں ملا یا نہیں۔

۵) ۔والی ٹونک کی مدخ میں دو قصیدے کہیں اور صلہ پایا۔
۶) ۔دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئ یہ شعر دیوان غالب میں موجود ہے۔

تجمل حسین خان فرخ آباد کے نواب تھے غالب کے ایسے اچھے مراسم تھے اس ریاست وقت فوٹون غالب کو کچھ نہ کچھ چلتا رہا۔

۷) ریاست الور راجاوں کی طرف سے بھی غالب کی قدردانی فری لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی توقع سے کم تھا۔

۸)جے پور گوالیار پٹیالہ سے بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہا یہ ذکر تو تھا حکومتوں ریاستوں کا بہت سے ماصاحب ریس بھی ان کے قدر دان تھے اور خسب حثیت کچھ نہ کچھ نظر کرتے رہتے تھے۔

اسیری و رہائی

غلط رنگ دے چوتھی اور کھیل سے زیادہ دلچسپ بنانے کے لیے روپے لگا کر کھیلتے تھے کسی کو جوا کہتے ہیں۔کوتوال شہر سے ان کی مخالفت کی تھی اس نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور قمار بازی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔مجسٹریٹ نے چھ ماہ کی سزا سنائی ججی میں اپیل کی گئی جو خارج ہو گئی۔حکومت سے مدد کی درخواست کی ہگی وہ بی نہ منظور ہوگئی۔بادشاہ وقت نے سفارش کی مگر وہ بھی قبول نہ ہوئی آخر تین ماہ بعد مجسٹریٹ نے خود ہ حکام بالا کو رہای کی رپورٹ بھیج دی۔

اس اسیری سے غالب بہت دلبرداشتہ تھے کیونکہ پورے شہر میں بلکہ باہر بھی خاصی رسوائی ہوئی تھی۔موت کے آرزو مند تھے اور ملک میں رہنا ناگوار تھا تفتہ کے نام ایک خط میں لکھا ہے۔
“سرکار انگریزی میں بڑاپا رکھتا تھا ریس میں گنا جاتا تھا اور پورا خلعت پاتا تھا۔ اور اب بد نام ہو گیا ہوں اور ایک بہت بڑا دھبہ لگ گیا ہے۔”

۱۸۵۷ء کی قیامت

انگریزوں نے استہ استہ سارے ملک میں قدم جمالیہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ دہلی کے لال قلعہ میں تخت شاہی پر بیٹھے ضرور تھےمگر بالکل بے بس اور بے اختیار آخرکار ان کی برائے نام حکومت کے خاتمے کا زمانہ بھی آ پہنچا۔اٹھارہ سو ستاون میں فوجیوں نے انگریز افسروں کے خلاف بغاوت کر دی ۔رعایا کا بڑا حصہ غیر منظم طور پر اس میں شریک ہوگیا۔بہت کشت و خون ہوا زبردست بربادی ہوئی آخر کار بغاوت ناکام ہوئی شہزادے قتل کر دیے گئے بادشاہ کو قید کرکے رنگون بھیج دیا گیا ہزاروں کی جائیداد ضبط ہوئی ہزارہا لوگوں نے سزائے موت پائی غالب دہلی میں گوشہ نشین تھے مگر حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے اس زمانے میں ان کے گھر کا سامان لوٹا ان کے بھائی یوسف کی موت ہوئی تو ان کی تدفین بھی دشوار ہوئی غرض جمانے میں غالب نے بہت سی مصیبتیں جھیلیں۔

آزادی کی اس پہلی جنگ کو جس سے آگے چل کر غدر کا نام دیا گیا غالب نے رست خیز بے جا کہا ہے۔قیامت تو یہ بھی شک تھی لیکن غالب نے اس سے نامناسب قرار دیا ہے اس زمانے کے جتنے خیال آتا نہیں دستیاب ہوئے وہ ایک فارسی کتاب دستنبو میں محفوظ کر دیے ہیںخطوط میں بھی بہت کچھ لکھا دیا ہے لیکن احتیاط سے کام لیا ہے یہ خط میں صاف صاف لکھ دیا کہ تفصیل لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں اس کے باوجود ان کی تحریروں میں بہت سی اہم معلومات محفوظ ہوگئی ہے دستنبو تو ایک خاص مقصد کے لئے لکھی گئی تھی اسے وہ انگریز حکام کو خوش کرنے کا کام لینا چاہتے تھے لیکن ختم میں جا بجا حاکموں کے ظلم و زیادتی کا ذکر موجود ہے۔غالب لکھتے ہیں کہ چار ماہ اور چار دن دہلی پر باغیوں کا قبضہ رہا اس دوران باغیوں نے شہر کو برباد کیا جس پر انگریزوں کی مخزی کاشف ہوا اسے قتل کردیا اور اس کا گھر لوٹ لیا جیل خانوں کے دروازے توڑ کر قیدیوں کو رہا کر دیا آخر باغیوں کو شکست ہوئی اور انگریز شہر پر قابض ہو گئے یہاں سے ان کے مظالم کی داستان شروع ہوتی ہے کوئی واضح قانون باقی نہ رہا اسے چاہا پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا کہ بے گناہوں کی جاگیریں ضبط کر لی گئی۔دل کے رہنے والے شہر چھوڑ کر جانے لگے جو رہ گئے انہیں پانی تک میسر نہ تھا رزق نہیں آرہا تھا زیادہ غم ان دوستوں کے مرنے کا تھا جن میں کچھ انگریز تھے کچھ ہندوستانی ایک خط میں لکھتے ہیں۔

“انگریز کی قوم میں سے جوان رو سیاہ کالوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ان میں کوئی میرا امید کا تھا ہر کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد ہندوستانیوں میں کچھ عزیز کچھ دوست کچھ اگر کچھ معشوق تو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے۔ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزو کا ماتم دار ہوں اس کی زیست کیوں نہ دشوار ہو پائے اتنے یار مرے کے اب جو میں مروں گا تو میرا کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا”
کہیں خطوں میں لکھا ہے کہ مسلمان خاص طور پر برباد ہوگئے تھے ہندوں کی ڈٹورھیو‌ں پر پرچم لہراتے تھے۔مسلمان کے گھروں میں خاک اڑتی تھی جو لوگ واپس آ کر اپنے گھروں میں آباد ہونا چاہتے تھے انہیں ٹکٹ خریدنے پڑتے تھے۔

مالی مشکلات

غالب عیش و آرام اور شان و شوکت کی زندگی گزارنے کی آرزو رکھتے تھے لیکن ساری زندگی مالی مشکلات میں گھرے رہے۔شروع سے قرض لینے کی عادی ہو گئی تھی اس سود ادا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے سود پر رقم قرض دینے کو مہاجن موجود تھے کہیں سے رقم ملنے کی امید ہوئی اور انہوں نے قرض لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری زندگی پنپ نہیں سکے۔ کیلے سے جو ماحول تنخواہ ملتی تھی اسے چھ ماہی کر دیا گیا تو ایک قطعے میں اس کی شکایت کی؀

میری تنخواہ جو مقرر ہے
اس کے ملنے کا ہے عجب ہنجا

رسم ہے مردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار

مجھ کو دیکھو تو ہوں بہ قید حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دو بار ار

میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تانہ ںو مجھ کو زندگی دشوار

تفتہ کے نام خط سے غالب کی تنگ دستی کا اندازہ ہوتا ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ قرض لینے کے کیسے عادی ہو گئے تھے۔
“تمہارا دعاگو اور امور میں عالی ہے یعنی مختاج ہوں سو دو سو میں میری پیاس نہیں بجھتی۔تمہاری خدمت پرسوں خزار آفرین جےپور سے اگر دو ہزار ہاتھ آجاتے تو میرا قرض اور مل جاتا یہ 500 تو بھائی تمہاری جان کی قسم متفرقات میں جا کر سو ڈیڑھ سو رہیں گے تو میرے صرف میں آئیں گے مہاجنوں کا سودی قرض ہے وہ بقدر پندرہ سولہ سے کے باقی رہے گا”

ایام غدر میں خالت زیادہ سقیم تھی سامان لٹ گیا تھا کہیں سے کچھ ملنے کی امید نہ تھی اس زمانے میں پیٹ بھرنے کے لیے تن کے کپڑے تک بیچنے پڑے ایک خط میں لکھتے ہیں۔ “لوگ روٹی کھاتے ہیں میں کپڑا کھاتا ہوں یعنی کپڑا بھیج کر گزارہ کرتا ہوں ایک خط میں پنجابی کہاوت کا استعمال کرتے ہیں کہ” پیٹ پڑے روٹیاں تو سبھی گلاں موٹیاں” ان کے اپنے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماہانہ خرچ کسی طرح تین سو روپے سے کم نہ تھا اور آمدنی خود انکے اشعار شاد کے مطابق ایک سو باسٹھ روپے انعام اٹھانے تھی گویا 140 روپے ماہوار کا خسارہ تھا ایک جگہ لکھتے ہیں۔

“جانتے ہو علی کا بندہ ہوں اس کی قسم کبھی جھوٹی نہیں کھاتا اس وقت کلو کے پاس ایک روپیہ ساتھ اور نے باقی ہیں بعد میں کے نہ کہیں سے قرض ملنے کی امید ہیں نہ کوئی جنس رہن اور بیع کے قابل”
یہ تھی وہ مالی مشکلات جن سے غالب کو ساری زندگی نبردآزما ہونا پڑا لیکن انہوں نے ان تمام خیالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
علالت:-غالب کی عمر کا آخری حصہ تکلیف دہ بیماریوں میں گزرا طرح طرح کے امراض نے انہیں گھیر لیا تھا صحت کی خرابی نے ایسا عاجز کر دیا تھا کہ کبھی کبھی تو موت کی دعا کرتے تھے جوانی میں صحت کا بل رشک تھی چمپئی رنگ، کشیدہ قامت،مضبوط ہاتھ پاؤں اور داڑھی منڈی ہوئی دیدہ اور تعریف کئے بغیر نہ رہتے تھے۔لیکن شراب نوشی کی کثرت اور ہجوم آلام نے صحت برباد کر دی تھی۔

ایام غدر میں قولنج کا شدید حملہ ہوا مگر جانبر ھو گے۔اس کے چار سال بعد درد سر میں مبتلا ہو گے۔ساتھ ہی سیدھے ہاتھ میں پھنسی نکلی جو پھوڑا بن گئی پھوڑا ایک پھوڑا تو ایک غار سا بن گیا ان دنوں اٹھنا بیٹھنا دشوار تھا یہ سب فساد کا نتیجہ تھا مرض بڑھا اور سارے جسم پر پھوڑے نکل آئے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہو گیا رفع حاجب کے لئے پلگ کے برابر آج حاجتی لگا دی گی پھر تسلسل بول کا عارضہ ہو گیا جس سے کمزوری میں اضافہ ہوگیا وفات سے دو ڈھائی سال قبل خود ان کے اپنے لفظوں میں یہ حال تھا کہ،،”پہنچی آپ اریج”کانوں سے بہرا”ضعیف بصارت،ضعیف دل،ضعیف معدہ،ان سب ضعفوں پر ضعف طالع”اسی کے سبب پنڈلیوں میں درد رہتا تھا اور ہاتھوں میں ریشہ تھا جو دوست احباب ملاقات یہ مزاج پرسی کو آتے تھے ان کی بات سن کر نہ سکتے تھے کسی کو کچھ عرض کرنا ہوتا تو اکثر پڑھتے رہتے تھے۔

دم واپسیں برسرراہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

وفات سے چند روز قبل بقول خالیہ صورت ہو گئی تھی کہ بار بار بے ہوش ہو جانے جاتے تھے موت سے ایک دن پہلے علاء الدین احمد خان کے خط کا جواب لکھا رہے تھے انہوں نے طبعیت کا حال دریافت کیا تھا انہوں نے جواب میں لکھوایا۔
“میرا حال مجھ سے کیوں پوچھتے ہو
ایک آدھ روز میں ہمسایوں سے پوچھ لینا” ایک بار تو انہوں نے ١٢٦٦ میں اپنی موت کی پیشنگوئی بھی کر دی تھی اور “غالب مرد” سے اس کی تاریخ نکالی تھی دوستوں کو لکھ دیا تھا کہ بس اب رخصت کا وقت آ پہنچا ہے آپ کے ہاتھ سے جو راہ پہنچتی ہے جلد پہچان لیں یہی تاریخ نکالنے کا مدعا عالم الغیب تو خدا ہے یہ سال گزر گیا تو کسی بے تکلف دوست نے لکھا کہ پچھلے سال تو وبا بھی پھیلی مگر آپ بحمد اللہ سلامت رہے ظرافت سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ میں نے وبا عام میں مرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔

وفات

یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سا مرض موت کا سبب بنا لے کر اندازہ ہوتا ہے کہ ذیابطیس کی شدت نے ان کی جان بھی 15 فروری 1849 میں جنازہ کی نماز پڑھی گئی حضرت نظام الدین اولیا کی درگاہ کے قریب ایک احاطے میں سپردخاک کیے گئے میر مہدی مجروح نے قطعہ تاریخ کہا جو لوح مزار پر کندہ کرا دیا گیا۔

حلیہ

غالب ایک وجیہہ انسان تھے قدوقامت، عادات و اطوار،رہن سہن ،ہر طرح کسی بڑی ریاست کے نواب لگتے تھے ایسی ہی زندگی گزارنا ان کی خواہش تھی اسی خواہش کی تکمیل میں ساری زندگی سودی قرض لیتے رہے اور مالی دشواریوں میں مبتلا رہے ان کا قد لمبا جسم شہر پرا مگر توانا ہاتھ پاؤں مضبوط رنگ گورا تھا دلچسپ ظرافت میں گفتگو کرتے تھے لب و لہجے میں متانت تھی ان سب خوبیوں نے شخصیت کو بے حد پرکشش بنا دیا تھا مولانا حالی فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں جوانی میں دیکھا تھا انہوں نے بتایا کہ عنفوان شباب میں وہ شہر کی خوبصورت اور پرکشش نوجوانوں میں گنے جاتے تھے خود غالب نے مرزا حاتم علی بیگ مہر کے نام ایک خط میں اپنی تصویر ان لفظوں میں کی ہے
“تمہارے کشیدہ قامت ہونے پر مجھ کو رشک نہ آیا کس واسطے یہ میرا قد بھی درازی میں انگشت نما ہے تمہارے گندمی رنگ پر رشک نہ آیا اس واسطے کہ جب میں جیتا تھا تو میرا رنگ چمپی تھا اور دیدہ ور لوگ اس کی ستائش کیا کرتے تھے” اسی خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جوانی میں داڑھی منڈاتے تھے بال سفید ہونے لگے تو داڑھی رکھ لی پہلے مسی لگاتے تھے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے تو مسئ لگانا چھوڑ دی۔

لباس

غالب ایک خوش پوش انسان تھے پیش قیمت لباس پسند کرتے تھے پاجامہ انگرکھا اس کے اوپر پر فرغل یعنی چوغہ اور سر پر اونچی ٹوپی یہ تھا ان کا لباس حالات کیسے بھی ہوں کہیں بھی جاتے تو سواری میں جاتے تھے۔

خوراک

ہمیشہ نفیس کھانے پسند کرتے تھے بڑھاپے میں خوراک کم ہوگئی تھی۔حطوں میں جابجا اس کی شکایت کی ہے لیکن یہ کم خوراک بھی کچھ زیادہ کم نہ تھی ناشتے کے وقت سات بادام کا شیرا قند کے شربت ک ساتھ ہاتھ دو پہر کو سیر بھر گوشت کا گاڑھا پانی یعنی سوپ بڑھاپے میں اس کی مقدار گھٹ کے چوتھائی رہ گئی تھی قریب شام تین یا چار تلے ہوئے کباب آم بہت مرغوب تھے۔

شراب

رات کو پانچ روپے بھر عمدہ شراب اور اس کے ہم وزن غرق گلاب یہ کبھی خانہ ساز ہوتی تھی لیکن انگریزی شراب کا ٹی لین انہیں بہت پسند تھی نمکین تیلے ہوئے باداموں کے ساتھ شراب پیتے تھے شراب کی بوتلیں توشا خانہ میں محفوظ رہتی تھی۔

مطالعہ

مطالعہ کا غالب کو بہت شوق تھا ایک بار بوستان خیال دستیاب ہوگی ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا دن بھر اس کے مطالعے میں مصروف رہتے رات بھر شراب نوشی میں۔ کبھی کوئی کتاب خریدی نہیں کتاب مستعار لیتے اور پڑھ کر واپس کر دیتے ہیں ایک خط میں لکھتے ہیں”دوپہر کو راضی الدین نیشا پوری کا کلام ایک شخص بھیجتا ہوا لایا۔۔۔۔۔۔میں کتاب دیکھ لیتا ہوں مول نہیں لیتا دوستوں سے کتابیں منگواتے ہو پڑھ کر لٹا دیتے حافظ ایسا پایا تھا کہ جو ایک بار پڑھ لیا یاد ہو گیا۔ایک اور بات یہ کہ ذرا سے غور و فکر سے کتاب کے مطالب ان پر پوری طرح واضح ہو جاتے تھے۔

غالب اپنے دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ طرح طرح ان کی دل داری اور دلجوئی کرتے تھے فرغل کے واقعے سے بھی ان کی دوست نوازی کا ثبوت ملتا ہے۔ سوانح غالب کا بغور مطالعہ کیجیے تو قدم قدم پر ایسے وافعات ملتے ہیں جن سے غالب کی دوست نوازی کا ثبوت ملتا ہے منشی شیو نارائن آرام کے نے میں اردو شعرا کے نام سے ایک رسالہ نکالا تھا امیر مینائی نے بغض اشاعت اپنا کلام اس رسالے کو بھیجا حرام نے امیر کا کلام تو نہیں چاہتا اپنا بیان شاپ دیا کہ جب تک کہ میں اس شاعر کا نام اور کلام نہیں چھاپ سکتے اور امیر مینائی کے حالات لکھیں ان کی غزلیں بھیجیں ہیں ان کا کلام شائع کرو غالب اپنے دوستوں کا کام نکالنے کے لئے ہر وقت مستعد رہتے تھے ضرورت پڑنے پر ان کی سفارشیں کرتے تھے مصیبت پڑنے پر خط لکھ کر دل جائے کرتے تھے دوستوں پر جان چھڑکتے ہیں اور ہرگز نہ چوکتے

انسان دوستی

وہ ایک درد مند دل رکھتے تھے کسی کی تکلیف ان سے دیکھی نہ جاتی تھی مبتلائے آدم کو یہ وطن پہ جاتے تھے اس میں نہ اپنے پرائے کی تخصیص تھی نہ گورے کالے کی تمیز اور نہ ہندو مسلمان کا فرق انہوں نے جو یہ لکھا ہے کہ میں ہندو مسلمان عسائی سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں کالوں کے ہاتھوں گورے مارے گے تو اس پر آنسو بہائے کہ ان میں کوئی دوست تھا تو کوئی محسن کالوں کی موت کا ماتم کیوں نہیں کرتے ان میں دوست عزیز شاگرد معشوق سبھی شامل تھے۔بہادر شاہ کو قیدی بنا کر رنگون بھیج دیا گیا شہزاے قتل کر دیے گئے بیگمات قلعہ دربدر ہو گئی واجد علی شاہ اور ان کے متعلقین غیروں کے دستے لگ رہو گے بے گناہ انگریز عورتیں اور ان کے معصوم بچے نہ دیکھ کر دیے گئے ان سب حادثات نے ایک درد مند شاعر کے دل کو تڑپا دیا سب کی تباہی و بربادی کا یہ پہلو ہر انسان کا دکھ درد ان کا اپنا دکھ درد ہے ان کے نزدیک کوئی پرایا نہیں سب ان کے اپنے ہی بڑی جاذبیت رکھتا ہے۔

غالب مکتوب نگار

ہمارے نثری ادب میں غالب نے مکتوب نگاری کے ایسے پرکشش انداز کی بنیاد ڈالی جس کی دلفریبی آج بھی اہل نظر سے خراج تحسین وصول ہوتی ہے اور یہ مقبولیت روز افزوں ہے مولانا خالی تو یادگارغالب میں یہاں تک کہہ گزرے کہ مرزا کی شہرت اور ناموری کا دارومدار ان کی اردو فارسی شاعری پر نہیں اردو مکتوب نگار پر ہے مولانا کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا سچ بات یہ ہے کہ صرف شاعر ہوتے ہوتے تب بھی وہ اردو ادب میں انکا رتبہ وہی ہوتا ہے جو آج ہے۔
انگریزی شاعر ملٹن کی شہرت ان کی شاعری کے سبب ہے لیکن ان کے نثر پاروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن بعد میں ان کی نثری تصانیف ایرو پہ جیتے ہوئے کہا کہ اور ان کی صرف یہ نثری تصانیف موجود ہوتی تو انگریزی ادب کی تاریخ میں ان کا رتبہ کم نہ ہوتا پروفیسر کا یہ جملہ دہرانے کے بعد لکھتے ہیں۔”خاکم بدہن اگر دیوان غالب نہ ہوتا اور صرف خطوط غالب ہوتے تو بھی غالب غالب ہی ہوتے” غالب کو اپنی شاعری پر جتنا ظرف تھا اتنا ہی اپنی حدود پر بھی تھا وہ خوب جانتے تھے کہ مکتوب نگار کے اس نئے انداز کے موجد وہ خود ہی ہیں اور اس سے پہلے کوئی ایسی دلکش خط نہیں لکھ سکا میر مہدی مجروح سے ایک خط میں سوال کرتے ہیں۔”کیوں سچ کہو اگر کے خطوط کی تحریر کی ہیں ترستی یا اور کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم سے پہلے کوئی انداز کے ختم نہیں دیکھ سکا اور ایک ہاتھ میں فرماتے ہیں۔

“میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ میرا صلح کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزار کوشش سے باز با قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو”
اہل مکتوب نگاری کے جس طرز کا رواج تھا غالب کو اس سے سخت نفرت تھی ایک جگہ طنزیہ لہجے میں فرماتے ہیں کہ قدیم زمانے کے لوگ اس خط کو معرفت مانتے ہی نہیں جس میں پرانی روش اختیار نہ کی گئی ہو بلکہ ان کے نزدیک وہ سخت کنویں کے مانند ہیں جس کا پانی سوکھ گیا ہو۔ایسا بادل ہے جو بھر سو نہ سکے ایسا درخت ہے جو میوہ دار نہ ہو ایسا گھر ہے جو چراغ سے محروم ہو اور ایسا چراغ ہے جس میں اجالا نہ ہو اب ملاحظہ فرمائیے۔
ہائ کیا اچھاشیوہ ہے جب یوں نہ لکھو وہ خط ہی نہیں چاہ بے آب ہے ابر بے باراں ہے نخل بے میوہ ہے،خانہء بے چراغ سے چراغ بھی نور ہے۔جدید طرز مکتوب نگاری سے اتنا بیزار ہوں وہ کیوں اس کی پیروی کرے گا دوسروں کے نقش قدم پر چلنا غالب کو یوں بھی نہ گوارا تھا چنانچہ مکتوب نگاری کی وادی میں انہوں نے اپنا راستہ نکالا اور مکاتیب کا ایسا بیش بہا ذخیرہ چھوڑ گئے جس پر اردو زبان ہمیشہ نہ کرے گی۔

اردو مکتوب نگاری کا آغاز

مغلوں کے عہد حکومت میں ہندوستان پر فارسی زبان کی حکمرانی تھی یہی یہاں کی زبان تھی اور اسی میں مراسلت کا دستور تھا غالب بھی پہلے ہی زبان میں خط لکھا کرتے تھے اردو اس وقت عام بول چال کی زبان بن چکی تھی اور اس میں شاعری بھی کی جانے لگی تھی رفتہ رفتہ است کے میدان میں بھی اس نے قدم جمالیے آخرکار غالب نے فارسی میں خط لکھنا ترقیاں اور اردو کی طرف متوجہ ہوئے۔فارسی میں نامہ نگاری کا ایک خاص انداز تھا اور اس کے لئے بہت توجہ اور کاوشوں درکار تھی ضروری تھا کہ مکتوب سے مکتوب نگار کی علمیت اور انشاء پردازی کے کمال کا اظہار ہوگا بیان ہے کہ بیماری اور بڑھاپے کے سبب عبارت آرائی کی ہمت نہ رہی تو وہ اردو کی طرف متوجہ ہوئے اور دل کی بات بلا تکلف زبان قلم سے ادا کرنے لگے اس کے لئے نہ کوئی اہتمام درکار تھا اور نہ محنت کی ضرورت ہے بے تکلف بات چیت کر لو تو الگ حاصل ہوتا تھا ایک خط میں لکھتے ہیں۔

“زبانی فارسی میں ختم کا لکھنا پہلے سے متولی کہے پیرانہ سری اور ضعیف کے صدموں سے محنت پرواہی اور جگر کا بھی کی قوت مجھ میں نہ رہی۔
مضمل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں”
مولانا حالی کا اندازہ ہے کہ غالب نے 1850 کی کچھ بات اردو میں خط لکھنے شروع کیے لیکن اس سے پہلے کے لکھے ہوئے کچھ خطوط بھی دستیاب ہو چکے ہیں جو ہر سین جوہر کے نام لکھے گئے پہلی دسمبر 1848 کے خط کو مولانا غلام رسول مہر کا پہلا اردو مکتوب قرار دیتے ہیں۔خط تاریخ تحریر درج نہیں اس لیے بھارتی پرشاد کی رائے ہے کہ اگست 1849 میں مرزا ہر گوپال تفتہ کے نام لکھا گیا خط غالب کا پہلا اردو خط ہو سکتا ہے ڈاکٹر کے متابق الدین صاحب نے 15 نومبر 1975 کے ہماری زبان میں غالب کے پانچ غیر مطبوعہ خطوط کا تعارف کرایا ہے جو 25 اپریل اور تیرہ نومبر 1864 کے درمیان لکھے گئے خطوط شامل نہیں ہوئے اس لئے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا جلال دین کی اصطلاح کو درست مان لیا جائے تو قدامت کا سہرا ان ہی کے خطوط کے سر ہے بہرحال اتنی بات یہ ہے کہ پہلے فارسی میں خط لکھتے تھے جب قومیں مزمل ہوگئے تو فارسی زبان میں ایک برطانوی کی طاقت نہ رہی تو بول چال کی زبان یعنی اردو میں قلم برداشتہ خط لکھنے لگے اس کام میں دل لگا۔دوستوں نے خاتون کو پسند کیا تو ان کا بیشتر وقت مکتوب نگاری میں صرف ہونے لگا۔

مکتوب نگاری کا شوق

غالب کے اردو خطوط کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے وہ تو کسی مقصد کے تحت لکھے گے کہ حساب لگایا جائے تو ان شوقی اختر کا پلہ بھاری نظر آئے گا دراصل اس کام کا آغاز تو ضرورت نہیں ہوا تھا مگر آخرکار اس کام میں ایسا جی لگا۔کہ اس نے تفریحی مشاغل کی شکل اختیار کر لیں ایک خط مرزا ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔
“میں تنہائی میں صرف ختم کے پروں سے جیتا ہوں یعنی جس کا خط آیا میں نے جانا وہ شخص تشریف لایا خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جو اطراف جانب سے دوچار حق نہیں آرہے ہو بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاک کا ہر کارہ خط آتا ہے ایک دو صبح کو 12 شام کو میری دل لگی ہو جاتی ہے دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے”
میر مہدی مجروح سے خط لکھنے کا تقاضہ لفظوں میں کرتے ہیں۔
“خط لکھنے میں تردد ہو نہ کرو اور ڈاک میں تامل بھیجا کرو”
منشی شیو نارائن آرام کو لکھتے ہیں۔
“بھائی یہ بات تو کچھ نہیں کہ تم خط کا جواب نہیں لکھتے خیر دیر سے لکھو اگر شتاب نہیں لکھتے”
مرزا تفتہ کا ہاتھ آنے میں دیر ہوئی تو بے چین ہو کر یہاں لکھ دیا
“کیوں صاحب کیا یہ عین جاری ہوا ہے کہ سکندرآباد کے رہنے والے دہلی کی خاک نشینوں کو خط نہ لکھیں اگر یہ حکم ہوا ہوتا تو یہاں بھی ایک اشتہار جاری ہوجاتا کہ زنہار کوئی خط سکندرآباد کی ڈاک میں نہ جائے”
تفتہ ہی کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔
“یہ کیا سبب دس دس بارہ دن سے تمہارا خط نہیں آیا یعنی تم نہیں آئے خط لکھوں صاحب نہ لکھنے کی وجہ لکھو آدھ آنے میں بخل نہ کرو ایسا ہی ہے تو بے رنگ بھیجو “
تفتہ کے نام دو اور خطوں کے اقتباس ملاحظہ ہوں
“ہم کو دو چار سطرح لکھ بھیجوں کہ ہمارا دھیان تمہیں لگا ہوا ہے” اور بار جہاں رہو جس طرح رہو ہفتے میں ایک بار خط لکھا کرو۔
ایک خط میں خاتم علی مہر سے شکایت کرتے ہیں۔
“کیا تم نے مجھ سے بات کرنے کی قسم کھائی ہے اتنا تو کہوں کیا بات تمہارے جی میں آئی ہے برسوں ہوگئے ہیں تمہارا خط نہیں آیا نہ اپنی ہی وفا لکھے نہ کتابوں کا بیورہ بھیجا”
غلط بلاتاخیر خطوں کا جواب دیتے تھے دوستوں سے گردوں سے بھی اصرار کرتے ہیں کہ پابندی سے ہاتھ لکھی ان کے اپنے بیان کے مطابق سارا دن خط پڑھنے کا جواب لکھنے میں صرف ہوتا تھا شیر صرف رات کے وقت عالم مسرور میں کہتے تھے اس عالم میں لکھنا دشوار ہوتا تھا اس لئے کمر بند میں گرہن لگا دیتے تھے۔صبح کو شعر یاد کرکے لکھتے جاتے اور گرہن کھولتے جاتے لیکن یہ روز کا معمول بنا تھا ایک مدّت اس طرح کے شعر کوئی طرف دل مائل ہی نہ ہوا صرف مکتوب نگاری کا شغل ایسا تھا جس نے ہمیشہ دل بستگی کا سامان فراہم کیا خبر پڑھتے اور جواب لکھنے سے جو وقت بچ رہتا تھا وہ لفافہ بنانے میں صرف ہوتا تھا۔منشی شیو نارائن آرام کو لکھتے ہیں۔
“لفافے بنانا دل کا بہلانا ہے بیکار آدمی کیا کرے”
منشی بنی بخش حقیر لکھلتے ہیں۔ “مجھ کو اک سروکار لفافے بنانے میں گزرتے ہیں اگر خط نا لکھوں گا لفافہ بناؤں گا”
وفا کے سلسلے میں غالب کی نفاست پسندی بھی قابل ذکر ہے ایک بار منشی شیو نارائن آرام عبارت لکھی ہوئی تھی کی یہ خط کس مقام سے کس تاریخ کو روانہ کیا گیا اور اس کی منزل کیا ہے جب کوئی نہ آئے ایک بار دوستوں کو بانٹ دئیے دوسری بار منشی جی کو لوٹا دیے واپس کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
“آج اس وقت تمہارا خط مع لفافوں کے آیا دل خوش ہوا بھائی میں نے اپنے مزاج سے ناچار ہو یہ لفاظ مقام بدر مقام تاریخ امام مجھ کو پسند ہیں آگے جو تم نے مجھے بھیجے تھے وہ میرے دوستوں کو بوٹ دیے الفا اس سے بھیجتا ہوں کہ ان کے الفاظ جن میں تم اپنے خط بھیجا کرتے ہو اور لفافے سے لے لو اور اس طرح کے الفاظ نہ ہوں تو ان کی کچھ ضرورت نہیں”
دیکھا آپ نے یہ ہے غالب کا مزاج لباس خوراک کتابت طباعت الفاظ کا انتخاب ہر معاملے میں وہ بے خبر نفاست پسند ہیں انہوں نے خود ہی فرما دیا بھائی میں اپنے مزاج سے نہ چاہو ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ان کا کلام نظم و نثر صحت و نفاست کے ساتھ شایع ہوکر ہر طرف پھیل جائے۔

خطوط کی اشاعت

غالب نے اردو میں خط لکھنے شروع کیے تو یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ سرکاری طور پر لکھے گئے یہ حدیث اتنی جلدی خاطر مقبول ہو جائیں گے اور یہ بات تو ان کی خوشی خیال میں بھی نہ آئی ہو گی کہ ایک دن اخبار ان کی اشاعت کا تقاضہ کریں گے۔ یہ خطوط جو بغیر کسی اہتمام پرتکلف کے لکھے گئے تھے دوستوں اور عزیزوں میں بہت پسند کیے گئے ایک دوسرے کو پڑھ کر سنائے گئے تھے اور عزیز شاگرد اردو ادب کے اس بیش قیمت سرمایہ کو محفوظ کرنے کی تدبیر کرنے لگے۔ویلڈن منشی شیو نارائن آرام نے غالب کی اپنے کسی خط میں ان خطوط کی اشاعت کا ارادہ ظاہر کیا یہ تجویز غالب کو پسند نہیں آئی جواب میں لکھتے ہیں۔
“اردو کے خطوط جو آپ چھاپا چاہتے ہیں یہ بھی زائد بات ہے کہ کوئی رقصاں ہو گا کہ میں نے قلم سنبھال کر اور دل لگا کر لکھا ہوگا ورنہ صرف تحریر سری ہے اس کی شہرت میری سخنوری کی روح کے منافی ہے اس کی ہے اور نہ ہی آپ آجانا میرے خلاف تباع ہے”
غالب نے اپنے خطوط کی اشاعت کے خلاف رائے تو دے دیں لیکن اپنے پرستاروں کی رائے کے آگے سر جھکانا ہی پڑا اب انہیں اپنی تحریر سری کی دلکشی کا اندازہ ہوا اور یہ بھی یقین ہوگیا کہ ایک نہ ایک دن یہ تو ضرور چھپکے رہیں گے اب بہت سنبھال کے لکھنے لگے تو کی دلفریبی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔ادھر شاگرد اور دوست اپنی رائے پر قائم ہیں اور شاید باہمی مشورہ بھی جاری رہا منشی شیو نارائن آرام اور مرزا ہر گوپال تفتہ ان میں پیش پیش تھے آپ کی بار آمنے نہیں بھرتا نے خط لکھا جواب میں فرماتے ہیں؛
“رقعات سے چھاپنے میں ہماری خوشی نہیں ہے لڑکوں کی سی ضد نہ کرو اگر تمہاری امی خوشی ہے تو صاحب مجھ سے نہ پوچھو تم کو اختیار ہے یہ عمل میرے خلاف رائے ہے”
یہ تو لکھ دیا کہ یہ امر میرے خلاف رائے ہے لیکن اب بھی ان کا یہ جملہ کی اگر تمہاری اسی میں خوشی ہے تو صاحب مجھ سے نہ پوچھو تم کو اختیار ہے صاف بتا رہا ہے کہ وہ نیم رضامندی میں یہی نہیں بلکہ رکعت کی فراہمی کی مہم کا آغاز ہوتا ہے۔تو ہم معاون و مددگار نظر آتے ہیں اب ان کی خوشی اسی میں ہیں کہ یہ حطوط چھپیں اور چھپیں۔
ساری زندگی غالب کو کوشش یہ رہی کہ ان کا دیوان زیادہ سے زیادہ صحت اور بہترین بات کے ساتھ ہے اگر اپنے خطوط کی صورت میں انہوں نے تعاون کیا تو اس میں حیران ہونے کی کوئی وجہ نہیں نہیں۔
خطوط غالب کا پہلا مجموعہ “عود ہندی” ان کی وفات سے پونے چار مہینے قبل شیعہ ہوا دوسرا مجموعہ “اردوےمعلی” چھپنا تو ان کی زندگی ہی میں شروع ہوگیا تھا لیکن مکمل ان کی وفات کے بعد ہوا رکعت کے متعدد مجموعے ان کے بعد شائع ہوئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری رہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔

مکاتیب غالب

غالب نے ریاست رام پور کے توہین کے نام جو خط لکھیے ان میں سے بیشتر وہاں محفوظ تھے مولانا امتیاز علی خان عرشی نے کرنل بشیر حسین زاہدی کی فرمائش پر انہوں نے ترتیب دیا اور ریاست کے خرچ پر اس سے بہت اہتمام سے شائع کیا گیا یہ مجموعہ 170 خطوط پر مشتمل ہے.اس میں منشی نبی بخش حقیر کے نام لکھے گئے چوہتر خطوط شامل ہیں ادارہ ندارت کراچی سے شائع ہوئے ہوئے۔
ندارت غالب

اس میں منشی نبی بخش حقیر کے نام لکھے گئے 74 خطوط شامل ہیں ادارہ ندارت کراچی سے شائع ہوئی۔

ادبی خطوط غالب

مرزا محمد عسکری نے ایسے خطوط کو یکجا کر دیا جس میں مکتوب نگار نے ادبی مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ خطوط غالب مولوی مہیش پرشاد میں غالب کے تمام خطوط کو دو جلدوں میں مرتب کرنے کا فیصلہ کیا پہلی جلد ہندوستانی اکیڈمی سے شائع ہوئیں لیکن مولوی صاحب کی وفات کے سبب دوسری جلد شایع نہیں ہو سکی۔

خطوط غالب

مولانا غلام رسول مہر نے گروپ کے تمام خطوط بازگشت سنائی مکاتیب غالب دارت غالب یکجا کرکے کتاب منزل لاہور سے شائع کیے۔
غالب کے خطوط:
ڈاکٹر خلیق انجم نے چار جلدوں میں غالب کے تمام خطوط کو یکجا کیا ہے مولانا عرشی کے بعد یہ دوسرا کون ہے جو نہایت سلیقے سے کیا گیا ہے اور جس پر بہت محنت صرف ہوئی ہے غالب کی زندگی میں غالب کے خطوط اس اہتمام سے شائع نہ ہو سکے جس کی وہ بجا طور پر مستحق ہو گیا دوسرا مجموعہ خانے میں تھا اور امید امید تھی کہ جلد وہ بھی منظر عام پر آ جائے گا اس صورت حال سے مطمئن تھی اور خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ بقائے دوام کے دربار میں انہیں نہیں بلند رتبہ حاصل ہوگیا فرماتے ہیں۔
“نظم و نثر کی قلمر کا انتظام ایزد داماں توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہو چکا اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا”
خطوط غالب کا تنقیدی مطالعہ

غالب کے خطوط میں کچھ ایسی جادو کی تاثیر ہے کہ یہ خط جس کی نظر سے ایک بار گزر گئے وہ ان کی دلکشی کا قائل ہو گیا تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے لکھے گئے ان خطوں کی تازگی میں آج تک کمی نہیں آئی بلکہ ان کی مقبولیت میں برابر اضافہ ہی ہوتا ہے ایسا بہت کم ہوتا ہے فوج وجود میں آنے کے ساتھ ہی قبول عام کا شرف حاصل کرلی اور یہ مقبولیت عرصہ دراز تک برقرار رہے اور طوطے غالب کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ان خطوں کا ایک کمال یہ ہے کہ کسی کے نام ہوں پڑھنے والے کو یہ گمان ہوتا ہے کہ مکتوب نگار ہم سے ہی محکمۃ گو ہے ہر ایک کو یہ گمان کہ مخاطب ہمیں سے ہے۔
خطوط غالب کی اس مقبولیت کا راز کیا ہے اس دلکی کا سرچشمہ کہاں ہیں؟ آخر وہ کیا خصوصیت ہیں جنہوں نے ان خطوں کو خاص و عام ہیں ایسا مقبول بنا دیا کہ ان کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ناممکن ہے۔
غالب اپنے ایک خط میں منشی شیو نارائن آرام کو لکھتے ہیں “بھائی میں اپنے مزاج سے ناچار ہوں”اور مزاج ان کا یہ تھا کہ بڑے سے بڑے شاعر و ادیب کی پیروی کو کوسر شان خیال کرتے تھے ساری زندگی اپنا راستہ آپ نکالا اور سب سے الگ نکالا گویا وہ بہت جدت پسند واقع ہوئے تھے۔

جدت پسندی

غالب کے زمانے تک مکتوب نگاری کے جس انداز کا رواج تھا اسے وہ *محمد شاہی روش” کہتے تھے اس روش کو وہ بے حد ناپسند کرتے تھے اور ہمیشہ اس کرتے تھے میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں
“تم کو خط نویسی کی محمد شاہی روش پسند ہیں کیا یہ خیریت ہے وہاں کی خیریت مطلوب ہے کہ تمہارا بہت دن کے بعد پہنچا جی خوش ہوا”
اس عبارت میں غالب نے مکتوب نگاری کے اس پر رونے طریقے سے دامن بچایا اور اس روش سے ہٹ کر اپنا راستہ نکالا ان کے خطوط کی سب سے اہم خصوصیت یہی ہے اب اس کے ثبوت پیش کیے جاتے ہیں۔
القاب و آداب:-اس زمانے میں دستور تھا کہ مکتوب خدا کی خوشنودی کے لئے لمبے لمبے القاب لکھے جاتے تھے یہ نقاب کونسی قصیدہ کہنا چاہیے مکتوب علاقے جتنی تعریف ممکن ہے وہ سب شروع میں ہی کہا جا دکیا اس کا ذکر ایک فارسی عبارت میں کرتے ہیں فرماتے ہیں میرا طرز نگارش یہ ہے کہ جب کاغذ و قلم ہاتھ مین لیتا ہوں تو مکتوب الہ کو اس کی حیثیت کے مطابق کسی لفظ سے پکارتا ہوں اور کام کی بات لکھ دیتا ہوں القاب و آداب خیریت اور مزاج پرسی غیر ضروری باتیں ہیں انہیں قلم انداز کر دیتا ہوں فارسی عبارت یہ ہے
“سنجار من درنگارش این است کہ جو کلک وورق با کف گیرم مکتوب الا رابہ لفظی کہ درخور حالت اوست در سر آغاز صفحہ آواز دہم وزمزمہ سنج مدعا گردم القاب و آداب و خیریت گوی و عافیت جوی حشو و زوایداست و تختیاں حشورا دفع نہد”
یہی بات ایک اردو مکتوب میں بھی دہرائی ہے فرماتے ہیں ہیں۔”ہم جانتے ہیں تم زندہ ہو تم جانتے ہو ہم زندہ ہیں ہم روری کو لکھ دیا زاہد کو اور وقت پر موقوف رکھا”
خلاصہ کلام یہ کہ غالب نے لمبے لمبے القاب ترک کرکے مختصر القاب لکھنے کی بنیاد ڈالی۔
بھائی، میاں ،ب برخوردار، صاحب ، میری جان، مہاراج، جان برادر ،جان غالب، قبلہ و کعبہ،بندہ پرور، سید صاحب، کہیں یہ انداز ہے۔
یوسف مرزا جی مرزا تفتہ میاں مرزا تفتہ حاجی مولا علی بعض خطوں میں لمبے لمبے القاب بھی نظر آتے ہیں
نواب صاحب جمیل المناقب عمیم الاحسان عالیشان والا دودمان زاد مجدکم
کاشانہ دل کے ماہ دو ہفتہ منشی ہر گوپال تفتہ
میرے مہربان میری جان مرزا تفتہ سخندان
گویا بعد جگہ لمبی ان کا بھی استعمال کرتے ہیں اور کافی کا اہتمام بھی کرتے ہیں کہیں اس کا مقصد ہے مکتوب علاقوں کو خوش کرنا اور کہیں یہ جتنا کہ ہم قافیہ پیمائی کے ہنر میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رنگ برنگے القاب و آداب کے پہلو بہ پہلو بے القاب کے خطوط بھی نظر آتے ہیں جہاں مکتوب علاقوں مخاطب کیے بغیر وہ مدع نگاری کا آغاز کر دیتے ہیں گویا بلا تمہید کام کی بات کہہ دیتے ہیں ۔غرض یہ کہ غالب نے القاب و آداب کے پرانے طریقوں کو بالائے طاق رکھا اور بالکل نئے انداز کی بنیاد ڈالی۔
اپنا نام نام:-زمانہ قدیم سے دستور چلا آتا ہے کہ خط کے خاتمے پر مکتوب نگار اپنا نام لکھتا ہے اور نہ لکھیں تو کیسے معلوم ہو کہ حق کس کا ہے نام سے پہلے کچھ لکھنے کا دستور بھی بہت پرانا ہے مثلا آپ کا نیازمند آپ کا فرمانبردار بیٹا آپ کا خادم وغیرہ یہ دستور آج تک جاری ہے مگر غالب کو یہ کسی بھٹی باتیں نہ پسند تھی یہاں بھی انہوں نے جدت سے کام لیا.
خط کے آخر میں کہیں صرف غالب لکھتے ہیں کہیں صرف اسد تو کہیں اسد اللہ یا اسد اللہ خان کہیں ختم ہے اپنے نام کا قافیہ ملایا ہے۔
جواب کا طالب غالب اس خط کی رسید کا طالب غالب
عافیت کا طالب غالب نجات کا طالب غالب
رحم کرم کا طالب غالب۔ مرگ ناگہاں کا طالب غالب
ایک خط میں لکھتے ہیں رقم اسد ایک جگہ صوفیوں کا انداز اختیار کرتے ہوئے لکھا ہے غوث علی شاہ ایک اور ایک جگہ غالب بے نوا اسدیک رنگ۔
ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں نہ ہم اپنا بدل کر مغلوب رکھ لیا ہے۔
مولانا علی کے نام خط میں لکھتے ہیں “کاتب کا نام غالب ہے کہ دستخط سے پہچان جاؤ “میر سرفراز حسین کے نام ایک خط میں بہت مزید را انداز اختیار کیا ہے۔خط کے آخر میں لکھتے ہیں دیکھو ہم اپنا نام نہیں لکھتے بلا دیکھے تو سہی تم جان جاتے ہو کہ یہ خط کس کا ہے” بہت سے خط ایسی ہے کہ اپنا نام لکھے بغیر ختم کر دیا ہے ان کی تحریر کو نہ پہچانتا ہو گا۔اور ان کو نہ جانتا ہو گا ایسا بھی کوئی ہوگا کہ غالب کو نہ جانے؟”
یہاں بھی اپنا راستہ سب سے الگ نکالا ہے۔
تاریخ تحریر:-غالب اپنے ختم ہے تاریخ تحریر کا بہت اہتمام کرتے ہیں کچھ خط ایسے بھی ہیں جن پر تاریخ درج نہیں لیکن عام پر وہ تاریخ لکھتا ہے بلکہ اکثر کے ساتھ عیسوی کے ساتھ سن بھی لکھ دیتے ہیں اس طرح:-
“۱۴ رجب المرجب ۱۳۸۱ مطابق ۱۴ دسمبر ۱۸۶۴”
میر مہدی مجروح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
“آج شنبہ کا دن ساتویں فروری1858 کی اور شاید بیسویں جمادی الثانی ۱۲۷۰ ہجری کی ہے”
اکثر دن کے ساتھ وقت بھی لکھتے ہیں
صبح دوشنبہ شا نتر دہم ازمہ ماہ صیام ۱۲۸۱ ینعی فروری ۱۸۶۵
منگل کا دن 23 جمادی الثانی 14 دسمبر پہر دن چڑھے۔کسی کسی خط میں تو تاریخ کے علاوہ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جس دن خط ملا اسی دن جواب لکھ دیا۔
“آج دوشمن با 14 رمضان کی اور 15 فروری کی ہے اس وقت کے بارہ پر تین بجے ہیں عطوفت نام پہنچا ادھر پڑھا ادھر جواب”
بعض خطوں میں اسی بات کو یوں بھی لکھا ہے .
“وقت ورور خط ،وقت رسیدن خط”
میر مہدی مجروح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں
“یکشنبہ ہفتم فروری 1857 وقت رسیدن نامہ”
زمانہ قدیم سے آج تک یہ طریقہ چلا آتا ہے کہ تاریخ تحریر یا خط سے کے شروع میں لکھتے ہیں یا خاتمے پر غالب کی روایت نے اسے بھی برقرار نہ رکھا وہ کبھی خط کے شروع میں تاریخ لکھتے ہیں کبھی آخر میں کبھی درمیان میں ایک اور دلچسپ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ کس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ بتا دیتے ہیں۔

بات چیت کا انداز

خط کو نصف ملاقات کیوں کہا جاتا ہے اس میں شک نہیں کہ مکتوب دو اشخاص کے درمیان بات چیت ہے فرق صرف اتنا ہے کہ یہ ضبط تحریر میں آجاتی ہے لیکن ہوا یہ کہ قدیم مکتوب نگاروں نے نامہ نگاروں میں تصنع بناوٹ اور عبارت آرائی سے کام لیا اور اس سے بے تکلفی سے محروم کردیا جو اس کا فطری حق تھا غالب نے ایسا انداز اختیار کیا جس سے دو لوگ آمنے سامنے بیٹھ کر رہی ہو گویا انہوں نے خط کو نصف ملاقات نہیں بنا دیا اور اس پر انہیں بجا طور پر فخر تھا مرزا حاتم علی مہر کو بڑے فخر کے ساتھ لکھتے ہیں
“مرزا صاحب میں نے انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ میرا سر کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزار کوس سے یہ بات زبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لے لیا کرو”
منشی بنی بخش حقیر کو لکھتے ہیں:
“بھائی مجھ کو اس مصیبت میں کیا ہنسی آتی ہے کہ یہ ہم تم پر مرزا تفتہ میں مراسلت مکالمۃ ہوگئی ہے روز باتیں کرتے ہیں یہ دن بھی یاد رہیں گے ہم تہے کہ محصول ادا آج ان ہے ورنہ باتیں کرنے کا مزہ معلوم ہوتا”
مرزا ہر گوپال تفتہ کو لکھتے ہیں:
“بھائی مجھ میں تم میں نامہ نگاری ,کاہےکاہے, ہے مکالمہ ہے “
منشی نول کشور کو ایک فارسی خط میں لکھتے ہیں ۔
“میں نے آسان راستہ اپنا لیا ہے جو کچھ لکھتا ہوں اردو میں لکھتا ہوں نہ سخن آرائی نہ خود نمائی تحریر کو گفتگو بنالیا ہے”
غالب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نامہ نویسی کو بے تکلف بات چیت بنا دیا جہاں اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
کیوں صاحب! روٹی ہو رہو گے یا کبھی منو گے بھی؟
ہاہاہاہا میرا پیارا مہدی آہا او بھائی مزاج تو اچھا ہے؟
بیٹھو۔
او ملا تفتہ میرے گلے لگ جاؤ
میاں لڑکے! کہاں پھر رہے ہو ادھر آؤ چلو خبریں سنو

ایک اور خط کا ڈرامائی انداز دیکھئے “ارے کوئی ہے ذرا یوسف مرزا کو بلایو نور صاحب کو آ گئے” نہ کوئی یوسف مرزا کو بلانے کیا نہ وہ آئے یہ سب خیر کی کارفرمائی ہے بات صرف اتنی سی ہے کہ یوسفزئی کو مخاطب کرنا منظور ہے میرن صاحب کے نام ایک خط کا آغاز اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے لکھتے ہیں۔
“میرن صاحب کہاں ہیں؟کوئی جائے اور بلا لاے حضرت آئے السلام علیکم. مزاج مبارک؟
یہاں نہ میرن صاحب کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا نہ انہیں بلوایا گیا نہ وہ تشریف لائے یہ مراسلہ کو مکالمہ بنانے کی کوشش ہے اور کامیاب کوشش ہے۔

دلی کے حالات

عہد غالب کی دلی کو اور وہاں پیش آنے والے واقعات کو ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے ان واقعات نے وقت کے دھارے کا رخ موڑ دیا اور تحریک آزادی کا راستہ ہموار کر دیا مغل سلطنت کا سورج غروب کی آنکھوں کے آگے ڈوبا انگریزوں کے اقبال کی صبح ان کی نظروں کے سامنے طلوع ہوئی انھوں نے بہت سمجھدار انسان تھے مصلحت کا دامن انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا چاہتے تو اٹھارہ سو ستونجا کی قیامت کا آنکھوں دیکھا حال پوری تفصیل کے ساتھ لکھ سکتے تھے مگر جانتے تھے اس میں جان کا خطرہ ہے ۔تفتہ کے نام خط میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے فرماتے ہیں۔
“مفصل حالات لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں” پھر بھی ان خطوں میں نہایت اہم معلومات محفوظ ہوگئی ہے. 5 دسمبر 1857ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ملازمان قلعہ پرشدت ہے باز برس اور دارو گیر میں مبتلا ہیں امیر غریب سب دلی نکل گئے جو آگے تھی نکالے گئے جاگیردار پینشن دار دولت مند اہل خلیفہ کوئی بھی نہیں ہے گھر کے گھر بھی چراغ پڑے ہیں مجرم سیاست پآتے ہیں جرنیلی بندوبست 11 میں سے آج تک یعنی پنچم دسمبر تک بدستور ہے باہر سے کوئی بغیر ٹکٹ نہیں آنے پاتا ایک خط میں لکھتے ہیں کہ بڑے بڑے جاگیردار پکڑے ہوئے ہیں بڑے بڑے رئیس پانہ زنجیر دینی لاکر زندان میں ڈالیں گے بڑے دکھ کے ساتھ لکھتے ہیں ولا ڈونگے مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا “واللہ مسجدوں کے ڈھاے جانے میں اور ہندوؤں کی ڈیوڑھیوں کے پرچم لہراتے ہیں”
خود غالب بھی باز پرس سے نہیں بچے پہلے تو ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ تم نے سکہ کہا ہے مطلب یہ کہ بہادر شاہ کی تاج پوشی پر شعر کہے اہر کار اس الزام سے بری ہوئے پینشن اس جرم میں بند ہوئی بند کہ تم بادشاہ کی خوشامد کیا کرتے تھے بالآخر پینشن بحال ہوئی غالب نے لکھا ہے کہ انگریز افسروں کی عدالتیں من مانی کرتی تھی کوئی قانون کا ارادہ نہ تھا جسے چاہا نسی کے تختے پرلٹکا دیا جسے چاہا باہر کیا نہ لکھنے پر بھی غالب کے بارے میں بہت کچھ لکھ دیا ہیں اس کا خلاصہ بھی پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہم تنہائی کا تھا بہت سے دوست اور عزیز مر گے جو زندہ تھے وہ ان سے اور ان کی دلی سے دور تھے غالب انہیں برابر یاد کرتے تھے اور خطوط میں بڑے درد آمیز انداز میں ان کا ذکر کرتے تھے میر سرفراز حسین کو لکھتے ہیں۔

“وہی بالاخانہ ہے اور وہی میں ہوں سیڑھیوں پر نظر ہے کہ میر مہدی آئے وہ یوسف مرزا آئی وہ میرزایی وہ یوسف علی خان آئے میرے خدا کا نام نہیں لینا بچھڑے خوں میں سے کچھ گئے اللہ اللہ اللہ اللہ ہزاروں کا ماتم دار ہوں میں مروں کا تو مجھ کو کون روئے گا”
وہ ایک انسان دوست ہیں کہ اپنوں بیگانوں سب کے غم میں شریک ہیں انہیں صرف اپنے ہم وطنوں کی موت کا غم نہیں انگریزوں کی موت پر بھی وہ سوگوار نظر آتے ہیں۔
“انگریز کی قوم سے جو ان رو سیاہ کاروں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے ان میں کوئی میرا امید کا تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد ہندوستانیوں میں کچھ عزیز کچھ دوست کچھ معشوق سب کے سب خاک میں مل گئے ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو اس کو تو کوئی روکنے والا بھی نہ ہوگا”
غالب کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں دہلی پر کیسی قیامت ٹوٹی تھی اور وہاں کے رہنے والوں پر کیا گزری تھی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ان کی نظر سے نہیں بچی دکانوں کا منہدم ہونا کو کا بند کیا جانا سڑکوں کا چوڑا ہونا سبھی کچھ انہوں نے لکھ دیا لیکن انگریزوں کے مظالم کی داستان پوری طرح بیان نہیں ہوئی دار جیز کا خون نہ ہوتا تو ۱۸۵۷ کی دہلی کا حال ان سے بہتر کوئی اور نہیں لکھ سکتا تھا-
اوپر جن خصوصیات کا ذکر ہوا بے شک انہوں نے خطوط غالب کو ہماری زبان کے نثری ادب میں ایک اعلی مقام عطا کیا لیکن وہ شہر جس نے انھیں اردو ادب کا الفانی شاہکار بنا دیا وہ مکتوب نگار کا حسن بیان ہے۔

حسن بیان

خطوط غالب میں ایک نہیں نثر کے کئی روپ میں نظر آتے ہیں اور ہر ایک ایسا جاذب نظر بار بار پڑھیے اور لطف لیجئے کہیں زیادہ وسائل اسلوب اختیار کرتے ہیں کہیں رنگینیوں رہنے سے بیان میں دلکشی پیدا کرتے ہیں.استعارہ اور تشبیہ کا استعمال کرتے ہیں کسی خط میں مختلف عبارت نظر آتی ہے کہیں خالص علمی نثر ہے کہیں استدلالی انداز اپنایا گیا ہے کہیں افسانے کا رنگ ہے تو کہیں ڈرامے کا مہینہ خصوصیات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔

سادگی

سادگی کا اپنا ایک فن ہے کبھی کبھی سادگی ایسی پرکشش ہوتی ہے کہ بازار بناؤ سنگھار اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی یہ تھا کہ قلم اٹھایا اور خط لکھنا شروع کر دیا نہ موضوع کی تلاش نہ لفظ کی جستجو کوئی معمولی عقل مکار ہے کہ بے مزہ خصوصی نثر وجود میں آئے لیکن مصنف زبان پر قدرت رکھتا ہو تو اس کا اندیشہ نہیں غالب کا یہی معاملہ ہے ان کی قلم برداشتہ نثر میں بھی ایسی دلکشی ہے کہ معمولی درجہ کا مصنف ہزار بار صقیل کرنے اور لوگ پلک سنوارنے کے باوجود ایسی نثر لکھنے پر قادر نہیں ہو سکتا ایک خط میں مکتوبات دعا کو دعا دیتے ہیں لکھتے ہیں۔
“تمنا یہ ہے اور انشاء اللہ تعالی ایسا ہی ہو گا کہ تم جیتے رہو اور تم دونوں کے سامنے میں مر جاؤں “دعا بے اختیار دل سے نکلتی ہے یہی صورت ہے یوسف مرزا کے نام تعزیت نامہ اس کی بہترین مثال ہے.
“خزانے سے روپیہ آگیا ہے میں نے آنکھ سے دیکھا تو آنکھیں پھوٹیں بات رہ گئی خاص بندوں کو موت آ گئی دوست شاد ہوگئے ہیں جیسا ننگا بھوکا ہوں جب تک جیوں گا ایسا ہی رہوں گا”
علاء الدین علی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا انہوں نے غالب سے تاریخ نام کی فرمائش کی غالب نے جواب میں لکھا کہ میں نے اپنے بیٹے کا تاریخی نام کر دیا تھا وہ مر گیا یہ میری نحوست نہیں تو اور کیا ہے یہ کہہ کر تاریخی نام نکالنے کو منع کردیا ممکن ہے کہ یہ بہانہ مگر دلیلیں ایسی ہیں کہ قابل ہونا پڑتا ہے انداز شگفتہ ہے اور اس سے گفتگو کی کیتی مخلوق کی ظرافت کارفرما ہے جسے ذہین لطف اندوز ہوتا ہے اس سادگی میں بھی بڑی دلکشی ہے۔

مرقع کشی

شاعر لفظوں سے اپنے کلام میں کسی چیز یا کسی خالد کی تصویر کھینچ دیتا ہے یہ شاعری کا بہت بڑا کمال ہے اس کمال کا مظاہرہ نثر نگاری میں بھی کیا جاسکتا ہے غالب نہیں ختم ہے جہاں اور شعری تکبیریں سے کام لیا ہے ابھی دکھایا ہے اس کی مثال ایک تو وہ خط ہے جس میں سرفراز حسین کو لکھتے ہیں کہ۔
“وہی بالا کھانا ہے اور وہی میں ہوں سیڑھیوں پر نظر ہے کہ وہ میر مہدی آئیں وہ یوسف مرزا آئے وہ میرزایی وہ یوسف علی خان آئے تصور کا عالم ہے ایک ایک دوست کو آتے ہوئے دیکھ رہا۔”
یہ خط میں اپنی مذاقیہ خیز تصویر ان لفظوں میں کھچتے ہیں مزاحیہ خیز تو کیا کہناچاہیے۔”
“ہائے نجم الدولہ بہادر ایک قرضدار گریباں میں ہاتھ ایک بھوگ سنا رہا ہے میں ان سے پوچھ رہا ہوں حاجی خضرت نواب صاحب یہ کیا بے حرمتی ہو رہی ہے “
میر مہدی کے نام ایک خط میں ان کی ایک دوست کی لفظوں میں ایسی تصویر کھینچتے ہیں لگتا ہے کہ وہ جیتے جاگتے ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
“کل دوپہر دل ایک صاحب اجنبی سنانولے سلونے داڑھی ملے بڑی بڑی آنکھوں والے تشریف لائے تمہارا خط دیا صرف ان کی ملاقات کی تقریب میں تھا بارے ان سے پوچھا گیا فرمایا اشرف علی قومیت کا استقار ہوا معلوم ہوا سیدہی پیشہ پوچھا حکیم نکالنے یعنی خکیم میرا اشرف علی ہیں ان سے مل کر بہت خوش ہوا خوب آدمی ہیں اور کام کے آدمی ہے”

قافیہ آرائی

قافیہ کا اصل تعلق تو شاعری سے ہے لیکن سر میں بھی اس سے کام دیا جاتا رہا ہے بلکہ ہمارے قدیم نثر نگاروں نے حصہ لیا اور مخفی عبارت کا دور دورہ ہو گیا۔مخفف کا مطلب ہے وہیں بھارت جس میں کافی کا اہتمام کیا گیا ہوں مقفہ عبارت کا لکھنا ہی کچھ کم دستور نہ تھا کہ اس میں مسجع کی شرط بھی لگا دی گئی سجا کے معنی ہیں وزن جس سے بھارت کے فکرو میں وزنی سجع کا اہتمام کیا جائے وہ مسجع کہلاتی ہے مثلاً۔
“مشفق و مہربان نواب کلب علی خان کو غالب نیم جان کا سلام قبول”
اس قافیہ پیمائی نے نثر نگاروں کو ایک مشکل فن بنادیا مطلب یہ کہ نثر میں کچھ لکھوں تو کیا ہی بات لکھوں اور یہ کام لیں کا نہ ہو تو نثرنگاری سے دور رہو غالب تو شاعری کو بھی قافیہ پیمائی نہیں کہتے ہیں وہاں سے نثر کا زیور کیسے سمجھ سکتے تھے انہوں نے اسے ترک کرکے صاف سادہ اور سلیس زبان میں مکتوب نگاری کا آغاز کیا ان خطوں میں جابجا مقفہ عبارت بھی ملتی ہیں مگر کہیں تقریبا کہ مختلف علاقوں شکر کرنے کے لئے اور کہیں یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ دیکھو ہم اس فن میں بھی طاق ہیں کہ یہ استعمال ایسا ہے کی اکثر لطف دیتا ہے اس لیے یہاں ہم نے عنوان کافیہ پیمائی نہیں بلکہ قافیہ آرائیں رکھا ہے انہوں نے کہں کہیں قافیہ سے اپنی نثر کو سجایا ہے 2 4 فقرے لکھے اور سہل نگاری کے اپنے مخصوص انداز میں خط کو مکمل کر دیا یہاں کافیہ آرائ کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
“ہاہاہاہا میرا پیارا مہدی آیا مزاج تو اچھا ہے بیٹھو یہ رامپور ہے دارالسرور ہے جو لطفِ یہاں ہے وہ اور کہاں ہے “
“رات سے ایک بات اور خیال میں آتی ہے مگر چونکہ حکم کار فرمائی ہے کہتے ہوئے ڈرتا ہوں ڈرتے ڈرتے عرض کرتا ہوں یہ ہے کہ دو جلدی دلائل وہ کی ولایت تیار ہو گئی اور یہاں کے حکام کے واسطے درکار ہوں گی”

علمی نثر

اردو نثر کے فروغ میں تین بزرگوں کی کوششوں کو بڑا دخل ہے یہ ہی میرا من قالب اور سرسید یہ خیال عام ہے کہ میر امن کی نثر کا کہانی سنانے کے آگے نہیں بڑھ سکتی ہے خیریت گوئی اور عافیت جوئی کے سوا کسی کام نہیں آسکتی علمی نثر کی داغ بیل ڈالنے کا سہرا سر سید کے سر ہے مگر یہ خیال درست نہیں غالب کے خطوط میں ہر طرح کی نثر کے اولین نقوش نظر آجاتے ہیں علمی نثر سے مراد وہ زبان ہے جس میں ہر طرح کے علمی مضامین ادا کیے جاسکے اور ہر طرح کے موضوعات پر اظہار خیال کیا جاسکے خطوط غالب میں علمی نثر کی مثالیں جگہ جگہ موجود ہیں انہوں نے بہت سے خطوط میں علمی مسائل پر گفتگو کی ہے ایسے موقعوں پر علمی نثر وجود میں آئیں اپنے مستد اشعار کی وضاحت کی ہے اور ان کی باریکیوں پر روشنی ڈالی ہے غالب کا ایک شعر ہے؀

حسن حسن اور اس پر حسن ظن رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں

اس شعر کی بابت لکھتے ہیں۔
“مولوی صاحب کیا لطیف معنی ہے داد دینا جناب عرض اور حسن دو صفتیں محبوب میں جمع ہیں یعنی صورت اچھی ہے اور گمان اس کا صحیح ہے کبھی خطا نہیں کرتا اور یہ گمان اس کو بنسبت اپنے ہیں کہ میرا مارا کبھی نہیں بچتا اور میرا تیرا غم زدہ خطا نہیں کرتا بس جب اس کو اپنے اوپر ایسا بھروسہ ہے تو رقیب کا امتحان کیوں کرے حسن نے رکھی تھی شرم رکھلی ورنہ یہاں معشوق نے مغالطٰہ کھایا ہے تھا اب عشق صادق نہ تھا اور ناک آدمی تھا اگر جائے انتحان درمیان آتا تو حقیقت کھل جاتی”
یہ خالص علمی نثر کا نمونہ ہے؀

استدلالی نثر

استدلالی نثر علمی نثر کا ہی ایک روپ ہے مراد یہ کہ جو دعوی کیا جائے اسے دلیلوں سے ثابت کردیا جائے اسے استدلالی نثر کہتے ہیں میں انہیں بار بار دلیل پیش کرنی پڑی اس لیے استدلالی نثر کا موجد کا جائے گا اس کو عام کرنے میں بڑا ہاتھ ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا نقش اول پہلی بار غالب کے خطوط میں نظر آتا ہے ثبوت کے طور پر وہ خط پیش کیا جاسکتا ہے جو نواب ضیاء الدین احمد خان کے نام لکھا گیا ہے غالب ان سے دیوان مستعار مانگتے ہیں اور دلیلیں دیتے ہیں کہ تمہارے لئے اس کا دینا کیوں مناسب ہے ہر طرح یقین دلاتے ہیں کہ اس سے واپس کر دیا جائے گا بلی ملاحظہ ہوں:
‘آپ کو دیوان کے دینے میں تامل کیوں ہیں روز آپ کے مطالعے میں نہیں رہتا بغیر اس کے دیکھے آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا یہ بھی نہیں پھر آپ کیوں نہیں دیتے یہ ایک جلد ہزار جلد بن جائیں میرا کلام شہرت پائی میرا دل خوش ہو تمہاری تاریخ کا قصیدہ اہل عالم دیکھیں تمہارے بھائی کی تعریف کینسر سب کی نظر سے گزرے اتنے فوائد کیا تھوڑے ہیں؟bرہا کتاب کے تلف ہونے کا اندیشہ یہ خفقان ہے کہ اب کیوں تلف ہوگی احیاں نوں اگر ایسا ہوا اور دلی اور لکھنؤ کی عرض راہ میں ڈاک لٹ گئی تو میں فورن ایہ سبیل ڈاک رامپور جاؤں گا اور نواب فخرالدین خان مرحوم کے ہاتھ کا لکھا ہوا لیوان تم کولا دوں گا اگر یہ کہتے ہو کہ ہم وہاں سے لے کر بھیج دو وہ نہ کہیں گے کہ وہیں سے کیوں نہیں دیتے تو کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جب وہ تمہارے بھائی اور تمہارے قریب ہو کر نہیں دیتے تو میں اتنی دور سے کیوں دوں؟
اگر تم یہ کہتے ہو کہ تفصیل سے لے کر بھیج دو وہ اگر نہ دیں تو میں کیا کروں اگر دیں تو میرے کس کام کا پہلے تو نہ تمام پھر ناقص تیرے یہ کہ سراسر غلط ہر شعر غلط ہر مصرع غلط یہ کام تمہاری مدد کے بغیر انجام نہ پائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہیں،

غالب کے خطوط ہمارے ادب کا لافانی شاہکار ہیں صرف وہی ادب پارہ شکار کہلانے کا مستحق ہے جس پر کم سے کم ایک صدی گزر چکی ہو اور اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی ہو کتابیں اپنی تخلیق کے کافی بعد قارئین تک پہنچتی ہیں اور ان کی پسند و ناپسند کی کسوٹی پر کسی جاتی ہیں خط خواہم ہو یا غیر اہم کم سے کم ایک کاری یعنی مکتوب علاقہ بلاتا ہے اور اس پر قاری کی پسندگی یار ناپسندیدگی کی مہر لگ جاتی ہے غالب کا خط جب کسی مکتوبات تک پہنچتا تھا تو وہ اس سے ایک انمول سوغات سمجھ کر آنکھوں سے لگاتا تھا عزیزوں دوستوں کو دیکھا تھا اور اپنی قسمت پر ناز کرتا تھا غالب کے خطوط کو ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اس کی مثال مشکل سے ملے گی یہ مقبولیت آج تک برقرار ہے اس علماء ادب ہے کہ یہ خطوط جتنی توجہ سے مستحق تھے اتنی توجہ ان کی طرف نہیں کی گئی۔
پروفیسر آل احمد سرور کا ارشاد ہے۔
“غالب کے خطوط سے جدید نثر کا آغاز ہوتا ہے بلا خوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ خواہش پوری ہو جائے سلام کے ختم کا جواب اب تک نہ ہو سکا”
جدید اردو نثر کی تشکیل میں میر امن کے بعد دوسرا اہم نام غالب کا ہے انہوں نے ایک ایسی فریاد یہ زبان کو جو قصہ کہانی سنانے پر بھی پوری طرح عطا کی کہ وہ پچیدہ خیل عطا کرنے اور مشکل علمی موضوعات پر اظہار خیال کرنے کے قابل ہو گئی کچھ ہی دنوں بعد سر سید کے قلم نے اس زبان کو بنا دیا کہ وہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کی ہمسری کرسکے اردو زبان کو فروغ دینے کے علاوہ ان خطوط کا یہ کارنامہ کچھ کم اہم نہیں کہ ایک شہرہ آفاق شاعر کی رنگارنگ شخصیت ان صفات میں سمٹ آئی ہے سچ کہا گیا ہے کہ شاعر شخصیت کا اظہار نہیں اسے فرار ہے مطلب یہ کہ شیر شاعر کے چہرے پر نقاب ڈال دیتا ہے اسے اٹھاتا نہیں ہے جو اس نکاح کو ہٹا سکتا ہے یہ تو تم نہ ہوتے تو غلط کئی پہلو دار اور پرپیچ شخصیت کبھی ہم پر منکشف نہ ہوتی ان خطوط کی یہ خصوصیت بھی نہایت اہم ہے کہ ان میں غالب کا عہد عہد غالب کی دم توڑتی ہوئی تہذیب اس کی ناک سے جنم لیتی ہوئی ایک نئی دنیا اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہمارے پیش نظر ہو جاتی ہے یہ خطوط ہمارے لئے سرمایہ ہیں ان انبساط بھی ہیں اور ذخیرہ معلومات بھی۔

بنام منشی ہرگوپال تفتہ

کیوں صاحب؛ روٹھے ہی رہو گے یا کبھی منو گے بھی؟اور اگر کسی طرح نہیں مانتے تو روٹھنے کی وجہ تو لکھو میں اس تنہائی میں صرف خطوں کے بھروسے جیتا ہوں یعنی جس کا خط آیا میں نے جانا کہ وہ شخص تشریف لایا خدا کا احسان ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جو اطراف و جوانب سے دوچار خط نہیں آتے رہتے ہوں بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو دو بار ڈاکہ خرکاراں خط لکھا ہے ایک تو صبح کو 12 شام کو میری دل لگی ہو جاتی ہے دن ان کے پڑھنے اور جواب لکھنے میں گزر جاتا ہے یہ کہا سبب دس دس دن بارہ بارہ دن سے تمہارا خط نہیں آیا یعنی تم نہیں آئے خط لکھوں صاحب نہ لکھنے کی وجہ لکھو آجانے میں بخل نہ کروں ایسا ہی ہے تو بے رنگ بھیجو۔
سوموار ۲۸ دسمبر ۱۸۵۷ء۔ غالب

*بانام منشی ہر گوپال تفتہ*
یہاں،
تمہارے انتقالات ذہن نے مارا میں نے کب کہا تھا کہ تمہارا کلام اچھا نہیں میں نے کب کہا تھا کہ دنیا میں کوئی سخن فہم و دانش نہ ہوگا مگر بات یہ ہے کہ تم مشق سخن کر رہی ہو اور میں مشق فنا میں مستغرق ہوں بو علی سینا کے علم کو اور زیریں کے شیر کو زیا اور بے فائدہ اور موہوم چاہتا ہوں زیست بسر کرنے کو کچھ تھوڑی سی راحت درکار ہے اور باقی حکومت اور سلطنت اور شاعری اور میری ساحری سب خرفات ہے ہندوؤں میں اگر کوئی اوتار ہوا تو کیا اور مسلمانوں میں نبی بنا تو کیا دنیا میں نام اور ہوے تو کیا اور اور گمنام جیسے تو کیا کچھ وجہ ماش ہو تو کچھ صحت جسمانی باقی سب مہیں ہے یار جانی ہر چند دی وہم ہے مگر میں ابھی اسی لیے شاید آگے بڑھ کر یہ پردہ بھی اٹھ جائے اور وجہ معیشت اور صحت سے بھی گذر جاوں عالم بے رنگی میں گزر پاؤں جس سے میں ہوں وہاں تمام عالم بلکہ دونوں عالم کا پتہ نہیں ہر کسی کا جواب مطابق سوال کے دیئے جاتا ہوں اور جس سے جو معاملہ ہے اس کو ویسا ہی برکت رہا ہوں لیکن سب کو ہم جانتا ہوں یہ دریا نہیں ہے سراب ہے ہستی نہیں ہیں پندار ہے ہم تم دونوں اچھے خاصے شاعر ہیں مانا کے ساتھیوں حافظ کے برابر مشہور رہیں گے ان کو شہرت سے کیا حاصل ہوا کہ ہم تم کو ہو گا
روز روزنامہ بعد خواندان نوشتہ شی شدیک شنبہ۔
ازغالب۔

*بنام منشی ہرگوپال تفتہ*
صاحب تمہارا خط آیا میں نے اپنے سب مطالب کا جواب آیا امروز سنگھ کے حال پر اس کی مستی مجھ پر رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دوبارہ ان کی بیڑیاں کر چکی ہیں ایک ہم ہیں کہ ایک اوپر پچاس برس سے جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے تو نہ پھندہ ہی ٹوٹتا ہے نا دم ہی نکلتا ہے اس کو سمجھاؤ کہ میں تیرے بچوں کو پال لونگا تو کیوں بھلا میں پھنستا ہے؟
مجھ کو دیکھو نہ آزاد ہو نہ مقید ہو نہ رنجور ہوں نہ تندرست نہ خوش ہوں نہ نا خوش نہ مردہ ہوں نہ زندہ ہوں باتیں کئے جاتا ہوں روٹی روزہ کھاتا ہوں شراب گاہے گاہیے پیے جاتا ہوں جب موت آئے گی مر جاؤں گا نا شکر ہے نہ شکایت جو تقریر ہے بہ سبیل حکایت بارے جہاں رہو جس طرح وہ ہر ہفتے میں ایک بار خط لکھا کرو ۔
یک شنبہ ١٩/دسمبر ١٨٥٨ء۔ غالب
*بنام منشی ہرگوپال تفتہ *
اجی مرزا تفتہ
تم نے روپیہ بھی کھویا اور اپنی فکر اور میری اصلاح کو بھی ڈبویا ہائے کیا بری کافی ہے اور اس کاپی کی مثال جب تم پر چلتی کہ تم یہاں ہوئے بیگمات قلعہ کو چلتے پھرتے دیکھتے صورت ماں دو ہفتہ کیسی اور کپڑے میلے پانچے پرپر جوتی ٹوٹی یہ مبالغہ نہیں بلکہ بے تکلف “سنبلتان” ایک معشوق خوب روپیے بد لباس ہے۔
بہرحال دونوں لڑکوں کو دونوں جلدیں دے دیں اور معلم کو حکم دے دیا کہ اسی کا سبق دے چنانچہ آج سے شروع ہو گیا۔
مرقومہ صبح سہ شنبہ ١٩/ماہ اپریل ١٨٦١ء

غالب
*بنام ۵)۔ *میر مہدی مجروح*
ہاں صاحب کیا چاہتے ہو آپ اور کیا لکھوں تم میرے ہم عمر نہیں جو سلام لکھوں میں فقیر نہیں جو دعا لکھوں تمہارا دماغ چل گیا ہے لفافے کو کریدا کروں مسودے کو بار بار دیکھا کرو پآؤ گے کیا؟ یعنی تم کو وہ محمد شاہی روشیں پسند ہیں یہاں خیریت ہے.وہاں کی آفیت مطلوب ہیں خط تو مارا بہت دن کے بعد پہنچا جی خوش ہوا.
۔۔۔۔۔کیوں سچ کہو اگر روکے خطوں کی تحریر کیجۓ ترستی ہائے اچھا شیوہ ہے جب تک کیوں نہ لکھوں وحشت ہے ہے ابر باراں ہی نہ خریدے میں واقع ہے خانہء بے چراغ ہے چراغ نور ہے ہم جانتے ہیں تم زندہ ہو تم جانتے ہو ہم زندہ ہیں امر ضروری ہے میری لکھ لیا یا تو وہ خود رکھو اور وقت پر محفوظ رکھا اور اگر تمہاری خوشنودی اسی طرح کی نگارش پر منحصر ہے تو بھائی ساڑھے تین سطریں ویسی بھی میں نے لکھ دیں کیا قفا نہیں پڑھتے اور مقبول نہیں ہوتی؟
یکم شنبہ ٢٢/ستمبر١٨٦١ء۔ غالب
٦) *بنام میر مہدی مجروح:-
اہاہاہاہا، میرا پیارا مہدی آیا۔ او بھائی۔مزاج تو اچھا ہے۔بیٹھو یہ رام پور ہے دارالسرور ہے جو لطف یہاں ہے وہ اور کہاں ہیں سبحان اللہ شہر سے تین سو قدم پر ایک دریا ہے اور اس کا نام کوسی ہے بے تبہ چشمہ آب حیات کی کوئی سوت اس میں ملی ہے خیر اگر یوں بھی ہے تو بھائی اب حیات عمر بڑھاتا ہے لیکن اتنا شیریں کہاں ہوگا۔
تمہارا خط پہنچا کر دو بس میرا مکان ڈاک گھر کے قریب اور ڈاک منشی میرا دوست نہ صرف لکھنے کی حاجت نہ محلے کی حاجت بے وسواس خط بھیج دیا کیجئے اور جواب لیا کیجئے یہاں کا حال سب طرح خوب ہے اور صحت مرغوب ہے۔ اس وقت تک مہمان ہوں۔دیکھو کیا ہوتا ہے؟تعظیم و توقیر میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہے لڑکے دونوں میرے ساتھ آئے ہیں اس وقت اس سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
فروری ١٨٦٠ء۔ ازغالب
٧) *بنام مرزا خاتم علی مہر*
مرزا صاحب
آپ کا غم فزا نامہ پہنچا میں نے پڑھا۔ یوسف علی خان عزیز کو پڑھوا دیا انہوں نے جو میرے سامنے اس مرحومہ کا اور آپ کا معاملہ بیان کیا یعنی اس کی اطاعت اور تمہاری اس سے محبت سخت ملال ہوا اورنج کمال ہوا۔
سنو صاحب شعرا میں فردوسی اور فقرا میں حسن بصری اور عشاق میں مجنوں یہ تین آدمی تین فن میں سرِ فتر ا اور پیشوا ہیں۔شاعر کا کمال یہ ہے کہ فردوسی ہو جائے فقیر کی انتہا یہ ہے کہ حسن بصری سے ٹکر کھائے عاشق کی نمود یہ ہے کہ مجنوں کی ہم طرحی نصیب ہو لیلی اس کے سامنے مری تھی، تمہاری محبوبہ کے سامنے مری بلکہ تم اس سے بڑھ کر ہونے کے لیلی اپنے گھر میں اور تمہاری معشوق تمہارے گھر میں مری۔
بی مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں جس پر مرنے میں اسی کو مار مار رکھتے ہیں عمر بھر میں ایک بڑی ستم پیشہ ڈومنی کو میں نے بھی مار رکھا ہے خدا ان دانوں کو بخشے اور ہم تم دونوں کی بھی کے زخم مرکز دوست کھائے ہوئے ہیں مغفرت کرے
چالیس برس کا یہ واقع ہے بانکہ یہ کوچہ چھوٹ گیا۔اس فنسی میں بھی کھانا محض ہوگیا ہوں لیکن اب بھی کبھی کبھی وہ ادائیں یاد آتی ہیں اس کا مرنا زندگی بھر نہیں بھولوں گا جانتا ہوں کہ تمہارے دل پر کیا گزرتی ہوگی صبر کرو اور اب ہنگامہ عشق مجازی چھوڑو۔
غالب..
٨) *بنام مرزا خاتم علی مہر*
مرزا صاحب،
میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزار کوس سے۔ بزبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو کیا تم نے مجھ سے بات کرنے کی قسم کھائی ہے اتنا تو کہوں کیا بات تمہارے جی میں آئی ہے برسوں ہوں گے کہ تمہارا خط نہیں آیا۔
میرا کلام میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا تو اب بی الدین خان اور نواب حسین مرزا جمع کر لیتے تھے جو میں نے کہا انہوں نے لکھ لیا ان دونوں کے گھر لوٹ گئے ہزاروں روپے کے کتب خانے برباد ہوگئے اب میں اپنا کلام دیکھنے کو ترستا ہوں کہیں دن ہوئے کہ ایک فقیر کے خوش آواز بھی ہے۔

اور زمزمہ پرداز بھی ایک غزل میری کہیں سے لکھوا لایا اس نے جو وہ کاغذ مجھ کو دکھایا یقین سمجھنا کہ مجھ کو رونا آیا غزل تم کو بھیجتا ہوں اور اس سلسلے میں اس خط کا جواب چاہتا ہوں۔

٩) امین الدین خان کی والدہ کے انتقال پر
بھائی صاحب
آج تک سوچتا رہا کہ بیگم صاحبہ کی بلا کے انتقال کے بارے میں تم کو کیا لکھوں تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں اظہار غم تلقین صبر اور دعائے مغفرت تو اظہار غم تکلف محض ہے جو غم تم کو ہوا ممکن نہیں کسی دوسرے کو خواہ و تلقین صبر کر دی ہے اور نہ ہی دعائے مغفرت تو میں کیا اور میری دعا کیا لیکن چونکہ وہ میری مربیہ اور میری محسنہ تھی دل سے دعا نکلتی ہے

١٠) بنام یوسف مرزا

یوسف مرزا،
کیوں کر لکھو کہ تیرا باپ مر گیا اور اگر لکھوں تو پھر آگے کیا لکھوں کیا کرو مگر صبر یہ ایک شیوہ فرسودہ ابناے روزگار کا ہے تعزیت یوں ہی کیا کرتے ہیں اور یہی کیا کرتے ہیں کہ صبر کرو ہائے ایک کا کلیجہ کٹ گیا اور لوگ اسے کہتے ہیں کہ نہ تڑپ بھلا کیوں کر نہ تڑپے گا صلاح اس عمل میں نہیں بتائی جاتی دعا کو دخل نہیں دوا کا لگاؤ نہیں۔پہلے بیٹا مرا، پھر باپ مرا، مجھ سے کوئی پوچھے کہ بی سروپا کس کو کہتے ہیں تو میں کہوں گا یوسف مرزا کو، تمہاری دادی لکھتی ہیں کی رہائی کا حکم ہو چکا تھا یہ بات سچ ہے اگر سچ ہے تو تو جواغر دایک بار دونوں قیدوں سے چھوٹ گیا،نہ قید حیات رہی نہ قید فرنگ۔
مرقومہ شنبہ 27/ شوال ١٢٧٦ھ ١٩ می سال حال١٨٦٠ء۔ غالب

١١) بنام علاء الدین احمد خان علای

لو صاحب، وہ مرزا رجب علی مری ان کی تعزیت آپ نے نہ کی شعبان بیگ پیدا ہو گے کل ان کی چھٹی ہوگی آپ شریک نہ ہوئے
میاں،خدا جانے کس طرح یہ چار سطرح تجھ کو لکھی ہیں شہاب الدین خان کی بیماری نے میری زیست کا مزا کھو دیا۔میں کہتا ہوں کہ اس کے عوض میں مر جاؤں اللہ اس کو جیتا رکھیں اس کا داغ مجھ کو نہ دیکھاے یا رب اس کو صحت دے یارب اس کی مرادیں تین بچے ہیں ایک پیدا ہونے والا ہے ابھی اس کو اس کی اولاد کی ہے سر پر سلامت رکھ
٧ شعبان ١٢٨١ھ۔ نجات کا طالب
٥ جنوری ١٨٦٥ھ۔ غالب۔ ۔

غالب کی مکتوب نگاری کا خلاصہ

• مرزا غالب کی خطوط ہیں ان کی اردو نثر نگاری کا سرمایہ ہے

• کاظم علی جوان کے مطابق خطوط غالب کی تعداد ٨٧٣ اور مکتوب الہیم کی تعداد ٩٠ ہے

• خلیق انجم کے مطابق خطوط غالب کی تعداد 886 اور مکتوب الہم کی تعداد ٩٢ ہے

• غالب نے سب سے زیادہ خطوط تفتہ منشی مرزا ہرگوپال کے نام لکھے تھے جس کی تعداد 123 ہے

• خطوط غالب کا بے تکلف انداز بیان اور بزلہ سنجی بیک نظر متاثر کرتی ہے

• مرزا غالب نے اپنے خطوط نگاری کے متعلق لکھا ہے کہ میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے ہزار کوس بزبان قلم باتیں کیا کرو ہجر میں وصال کے مزے لے لیا کرہ

• غالب اپنے خطوط میں لمبے چوڑے اور کار کی بجائے مختصر القاب استعمال کرتے ہیں جیسے بھائی, برخودار, میری جان, جان غالب صاحب, معراج ,بند ہیرو اور کیوں صاحب قبلہ و کعبہ وغیرہ

• غالب کے خطوط سے ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے

•خطوط غالب سے ١٨٥٧ کی غدر کے واقعہ اور بغاوت کو سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ غالب نے اپنے خطوط میں اپنے عہد کی سچی تصویر کشی کی ہے

•غالب اپنے خط میں بطور مزاح لکھتیہ یں سیہ گھڑی بھر برسے تو چھٹ گھنٹہ کر برسے کہیں لگن دھرا ہے تو کہیں چلمچی خط لکھوں تو کہاں بیٹھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ روٹی کھاتے ہیں میں کپڑا کھاتا ہوں

•خواجہ احمد فاروقی نے خطوط غالب کے بارے میں لکھا ہے کہ “حاکم بدہن اگر دیوان غالب نہ ہوتا اور صرف خطوط غالب ہوتے تو بھی غالب غالب ہی رہتے ہیں”

*کتابیات*

١ غالب شاعر ومکتوب نگار نور الحسن نقوی ۲ یادگار غالب۔ الطاف حسین حالی