آپسی دشمنی کے مجرم ہیں

0
آپسی دشمنی کے مجرم ہیں
آدمی آدمی کے مجرم ہیں
تم سر عام قتل کرتے ہو
اور ہم خودکشی کے مجرم ہیں
دوسرے ہم پہ کیوں نہ غالب ہوں
جب کہ ہم خامشی کے مجرم ہیں
پیش دریا ہیں اور تشنہ لب
یار ہم تشنگی کے مجرم ہیں
دل میں بد کاریاں لبوں پہ دعا
ہم بہت بے حسی کے مجرم ہیں
پھر حکومت ہماری ہو کیسے
ہم تو آوارگی کے مجرم ہیں
کیوں چھپائے ہوئے ہیں چہرے کو
آپ بھی کیا کسی کے مجرم ہیں
ہم نے فیضان کھو دیا سب کچھ
ہم حسیں زندگی کے مجرم ہیں
فیضان رضا