افسانہ کا آغاز و ارتقاء

0

اردو میں مختصر افسانہ مغرب کے اثرات کی دین ہے۔ نثری ادب میں اردو افسانے کو انگریزی ادب کے ذریعے متعارف کرایا گیا۔اگرچہ کہ اس کی عمر زیادہ طویل نہیں ہے مگر پھر بھی مختصر سے عرصے میں نثری ادب کی اس صنف نے دوسری اصناف کی طرح اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔

ویسےتو صنف افسانہ اردو ادب کے لیے بیسویں صدی میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس سے یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اس سے پہلے قصے کہانیوں کا رواج نہیں تھا۔یہ روایت باقاعدہ طور پر نثری داستانوں کی شکل میں موجود تھی۔ان میں زیادہ تر مافوق الفطری عناصر کی بھرمار ہوتی تھی اور داستانوں کے پلاٹ بڑے وسیع اور پیچیدہ ہوتے تھے۔داستانوں کے زمانے میں چونکہ زیادہ مصروفیت نہیں تھی اور داستانوں کے علاوہ وقت گزاری کا کوئی ذریعہ نہ تھا چنانچہ اس زمانے میں اس طرح کے طویل قصے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔لیکن جیسے جیسے سائنس نے ترقی کی، انسان کی مصروفیات بڑھتی گئیں اور آہستہ آہستہ غیر فطری قصے اپنی دلچسپی کھونے لگے اور حقیقت پر مبنی قصے اور کہانیاں منظر عام پر آنے لگیں جنہیں ناول اور اس کے بعد مختصر افسانے کے روپ میں پیش کیا جانے لگا۔

جہاں تک تاریخی ارتقاء کے پس منظر میں افسانے کا سوال ہے تو اس سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں۔کچھ نقاد پریم چند کو اردو کا پہلا افسانہ نگار مانتے ہیں اور کچھ کا خیال ہے کہ پریم چند سے قبل ہی اس نثری صنف آغاز ہوگیا تھا۔کچھ نقادوں کے نزدیک اس نثری صنف کو اردو میں سجاد حیدر یلدرم نے روشناس کرایا تھا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری اس سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں:
“اردو کے پہلے افسانہ نگار پریم چند نہیں سجاد حیدر یلدرم ہیں ۔اردو کا پہلا افسانہ پریم چند کا ‘دنیا کا سب سے انمول رتن‘ نہیں بلکہ یلدرم کا ‘نشے کی پہلی ترنگ‘ ہے”


ڈاکٹر صادق اپنے خیالات یوں پیش کرتے ہیں”اردو افسانے کا آغاز ١٨٧٠ء کے لگ بھگ اس وقت ہوتا ہے جب سر سید کے ہاتھوں ‘گزرا ہوا زمانہ‘ وجود میں آیا جسے اردو کا اولین افسانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔جدید تحقیق کے مطابق خدیجہ نصیر‘ کو اردو کا پہلا افسانہ کہا گیا۔اس سلسلے میں پروفیسر بیگ نے بتایا ہے کہ ‘خدیجہ نصیر‘ میں پہلی بار افسانے کے نقوش مل جاتے ہیں۔

بہرحال سید سرسید یا یلدرم کے ہاتھوں اس صنف کا آغاز ہوا اس بحث سے یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس صنف کی باقاعدہ طور پر آبداری اور اس کی سمت و رفتار کو متعین کرنے کا کام پریم چند کے ہاتھوں انجام پایا۔

اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں سب سے اہم نام پریم چند کا ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے کے لئے راہیں ہموار کیں۔اس لیے پریم چند کو ہی اردو افسانے کا موجد قرار دیا جاسکتا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح ایڈگر ایلن پو کو مغربی مختصر افسانے کا مؤجد قرار دیا جاتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ پریم چند سے پہلے بھی بہت سے ادیبوں نے افسانے لکھے لیکن وہ افسانے فنی لوازم کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔

پریم چند نے اپنے افسانوں میں اصلاح معاشرہ اور اس دور کے معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی روایت دراصل انہی سے شروع ہوتی ہے۔پریم چند اپنے ابتدائی دور میں داستانوں سے متاثر رہے چناچہ ان کے ابتدائی دور کے افسانوں میں داستانوی رنگ ملتا ہے۔اپنے پہلے افسانوی مجموعے ‘سوز وطن‘ میں وہ زیادہ جذباتی نظر آتے ہیں۔دوسرے دور میں پریم چند نے اپنے ماضی کی عظمت کا احساس دلانے کے لیے پریم پچیسی، پریم بتیسی، اور پریم چالیسی کے افسانے لکھے۔ان افسانوں میں ہندو راجپوتوں کی عظمت و شجاعت کو پیش کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں حب وطنی کا احساس پیدا کیا۔

پریم چند کی افسانہ نگاری کا تیسرا دور اصلاحی ہیں اور سیاسی ہے اس دور میں “نجات، نمک کاداروغہ، سوتیلی ماں، بڑےگھرکی بیٹی، شطرنج کی بازی” وغیرہ افسانے لکھے۔ان افسانوں میں پریم چند نے متوسط طبقہ کے ہندو گھرانوں اور ہندوستانی دیہاتوں کی معاشی، تاریخی، اور سیاسی زندگی کی بہترین تصویر پیش کیں۔
مختصراً پریم چند نے ہر موضوع پر افسانے لکھے پریم چند نے اپنے فن کو کسی طلسم یا تصوراتی دنیا سے وابستہ نہیں کیا۔انہوں نے ہندوستانی عوام کی زندگی کے ہر پہلو کو موضوع بنایا۔یہاں تک کہ دیہات میں رہنے والے 90 فیصد عوام اور ان کے مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔اس طرح پریم چند کے افسانوں کو مسائلی افسانوں کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔’سوزوطن‘ سے لے کر ‘واردات‘ تک کے افسانوں میں ہندوستانی عوام کے مسائل پیش کیے۔ان مسائل کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے حقیقت نگاری کو ضرور پیش نظر رکھا۔

اس کے بعد ١٩٣٢ء میں افسانوں کا ایک مجموعہ ‘انگارے‘ کے نام سے شائع ہوا اس میں رشید جہان،احمد علی،سجاد ظہیر،اور محمودالظفر کے افسانے شامل تھے۔یہ اس مقصد سے لکھے گئے کہ سماج کی مروجہ قدروں پر چوٹ کی جائے۔ان کا رویہ جارحانہ اور سنسنی خیز تھا جنسی معاملات میں ان افسانہ نگاروں نے بہت بے باکی سے کام لیا تھا۔

١٩٣٦ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوجاتا ہے اور ادب کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش سے افسانے کی مقصدیت میں نئی جان پڑ جاتی ہے۔اسی زمانے میں روسی اور فرانسیسی افسانہ نگاروں خصوصاً چیخوف، ترگنیف، موپاساں،زولا اور فلابیر سے واقفیت فراہم ہوئی اور اسی زمانے میں فرائیڈ کے نظریات عام ہوئے اور جنسی موضوعات شجر ممنوعہ نہ رہے۔

اس زمانے میں افسانہ نگاروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی، حسن عسکری، اور ممتاز مفتی نے کافی مقبولیت حاصل کی ۔پھر قرۃالعین حیدر، انتظار حسین، ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کا زمانہ آیا۔اس زمانے میں افسانہ نگاروں کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ افسانے میں نئے موضوعات بھی داخل ہوئے۔

کرشن چندر کے موضوعات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ بھی۔ان کے ہاں رومانیت اور حقیقت نگاری کی آمیزش بھی ملتی ہے اور طنزو مزاح کی چاشنی بھی۔آزادی سے پہلے ان کے جن افسانوں نے شہرت پائی ان میں “زندگی کے موڑ پر’ ‘کالو بھنگی’ اور ‘انداتا”شامل ہیں۔
بیدی کا لہجہ دھیما ہے اور چیخوں سے مماثلت رکھتا ہے گھریلو زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کا انتخاب کرتے ہیں۔”دانہ ودام” “کوکھ جلی” نے خاصی مقبولیت حاصل کی۔منٹو نے جنسیات کو اپنا موضوع بنایا اور “ٹھنڈا گوشت’ ‘کالی شلوار’ ‘میرا نام رادھا ہے’ جیسے جنسی افسانے لکھے۔
عصمت نے متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کو موضوع قرار دے کر افسانے لکھے۔”چوتھی کا جوڑا’، چھوئ موئ، بھول بھلیاں، تل، اور لحاف،” ان کے مشہور افسانے ہیں۔حسن عسکری ممتاز مفتی اور عزیز احمد نے بھی جنسی موضوعات پر لکھا۔

ملک تقسیم ہوا اور چاروں طرف فسادات ہوئے تو افسانہ نگار بھی اس خونی حادثے کی طرف متوجہ ہوئے۔کرشن چندر نے ” ہم وحشی ہیں” ،حیات اللہ انصاری نے ” شکستہ گنگورے” منٹو نے “ٹوبہ ٹیک سنگھ” عصمت نے “جڑیں” انتظار حسین نے “اجودھیا”  قرۃ العین حیدر نے “جلاوطن” جیسے افسانے لکھے۔اپنے چاروں طرف تباہی اور ابتری دیکھ کر فنکار نے اپنے اندرون میں پناہ تلاش کی۔تقسیم ملک کے بعد جو افسانہ نگار ابھرے ہیں ان میں قاضی عبد السّتار،غیاث احمد گدی،جوگندر پال،اقبال متین،بلراج مینرا،انور عظیم اور انور سجاد نے کافی شہرت پائی۔ان سب ادیبوں کی کوششوں سے اردو افسانہ آج بھی زندگی کے قریب نظر آرہا ہے اور پھر سے قابل فہم ہو تا جا رہا ہے۔

Mock Test 11

افسانہ کا آغاز و ارتقاء 1