Advertisement
Advertisement
گو جوانی میں تھی کجائی بہت
پر جوانی ہم کو راس آئی بہت
Advertisement
زیر برقع تو نے کیا دکھلا دیا
جمع ہیں ہر سو تماشائی بہت
آہٹ پہ اس کی اور پس جاتے ہیں دل
راس ہے اس کو خود آرائی بہت
Advertisement
چور تھا زخموں میں اور کہتا تھا حر
راحت اس تکلیف میں پائی بہت
Advertisement
آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
وصل کے ہو ہو کے سامان رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
Advertisement
جانثاری پر وہ بول اٹھے مری
ہیں فدائی کم، تماشائی بہت
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
کردیا چپ واقعات دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت
گھٹ گئی خود تلخیاں ایام کی
پاگئی کچھ بڑھ شکیبائی بہت
Advertisement
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئ میں ہے رسوائ بہت
Advertisement