Jism Faroshi | جسم فروشی اور تعلیمی ادارے

جسم فروشی اور تعلیمی ادارے

کچھ دن پہلے لاہور میں گھومتے ہوئے برکت مارکیٹ پہنچے یہاں درمیان میں ایک چھوٹا سا پارک موجود ہے جہاں بہت ساری لڑکیاں سج سنور کے گاہک کا انتظار کرتی ہیں۔ ڈیل طے ہونے کے بعد ان کے ساتھ چلی جاتی ہیں کبھی ایک مرد کے ساتھ تو کبھی پانچ سات مردوں پر مشتمل گروہ کے ساتھ۔

رات کے اس وقت نائٹ بکنگ ہوتی ہے یعنی ساری رات کیلئے رقم ادا کی جاتی ہے۔ اسی سڑک پر آگے کی طرف چلتے جائیں تو جگہ جگہ خواتین گاہک کے انتظار میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک عورت کیلئے یہ سب کتنا مشکل ہے ؟ ہر دوسری رات مختلف مردوں کے بستر کی رونق بننا میری نظر میں ہرگز آسان نہیں ہے۔

لیکن اس سے آگے کی گفتگو زیادہ تشویشناک ہے کہ کئی جگہوں سے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی اور کالجز سے بھی اب کچھ لڑکیاں اس کاروبار کا حصہ ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے اس کام کا حصہ بنی ہیں۔ کون سا شوق ؟ بہترین اور مہنگا لباس ، مہنگے جوتے ، مہنگا موبائل ، آئے روز شاپنگ اور بڑے بڑے ہوٹلز میں کھانا کھانے کے شوق۔۔۔۔۔ انہیں اس اندھیر نگری تک لے آئے ہیں۔

یہ سب تو کئی سالوں سے سن رہا ہوں مگر پھر بھی جھٹلانے کی کوشش کرتا ہوں نہیں یار ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ مگر پھر ڈاکٹر صاحب نے ایک دن بتایا کہ فلاں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی اکیس بچیاں جسم فروشی کے کاروبار کا حصہ بن گئی ہیں۔ یہ سن کر تو جیسے آسمان میرے سر پر آ گرا ۔۔۔ مڈل اور میٹرک کی لڑکیاں ؟ نہیں نہیں یہ کیسے ممکن ہے۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔ یقیناً کوئی زبردستی یا بلیک میلنگ والا معاملہ ہوگا لیکن نہیں حقیقت یہ نکلی کہ وہ لڑکیاں خود اپنی مرضی سے شامل ہوئی ہیں اور وجہ وہی مہنگا ڈریس ، مہنگے موبائل کا شوق وغیرہ وغیرہ۔

مزید کیا لکھوں؟ میرے تو ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ جب ہائی اسکول سے لڑکیاں شامل ہو سکتی ہیں تو پھر کالج اور یونیورسٹیوں سے۔۔۔؟ کئی بڑے بڑے کالجز کی لڑکیاں اس کام کا حصہ بن رہی ہیں۔ کئی جگہوں پر باقاعدہ ہاسٹل وارڈن وہ کام کرتی ہیں جو جسم فروشی کے کاروبار میں ایک دلال کرتا ہے۔ ڈیل طے کرنا اور اپنا کمیشن لے کر ایک طرف ہو جانا۔

پہلے والے کیس میں ہم سب ہی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ مجبور ہو کر ، بھوک ، پیاس ، غربت ، فاقے یا ظلم وزیادتی کا شکار ہو کر ، اغواء ہونے کے بعد یا دھوکہ کھانے کے بعد وہ لڑکیاں اس راستے کا انتخاب کرتی ہیں لیکن دوسرے کیس میں ؟ صرف شوق اور لالچ ؟

خدارا اپنے بچوں پر نظر رکھیں ، توجہ دیں۔ داخلہ کروانے کے بعد بھول مت جایا کریں۔ نہ تو بے جا کی پابندیاں درست ہیں نہ ہی بھرپور آزادی اور اندھا اعتماد درست ہے۔ لڑکوں پر بھی توجہ دیجیے کیوں کہ اب یہ بھی اس میدان میں آنے لگے ہیں اور ان کی بھی ڈیل طے ہوتی ہے۔ لڑکیوں سے بھی کہنا چاہوں گا ایسے راستے اور لوگوں سے ہمیشہ دور رہیں۔ ممکن نہیں تو لات مار دیں ایسے کالج ادارے اور لوگوں کو۔ اعتدال اور میانہ روی اختیار کریں ورنہ خواہشات کا یہ جن آپ کو ایک دن کسی کے اور کسی قابل نہیں چھوڑے گا۔ سلامت رہیں۔

از قلم “وسیم قریشی”