ڈرامہ کی تعریف، آغاز و ارتقاء

0

اردو ڈرامہ

ڈرامہ ادب کی اہم ترین اصناف میں شمار ہوتا ہے۔ڈرامہ کی تعریف سب سے پہلے یونان کے مشہور فلسفی اور نقاد ارسطو نے اپنی مشہور کتاب “بوطیقا” میں کی ہے۔جس میں انہوں نے ڈرامے کو انسانی اعمال کی نقل قرار دیا ہے۔یہ نقالی دراصل اپنے مخصوص معنی میں زندگی کی عکاسی کا نام ہے۔ڈرامہ خود زندگی نہیں بلکہ انسانی زندگی کو پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔

عمل دراصل ڈرامے کی جان ہے۔ڈرامہ میں صرف الفاظ ہی ہمارے تخیل پر اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ ان کے ساتھ عمل کی قوت بھی کارفرما ہوتی ہے۔بعض نفسیاتی کیفیات کے ردعمل کے طور پر انسان کے رویہ اور مزاج میں تغیرات رونما ہوتے ہیں۔اس طرح عمل جسمانی بھی ہوسکتا ہے اور ذہنی وجزبانی بھی۔کردار، مکالمے اور عمل کے ذریعے ان سب کیفیات کو پیش کرنا ہی ڈرامے کا مقصد ہوتا ہے۔ڈرامہ کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ بہترین الفاظ کو گفتار اور کردار کے عمل سے پیش کرنا اور اسے زندگی کی جیتی جاگتی حقیقت کے طور پر پیش کرنا۔

ڈرامہ ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں زندگی کے حقائق اور مظاہر کو اشخاص اور مکالموں کے وسیلے سے عملاً پیش کیا جائے۔ڈرامہ نگاری میں اسٹیج، اداکار اور تماشائی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

فنی اعتبار سے ڈرامے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جنہیں ہم پلاٹ، کردار نگاری اور زبان و بیان یا اسلوب بیان سے موسوم کرتے ہیں۔ڈرامے کے پلاٹ میں واقعات کی ترتیب ہونی چاہیے،کردار نگاری میں کرداروں کی عمر، نفسیات، طبقے، تعلیم و تربیت اور خاندانی خصوصیات کا خاص خیال رکھا جانا بہت ضروری ہے۔ڈرامے کی زبان میں متاثر کرنے کی خصوصیت کا ہونا ضروری ہے۔دنیا کی دوسری زبانوں کی طرح اردو میں بھی ڈرامے کا اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔

آغاز و ارتقاء

اردو کے اولین ڈرامے لکھنؤ میں لکھے گئے اور اسٹیج پر پیش کئے گئے۔پروفیسر مسعود حسین رضوی کی تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا ڈراما واجد علی شاہ کا افسانہ “عشق” ہے جو رادھاکرشن کی کہانی پر مبنی ہے۔یہ ڈرامہ محل کی چار دیواری میں کھیلا گیا لہٰذا اسے عوامی حیثیت نہ حاصل ہو سکی۔اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے”اندر سبھا” کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا جو پروفیسر رضوی کے مطابق اردو کا پہلا عوامی ڈرامہ ہے جسے عوامی سٹیج پر پیش کیا گیا۔اس ڈرامے کو اس کے شاعرانہ حسن، زبان کی صفائی وشیرنی اور ہندوستانی دیو مالا کے لطیف امتزاج کی وجہ سے کافی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں پارسی اردو تھیٹر کا آغاز ہوا۔ اس تھیٹر کے ڈراموں میں ظرافت اور رقص و سرور کے عناصر کا زور رہا۔عوامی جذبات کی تسکین پیش نظر ہونے کی وجہ سے یہ ڈرامے فحش اور سطحی جذباتیت کے حامل تھے۔اردو ڈرامے کو عظمت و وقار اس وقت حاصل ہوا جب اسے طالب بنارسی،احسن لکھنوی اور بےتاب بریلوی جیسے باشعور ڈرامہ نگاروں کی خدمات حاصل ہوئیں۔ان ڈرامہ نگاروں نے نظم کے ساتھ نثر میں مکالمے لکھے اور اردو گیتوں کو ان میں شامل کیا۔احسن لکھنوی نے شیکسپیئر کے ڈراموں کے آزاد ترجمے “خون ناحق” شہید وفا” اور “گلنار فیروز” پیش کر کے اردو ڈرامے کو وسعت بخشی۔بیتاب بریلوی نے “سداما”رامائن” مہابھارت” اور “فریب” جیسے ڈرامے پیش کیے۔ڈرامہ نگاروں کے علاوہ بزرگ لاہوری حسینی میاں ظریف اور رونق بنارسی کے نام اس ضمن میں قابل ذکر ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ مذکورہ بالا ڈرامہ نگاروں کی کوششوں سے اردو ڈرامے کوکافی فروغ حاصل ہوا۔مگر فکر و خیال کی پستی، سطحی رومانیت اور حسن و عشق کے فرضی قصوں کی وجہ سے اپنے لیے ادبی دنیا میں کوئی سنجیدہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہا۔اردو ڈرامے کو نئے افقوں سے روشناس کرانے والے آغا خشر کاشمیری ہیں جنہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیت اور تخلیقی بصیرت سے اردو ڈرامے کے معیار کو کافی بلند کیا۔اور سطحی رومانیت کی جگہ ملک کے معاشرتی مسائل کو اپنے ڈراموں میں پیش کیا۔حشر نے پارسی کمپنیوں اور خود اپنی تھیریٹکل کمپنی کے لیے بہت سے ڈرامے لکھے جن میں” اسیر حرص” شہید باز” یہودی کی لڑکی” خواب ہستی” اور رستم و سہراب قابل ذکر ہیں۔

ڈرامے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر بہت سے ادیبوں اور انشاءپردازوں نے بھی ڈرامے لکھے لیکن یہ ڈرامے اسٹیج کے لیے نہیں لکھے گئے تھے لہذا وہ کتابوں تک محدود رہے۔اس ضمن میں مولانا محمد حسین آزاد کا ڈرامہ “اکبر” مرزا محمد ہادی رسوا کےڈرامے “مرقع لیلی مجنوں” اور” طلسم اسرار “قابل ذکر ہیں۔محمد حسین آزاد اپنے ڈرامے “اکبر” کو مکمل نہ کر سکے تھے اسے بعد میں ناصر نذیر فراق نے مکمل کیا۔یہ ڈرامے فنی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں البتہ یہ اپنی ادبی شان اور زبان کی لطافت و دلکشی کی وجہ سے اہم ہیں۔

اسٹیج سے قطع نظر لکھے گئے ڈراموں میں ظفر علی خان کے”جنگ روس و جاپان” عبدالماجد دریابادی کے”زود پشیمان”پنڈت کیفی کے”راج دلاری” جیسے ڈرامے اپنے سیاسی و معاشرتی موضوعات کے لحاظ سے اہم ہیں۔یہ ڈرامے عوام کی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے بجائے سیاسی معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اردو ڈرامے کو عصری آگہی، قدیم و جدید کی کشمکش اور قومی زندگی کے گوناگوں مسائل کا وسیلہ اظہار بنانے والے ڈراما نگاروں میں امتیاز علی تاج اور سیدعابدحسین کا نام سر فہرست ہے۔مغربی طرز پر لکھا گیا عابد حسین کا ڈرامہ”پردہ غفلت”عصری ماحول کا ترجمان اور مختلف رویوں کے درمیان پائی جانے والی کشمکش کا عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی منفرد کردار نگاری اور دیگر فنی محاسن کی وجہ سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔سید امتیاز علی تاج کا شہرہ آفاق ڈرامہ”انارکلی”بی اپنی فنی عظمت، بہترین کردار نگاری اور اپنے خوبصورت مکالموں کی وجہ سے چند بہترین ڈراموں میں شمار ہوتا ہے۔ان کے علاوہ اشتیاق حسین قریشی،پروفیسر محمد مجیب اور فضل الرحمن نے ڈرامے کی روایت کو عظمت بخشی۔ڈرامہ نگاروں کی کوششوں سے اردو ڈرامے میں سنجیدگی، فکری بالیدگی اور معنوی گہرائی پیدا ہوئی۔مغربی روایات کی مدد سے نئے نئے تجربوں کے ذریعے اردو ڈرامے کو وسعت حاصل ہوئی۔

اشاعتی اور نشریاتی سہولتوں کے سبب ایکانگی اور نشری ڈراموں کو کافی فروغ حاصل ہوا۔اس سلسلے میں مرزا ادیب،کرشن چندر،سعادت حسن منٹو،خواجہ احمد عباس،راجندر سنگھ بیدی،عصمت چغتائی،انتظار حسین اور ڈاکٹر محمد حسن وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان ڈرامہ نگاروں نے اردو ڈرامے کو نئی معنویت اور فنی لطافت بخشی۔زندگی کے پیکار و تصادم اور متعلقہ عہد کے ابھرتے ہوئے تقاضوں کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا۔اور اس میں انسانیت اور دردمندی کے احساس،نفسیاتی تجزیہ اور لطیف ظرافت کے عناصر شامل کرکے اردو ڈرامے کو عوام کے سطحی معیار سے اونچا اٹھا کر دیگر اصناف ادب کی طرح عظمت و وقار اور ایک منفرد ادبی شان بخشی۔