گو جوانی میں تھی کجائی بہت
پر جوانی ہم کو راس آئی بہت

زیر برقع تو نے کیا دکھلا دیا
جمع ہیں ہر سو تماشائی بہت

آہٹ پہ اس کی اور پس جاتے ہیں دل
راس ہے اس کو خود آرائی بہت

چور تھا زخموں میں اور کہتا تھا حر
راحت اس تکلیف میں پائی بہت

آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

وصل کے ہو ہو کے سامان رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت

جانثاری پر وہ بول اٹھے مری
ہیں فدائی کم، تماشائی بہت

ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت

کردیا چپ واقعات دہر نے
تھی کبھی ہم میں بھی گویائی بہت

گھٹ گئی خود تلخیاں ایام کی
پاگئی کچھ بڑھ شکیبائی بہت

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئ میں ہے رسوائ بہت