سورج اور چاند گرہن کی حقیقت

سورج گرہن اور چاند گرہن اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں، یہ ظاہر کرنے کے لیے جو قادرِ مطلق اللہ تعالی سورج سے روشنی دیتا ہے اور چاند سے چاندنی دیتا ہے وہی اللہ تعالی ان کو ماند کردینے پر بھی قادر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آپ ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد سورج گرہن ہوگیا۔ اس زمانے میں لوگوں کا خیال یہ تھا کہ سورج گرہن کسی بڑے آدمی کی وفات یا پیدائش کی وجہ سے ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی آپ ﷺ کے بیٹے کی وفات پر ہوا تو آپﷺ نے اس عقیدے کی نفی فرمائی۔

“بخاری شریف ” میں ہے:
” حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“۔

لہذا چاند گرہن اور سورج گرہن کے وقت ہمیں تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات کے مطابق اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر نماز، دعا اور استغفار میں مشغول ہونا چاہیے۔

”حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فزعاً، يخشى أن تكون الساعة، فأتى المسجد، فصلى بأطول قيام وركوع وسجود مارأيته قط يفعله، وقال: «هذه الآيات التي يرسل الله، لا تكون لموت أحد ولا لحياته، ولكن يخوف الله به عباده، فإذا رأيتم شيئاً من ذلك، فافزعوا إلى ذكره ودعائه واستغفاره»”۔
(صحيح البخاري (2/ 39))

چاند گرہن کی نماز

چاند گرہن کو “خسوف” کہتے ہیں ، اور چاند گرہن کے وقت دو رکعت نماز دیگر نوافل کی طرح انفراداً پڑھنا مسنون ہے۔ اس میں جماعت مسنون نہیں ہے، اس کا طریقہ عام نوافل کی طرح ہے، کسی بھی اعتبار سے فرق نہیں، سوائے اس کے کہ نیت “صلاۃ الخسوف” کی ہوگی۔
الفتاوى الهندية (1/ 153)
” يصلون ركعتين في خسوف القمر وحداناً، هكذا في محيط السرخسي”۔

سورج گرہن کی نماز

اور سورج گرہن کو “کسوف” کہتے ہیں۔ سورج گرہن کے وقت بھی دو رکعت نماز پڑھنا مسنون ہے، ہاں اگر تنہا پڑھ رہا ہو تو دو سے زیادہ بھی (چار، چھ )جتنی چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔

اس کی نماز کا بھی وہی طریقہ ہے جو عام نوافل کا ہے۔ اگر حاضرین میں جامع مسجد کا امام موجود ہو تو “کسوف” یعنی سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے، اور اس نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں ہے۔ اگر لوگوں کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے جمع کرنا مقصود ہو تو اعلان کردیا جائے، نیز اس نماز میں سورۂ بقرہ یا اس جیسی بڑی سورتیں پڑھنا یعنی طویل قراءت اور لمبے لمبے رکوع اور سجدے کرنا مسنون ہے، اور اس نماز میں قراءت آہستہ آواز سے کی جائے گی، نماز کے بعد امام دعا میں مصروف ہوجائے اور سب مقتدی آمین آمین کہیں، یہاں تک سورج گرہن ختم ہوجائے۔

ہاں اگر ایسی حالت میں سورج غروب ہوجائے یا یا کسی نماز کا وقت ہوجائے تو دعا ختم کرکے وقتی فرض نماز میں مشغول ہوجانا چاہیے۔اسی طرح مکروہ اوقات میں سورج گرہن ہوجائے تو یہ نماز نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ صرف دعا کرلی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 181، 182)
”(يصلي بالناس من يملك إقامة الجمعة)، بيان للمستحب، وما في السراج:لا بد من شرائط الجمعة إلا الخطبة، رده في البحر، عند الكسوف (ركعتين)، بيان لأقلها، وإن شاء أربعاً أو أكثر، كل ركعتين بتسليمةٍ أو كل أربع، مجتبى، وصفتها: (كالنفل) أي بركوع واحد في غير وقتٍ مكروهٍ، (بلا أذان و) لا (إقامة و) لا (جهر و) لا (خطبة)، وينادي: الصلاة جامعة؛ ليجتمعوا، (ويطيل فيها الركوع) والسجود (والقراءة) والأدعية والأذكار الذي هو من خصائص النافلة، ثم يدعو بعدها جالساً مستقبلَ القبلة أو قائماً مستقبل الناس والقوم يؤمِّنون، (حتى تنجلي الشمس كلها، وإن لم يحضر الإمام) للجمعة (صلى الناس فرادى) في منازلهم تحرزاً عن الفتنة، (كالخسوف) للقمر ۔
(قوله: من يملك إقامة الجمعة)، وعن أبي حنيفة في غير رواية الأصول: لكل إمام مسجد أن يصلي بجماعة في مسجده، والصحيح ظاهر الرواية: وهو أنه لا يقيمها إلا الذي يصلي بالناس الجمعة، كذا في البدائع، نهر۔ (قوله: بيان للمستحب) أي قوله: يصلي بالناس بيان المستحب، وهو فعلها بالجماعة، أي إذا وجد إمام الجمعة، وإلا فلا تستحب الجماعة، بل تصلى فرادى؛ إذ لا يقيمها غيره كما علمته، (قوله: رده في البحر) أي بتصريح الإسبيجابي بأنه يستحب فيها ثلاثة أشياء: الإمام، والوقت أي الذي يباح فيه التطوع، والموضع أي مصلى العيد أو المسجد الجامع. اهـ. قوله: الإمام أي الاقتداء به. وحاصله: أنها تصح بالجماعة وبدونها، والمستحب الأول، لكن إذا صليت بجماعة لا يقيلها إلا السلطان ومأذونه كما مر أنه ظاهر الرواية، وكون الجماعة مستحبةً، فيه رد على ما في السراج من جعلها شرطاً كصلاة الجمعة، (قوله: عند الكسوف)، فلو انجلت لم تصل بعده، وإذا انجلى بعضها جاز ابتداء الصلاة، وإن سترها سحاب أو حائل صلى؛ لأن الأصل بقاؤه، وإن غربت كاسفةً أمسك عن الدعاء وصلى المغرب، جوهرة۔ (قوله: وإن شاء أربعاً أو أكثر إلخ) هذا غير ظاهر الرواية، وظاهر الرواية هو: الركعتان ثم الدعاء إلى أن تنجلي، شرح المنية.
قلت: نعم في المعراج وغيره: لولم يقمها الإمام صلى الناس فرادى ركعتين أو أربعاً، وذلك أفضل، (قوله: أي بركوع واحد) وقال الأئمة الثلاثة: في كل ركعة ركوعان، والأدلة في الفتح وغيره، (قوله: في غير وقت مكروه)؛ لأن النوافل لا تصلى في الأوقات المنهي عن الصلاة فيها، وهذه نافلة، جوهرة”۔

محمد اشرف قاسمی استاد دارالعلوم رشیدیہ بڑوت