🌺 صدائے دل ندائے وقت🌺
صنف نازک: آج بھی یہی حقیقت ہے

صنف نازک خدا تعالیٰ کی عظیم مخلوق ہے، انہیں سے دنیا کی رعنائی، دلفریبی اور دلکشی ہے، وہ باغ کا گلاب، سر کا تاج اور اوج تخلیق ہیں، احسن تقویم کی بہترین مثال، اور قدرت الہی کی شاہکار ہیں، وہ مردوں سے کم نہیں، وہ اپنے آپ میں ایک مکمل وجود اور مردوں کیلئے باعث تکمیل ہیں، ان کا دل اگر درست ہو، تربیت اگر عمدہ ہو، ثقافت و تمدن نے انہیں چھوا ہو اور سب سے بڑھ کر اگر ان میں دینداری کا عنصر پایا جاتا ہو تو انہیں دنیا و مافیھا سے بہتر ماننا چاہئیے، لیکن موجودہ دور ہو یا پھر قدیم تاریخ کا کوئی ورق ہو کہیں ایسا نہیں لگتا کہ عورت کے ساتھ عدل ہوا ہے، اسے سماج اور معاشرہ میں وہی مقام ملا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔

زمانہ جاہلیت میں یہ بحث تھی کہ عورت کس نوعیت کی مخلوق ہے، آیا وہ انسان ہے بھی یا نہیں؟ اسے مردوں کیلئے سامان تفریح کے سوا کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا، تو کیا آج صورت حال بدل گئی ہے؟ مغرب کی چکاچوندھ میں وہ تاریکی اب بھی قائم ہے، ترقی یافتہ ممالک کی خوبصورتی میں یہ بدصورتی اب بھی باقی ہے، آج بھی دنیا نے عورت کو تفریح طبع کا ایک آلہ سمجھا ہوا ہے، چنانچہ ہر صاحب علم کو معلوم ہوگا کہ دنیا کی سب سے بڑی منڈی خواہشات کی ہے، صنف نازک کی سپلائی اور انہیں سڑکوں سے اٹھا کر غیر مردوں کی بستر پر لیجانے کی ہے۔

امریکہ کی ترقی کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اس نے ہتھیار بیچے، اور منشیات کی اسمگلنگ کا ایک ایسا دور شروع کردیا کہ آج پوری دنیا اس کی چپیٹ میں ہے، تو وہیں خواہشات کا بازار گرم کیا گیا، پورنوگرافی کی شرح بڑھائی گئی، پیسے کی چمک اور اعلی طرز زندگی، بہتر لائف اسٹائل کی خاطر عورتوں کو ایک آسان ہتھیار بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ آج یورپ و امریکہ کا ایک معاشرہ بھی ایسا نہ ملے گا جہاں عورت کی مکمل زندگی گزرتی ہو، جہاں جائز طریقے پر خاندانی نظام پلتا ہو، جہاں انہیں گھریلو تشدد کا شکار نہ بنایا جاتا ہو، جہاں منشیات کی عادت لگا کر انہیں جسم فروشی کے دھندے میں نہ ڈالا جاتا ہو، تعلیم ہے، ایجوکیشن کے نئے راستے بھی کھولے گئے ہیں، مگر ان سب میں ان کا مقام وہی ہے جو مردوں کی مرضی کے مطابق ہو، ان کی تعلیم اکثر و بیشتر ایسے ہی کاموں تک لیجاتے ہیں جہاں پر مردوں کی نفسیات کو تسکین پہنچے، ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، وہ انہیں دیکھ کر محظوظ ہوں، اور ظلم یہ کہ ان کی تنخواہیں مردوں سے کہیں زیادہ کم ہوں، امریکہ کی تاریخ میں اب تک کسی خاتون کو صدر نہیں بنایا گیا، سیاست میں خواتین کی تعداد بھی قابل رحم ہے، لیکن ہوٹل، ریسٹورنٹ اور شراب خانوں میں انہیں کی اکثریت ہے۔

صنف نازک کے پیدا ہونے پر قرآن کریم نے انسانی مزاج، طبیعت اور اس کی فطرت کی عکاسی کی ہے، یہ اگرچہ زمانہ جاہلیت کے متعلق ہے؛ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا حرف آج بھی یونہی قائم ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ(نحل:٥٨)” اور جب ان میں سے کسی کو (بیٹی پیدا ہونے) کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے”

استاذ گرامی حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :” یہ تو قدیم جاہلیت ہے؛ لیکن افسوس عصر حاضر کی جدید جاہلیت میں بھی دختر کشی کا سلسلہ جاری ہے، ہندوستان میں اس وقت ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ میں نو سو سے کچھ ہی زیادہ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں، اور بعض ریاستوں میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کی پیدائش چھ سو سے کچھ زیادہ ہے، اس طرح ماں کے شکم میں ہی بچیوں کو مار دیا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عورتوں کی تعداد کم. ہوتی جاتی ہے، اور مردوں کی بڑھتی جاتی ہے، مستقبل میں اس کی وجہ سے جو سماجی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے وہ محتاج بیان نہیں……. ایسے واقعات کا بنیادی سبب بر صغیر میں شادی میں فضول خرچی، لڑکی والوں پر جہیز، رقمی مطالبات اور ضیافت کا بوجھ ڈالنا ہے، شاید ہم اسی جاہلیت کی طرف لوٹ رہے ہیں جس کاذکر قرآن کریم نے کیا ہے “__(آسان تفسیر)۔

واقعی انسان جس کیلئے یوم مادر منا رہا ہے اسے پیدا ہوتے دیکھنا بھی گنوار نہیں ہے، ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں، رنگ بدل جاتا ہے، یہ زمانہ کا ستم ہے، تو وہیں یہ مردانہ دنیا کا ظلم ہے، سماج ہر موڑ پر انہیں زندگی کی مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے، تعلیم سے لیکر شادی بیاہ تک ہر قسم میں نرینہ باپ کے شانے جھک جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جنہیں باب رحمت بتلایا گیا تھا انہیں باب زحمت قرار دے دیا گیا ہے۔

سماج کی تفریق اور انسانی مفاد نے خدا کی ایک عظیم مخلوق کو رسوا کردیا ہے، ان کے خلاف گھریلو تشدد کے علاوہ زنا بالجبر کے واقعات میں بھی کوئی کمی نہیں ہے، یورپ میں آزادی کے نام پر سب کچھ ہے؛ لیکن آج بھی وہاں زنا بالجبر کی شرح بہت زیادہ پائی جاتی ہے، بھارت کے متعلق یہ رپورٹ آچکی ہے کہ یہ عورتوں کیلئے ایک خطرناک ملک ہے، WHO کی رپورٹس بھی پڑھنے کے قابل ہیں، Violence against women پر دائرہ معارف موجود ہے، افسوس یہ اس دنیا کا حال ہے جس کی وجہ خود عورت ہے، دنیا میں سینکڑوں رفاہی ادارت ادارے women empowerment کی بات کرتے ہیں؛ لیکن ان سب کی حقیقت یہی ہے کہ مفاد اور سکون کی کھنک کہیں زیادہ پائی جاتی ہے، جس کے پہلو میں زیادہ سکون اور زیادہ منافع ہے، بھارت میں اس کی یومیہ سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں، پارلیمنٹ میں ایک عرصہ سے زنانہ ریزرویشن کا مطالبہ پڑا ہوا ہے، اور ان دنوں خواتین مزدوروں کی کیفیت دیکھئے؛ سڑکوں پر پھٹے پیر اور اور کٹے دل کے ساتھ سفر کرتی خواتین کا درد ناقابل برداشت ہے؛ لیکن ان کی حمایت میں کوئی آواز آپ نے نہیں سنی ہوگی، ایک حاملہ خاتون کو تہاڑ جیل میں ڈال دیا گیا مگر کہیں سے کوئی سگبگاہٹ نہیں ہے، یہ جان لیجیے کہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقتوں میں سے یہ ہے کہ عورت مردوں کے سماج میں آج بھی اجنبی ہے، اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ تمام سیاسی، سماجی ادارے اگر ان سے متعلق ہیں تو وہ محض مفاد کی زبان ہے۔