آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو

0

غزل

آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بوالہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو
چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح
طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو
ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو
مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامئ عشاق کا اعزاز تو دیکھو
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو
جنت میں بھی مومنؔ نہ ملا ہائے بتوں سے
جور اجل تفرقہ پرداز تو دیکھو

تشریح

پہلا شعر

آنکھوں سے حیا ٹپکے ہے انداز تو دیکھو
ہے بوالہوسوں پر بھی ستم ناز تو دیکھو

شاعر کہتا ہے کہ ذرا محبوب کا انداز دیکھیں کیسے آنکھوں سے شرم و حیا ٹپک رہی ہے۔جیسے وہ شرم و حیا کی کوئی مورت ہو۔اور دوسری طرف اس کے ناز کا یہ عالم ہے کہ ہوس پرستوں پر بھی ستم روا رکھے ہوئے ہے۔جب کہ یہ صرف عشاق کا حق ہے۔

دوسرا شعر

چشمک مری وحشت پہ ہے کیا حضرت ناصح
طرز نگہ چشم فسوں ساز تو دیکھو

شاعر ناصح سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میری دیوانگی پر تجھے کیوں رنجش ہے۔کیوں غُصّہ آرہا ہے۔ ذرا اس کی جادو کرنے والی آنکھیں روش تو دیکھ کہ انہیں دیکھ کر کوئی بھی دیوانہ ہو جائے۔پھر میری دیوانگی تمھاری ربخش کا باعث کیوں ہو رہی ہے۔

تیسرا شعر

ارباب ہوس ہار کے بھی جان پہ کھیلے
کم طالعی عاشق جاں باز تو دیکھو

اہل ہوس وفا شعار نہیں ہوتے۔لہذا اس کا محبت میں جان پر کھیلنا چہ معنی دارد؟لیکن یہاں معاملہ الگ ہے۔یعنی اہل ہوس ہار کر گویا مجبور ہوکر جان پر کھیل گئے۔اب شاعر کہتا ہے کہ یہ اعزاز تو عاشق کا ہے لیکن عاشق کی کم نصیبی کی وجہ سے یہ ہوس پرست کو حاصل ہو گیا ہے۔

چوتھا شعر

مجلس میں مرے ذکر کے آتے ہی اٹھے وہ
بدنامئ عشاق کا اعزاز تو دیکھو

رسوائی عاشق کا خاصا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ میرا بزم میں ذکر آتے ہی محبوب اٹھ کھڑا ہو گیا۔گویا عشق کی بدن میں کی شان دیکھیے کہ آنا تو دور محض نام کے سنتے ہی وہ تعظیم کے لئے کھڑا ہو گیا ہے۔

پانچواں شعر

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

شاعر اپنے محبوب کی آواز کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میرا محبوب جو خوبصورتی میں بے مثل ہے کہ جس کی خوبصورتی پر روشن ستارہ زہرہ بھی رشک کرتا ہے۔ایسا خوش آواز ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کی ہرتان یعنی اس کی ہڑتال دیپک راگ کی تاثیر رکھتا ہے۔اس کی آواز میں وہ گرمی اور تاثیر ہے کہ ہر آواز کے ساتھ ایک آگ کی لپیٹ روشن ہو جاتی ہے۔

چھٹا شعر

دیں پاکی دامن کی گواہی مرے آنسو
اس یوسف بے درد کا اعجاز تو دیکھو

محبوب عاشق پر ظلم و ستم کرتا ہے ظلم و ستم کرنا گویا اس کا شیوہ ہے۔ لیکن اس کا ظلم و ستم بھی عاشق کو گوارا ہوتا ہے۔یہی بات اس شعر میں شاعر نے اپنے مخصوص انداز میں بیان کی ہے۔وہ کہتا ہے کہ میرے یوسف کی طرح خوبصورت ظالم محبوب کا جادُو دیکھیے کہ اس نے مجھ پر نہ جانے کتنے ظلم کیے ہیں،کتنے رنج و الم دیے ہیں اس کے باوجود میرا دل ستم گر کہنے کے لیے تیار نہیں ہے اور میری آنکھیں اس کی معصومیت کی گواہی دے رہی ہیں۔گویا کہہ رہی ہیں کہ یہ معصوم گناہ گار نہیں ہے اور اس کا دامن پاک ہے۔داغدار نہیں ہے۔