Back to: فیضان رضا
Advertisement
آپسی دشمنی کے مجرم ہیں آدمی آدمی کے مجرم ہیں |
تم سر عام قتل کرتے ہو اور ہم خودکشی کے مجرم ہیں |
دوسرے ہم پہ کیوں نہ غالب ہوں جب کہ ہم خامشی کے مجرم ہیں |
پیش دریا ہیں اور تشنہ لب یار ہم تشنگی کے مجرم ہیں |
دل میں بد کاریاں لبوں پہ دعا ہم بہت بے حسی کے مجرم ہیں |
پھر حکومت ہماری ہو کیسے ہم تو آوارگی کے مجرم ہیں |
کیوں چھپائے ہوئے ہیں چہرے کو آپ بھی کیا کسی کے مجرم ہیں |
ہم نے فیضان کھو دیا سب کچھ ہم حسیں زندگی کے مجرم ہیں |
Advertisement