اعتکاف کا بیان

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔اعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یک سوئی سے بیٹھ رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں یکسو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ چنانچہ وہ اس گوشۂ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔

اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔ قرآن سے استدلال : وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (سورہ بقرہ: 187) ترجمہ : جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔

اعتکاف کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں۔1۔ ٹھہرنا 2۔ مسجد 3۔ نیت اعتکاف۔ پس بے قصد و ارادہ ٹھہر جانے کو اعتکاف نہیں کہتے۔چونکہ نیت کے صحیح ہونے کے لئے نیت کرنے والے کا مسلمان اور عاقل ہونا شرط ہے لہذا عقل اور اسلام کا شرط ہونا بھی نیت کے ضمن میں آگیا۔ حیض ونفاس سے خالی اور پاک ہونا اور جنابت سے پاک ہونا بھی شرط ہے۔

سب سے افضل وہ اعتکاف ہے جو مسجد حرام یعنی کعبہ مکرمہ میں کیا جائے۔ اس کے بعد مسجد نبوی کا، اس کے بعد مسجد بیت المقدس کا اس کے بعد اس جامع مسجد کا جس میں جماعت کا انتظام ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت کا انتظام نہ ہو تو محلہ کی مسجد۔ اس کے بعد وہ مسجد جس میں زیادہ جماعت ہوتی ہو۔

اعتکاف کی اقسام

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔1۔ واجب 2۔ سنت مؤکدہ 3۔ اور مستحب۔

  • واجب ھوتا ھے ، اگر نذر(منت) کی جائے نذر خواہ غیر معلق ہو جیسے کوئی شخص کسی شرط کے اعتکاف کی نذر کرے یا معلق جیسے کوئی شخص یہ شرط کرے کہ اگر میرا فلاں کام ہو جائے گا تو میں اعتکاف کروں گا۔
  • اور سنت مؤکدہ ہے، رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالاحرام اعتکاف کرنا۔ احادیث صحیحہ میں منقول ہے مگر یہ سنت مؤکدہ بعض کے کر لینے سے سب کے ذمے سے اتر جائے گی۔
  • اور مستحب ہے ماہ رمضان کے اخیر عشرہ کے سوا اور کسی زمانے میں خواہ وہ رمضان کا پہلا دوسرا عشرہ ہو یا کوئی اور مہینہ۔


اعتکاف واجب کے لئے صوم شرط ہے جب کوئی شخص اعتکاف کرے تو اس کو روزہ رکھنا بھی ضروری ہوگا بلکہ اگر یہ بھی نیت کرے کہ میں روزہ نہ رکھوں گا تب بھی اس کو روزہ رکھنا لازم ہوگا۔

احادیث کی روشنی میں اعتکاف

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی شوال، حدیث : ۲۰۴۱)
  • اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے ۲۰ دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری، الاعتکاف، حدیث: ۲۰۴۴) سيدنا ابى بن كعب رضى الله عنه نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے. ایک سال آپ صلی الله عليه وسلم (سفر کی وجہ سے) اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو اگلے سال آپ صلی الله عليه وسلم نے بیس رات تک اعتکاف فرمایا. (سنن ابو داؤد 2463)
  • سيدنا ابو هريره رضى الله نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے. لیکن جس سال آپ صلی الله عليه وسلم كا انتقال هوا اس سال آپ صلى الله عليه وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔ (صحیح بخاری 2044)
  • سیدہ عائشہ رضی الله عنها نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے. اور آپ صلی الله عليه وسلم كے بعد ازواج مطہرات رضی الله عنهما اعتکاف کرتی رہیں۔ (صحیح بخاری)
  • عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘(ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2 : 376، رقم : 21781)
  • ۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 1.طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 221، رقم : 7326 ۔۔۔ 2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 425، رقم : 3965 ۔۔۔ 3. هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 192 ۔۔۔ ’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
  • حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ. ۔۔۔ بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 : 425، رقم : 3966
  • ’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘ رسول الله صلی الله عليه وسلم جتنی عبادت میں محنت رمضان کے آخری عشرہ میں کرتے اتنی اور دنوں میں نہ کرتے تھے. (صحیح مسلم 2788)

اعتکاف کے ضروری مسائل

اس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل بھی سمجھ لینے مناسب ہیں اس کا آغاز ۲۰ رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔ مُعْتکِف مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور صبح فجر کی نماز پڑھ کر مُعْتکِف(جائے اعتکاف ) میں داخل ہو۔

اس میں بلا ضروری مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بیمار کی مزاج پرسی ، جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ بیوی آکر مل سکتی ہے، خاوند کے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر سکتی ہے۔ خاوند بھی اسے چھوڑنے کے لیے گھر تک جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی انتظام نہ ہو اور گھر بھی قریب ہو تو اپنی ضروریات زندگی لینے کے لیے گھر جا سکتا ہے۔ غسل کرنے اور چارپائی استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے، یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔

عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں، لیکن ان کے لیے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مساجد ہی ہیں نہ کہ گھر، جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں میں گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا سلسلہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی میں ہی لگتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور قرآن کریم کی آیت ﴿ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ﴾ (البقرة: ۱۸۷) سے بھی واضح ہے۔

اس لیے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے، بنابریں جب تک کسی مسجد میں عورتوں کے لیے الگ مستقل جگہ نہ ہو، جہاں مردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو، اس وقت تک عورتوں کو مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہیے۔

ایک فقہی اصول ہے (ردء ۔۔۔۔ المصالح) ’’یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا بہ نسبت مصالح حاصل کرنے کے، زیادہ ضروری ہے۔‘‘ اس لیے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لیے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں اس لئے علما نے عورتوں کا گھر پر نفلی اعتکاف جائز قرار دیا ہے الله پاک ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری عبادات کو قبول فرماے آمین