آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا

0

غزل

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بار نے ہمیں، تو دیا سا بُجھا دیا
پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا، سو آج
بے طاقتی نے دل کی، وہ پردہ اٹھا دیا
تھی لاگ اس کی تایغ کو ہم سے سو عشق میں
دونوں کو معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما و من کو لیے سر میں مر گئی
یاروں کو اس افسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غُبار لے کے صبا نے اُڑا دیا
اجزا بدن کے جتنے تھے،پانی ہو بہہ گئے
آخر گدازِ عشق نے ہم کو بہا دیا
ہم نے نو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا، سر جدا دیا
ان نے تو تیغ کھینچی تھی،پر جی چلا کے مؔیر
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا

تشریح

پہلا شعر

آہ سحر نے سوزش دل کو مٹا دیا
اس بار نے ہمیں، تو دیا سا بُجھا دیا

شاعر کہتا ہے کہ تمام رات دل جلاتا رہا۔آہیں نکلنے سے درد میں کچھ راحت کا احساس ہوتا ہے۔لہذا کہتا ہے کہ صبح کی آہوں نے دل کی اس جلن کو ختم کر دیا ہے۔اب وہ جلن ہی تو زندگی کی علامت تھی۔جب وہ جل رہی نہ رہی تو گویا ہماری زندگی کو اس آہ نے دیے کی طرح سے بجھا دیا۔

دوسرا شعر

پوشیدہ راز عشق چلا جائے تھا، سو آج
بے طاقتی نے دل کی، وہ پردہ اٹھا دیا

شاعر کہتا ہے کہ عشق کا راز ہم نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔یہ ہمارے دل میں پوشیدہ تھا۔ مگر ہمارے دل کی لاغری نے اس راز کو راز نہیں رہنے دیا۔ یعنی اس راز سے پردہ اٹھا دیا۔

پانچواں شعر

آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشتِ غُبار لے کے صبا نے اُڑا دیا

شاعر کہتا ہے کہ عشق میں آوارہ ہوئے گویا عُشاق کا حال ہم نے جب ہوا سے دریافت کیا تو اس نے جواب میں مٹھی بھر خاک لی اور اُڑا دی۔ یعنی وہ خاک ہو چکے ہیں۔ اور ان کا نام و نشان ختم ہوگیا ہے۔

چھٹا شعر

اجزا بدن کے جتنے تھے،پانی ہو بہہ گئے
آخر گدازِ عشق نے ہم کو بہا دیا

شاعر کہتا ہے کہ عشق کے درد میں ہم اتنا روئے کے بدن کے تمام اجزاء پانی ہو کر آنسوؤں کی صورت میں بہہ نکلے۔

ساتواں شعر

ہم نے نو سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا تھا سو تو دیا، سر جدا دیا

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے گویا عاشق نے سادہ لو ہونے کے سبب سے اپنے دل و جان کا بھی نقصان ہی کیا ہے کہ دل تو خیر اسے دینا تھا سو دے دیا مگر سر الگ دے دیا۔