Back to: احمد عرفان
Advertisement
Advertisement
آکے وہ کہدے مجھ سے کہ کوئی سبب نہیں ہے مگر جو پہلے تھا ہمارے درمیان اب نہیں ہے کہانی ہے نہ افسانہ داستان ہے نہ گل خانہ نا کے معنی کیا میں سمجھوں مطلب “نہیں ہے وہ ہے موجود میں بھی ہوں وہ نہیں تو میں کہاں یہ باتیں تھیں بھلی لیکن متاعی جاں اب نہیں ہے یہ تو پرانی ریت ہے دو دلوں کی یہ جیت ہے کبھی جھگڑے کبھی شکوے مجھے بتاو کب نہیں ہے سہانے موسم میں گنگناوں تجھے میں اپنی غزل سناوں میں چاہتا ہوں پھر سے گاوں مگر خیر وہ سب نہیں ہے میری جانب کے رستوں پر بہت سناٹے چھاۓ ہیں مگر یہ کیا کہ تمہاری میری طرح کی شب نہیں ہے کروں میں کیا تجھے لکھ کر سناوں کسکو افسانے کہوں میں کیا تیری خاطر تُو ہی پاس جب نہیں جدائی طاق پر ہے بیٹھی اور مجھ کو صبر آۓ میری جان مجھسے تم کہو یہ بات عجب نہیں ہے ہوے ہیں بہت فاصلے تم ہو یہاں نہ عرفاں ہے ہاں! کچھ پل تھے یاد کے مگر اب سب نہیں ہے |
Advertisement
Advertisement