Advertisement
Advertisement
اتنے شرمیلے ہو گئے ہیں
سر سے پا گیلے ہو گئے ہیں

جب سے برفیلے ہو گئے ہیں
رستے پنکیلے ہو گئے ہیں

دودھ سے پالا تھا لیکن سانپ
پھِر بھی زہریلے ہو گئے ہیں

اتنا زہر بھرا ہے ہم میں
کپڑے تک نیلے ہو گئے ہیں

آنکھوں میں چھائی ہے مستی
اور ہونٹ نشیلے ہو گئے ہیں

تم بھی کم کم بول رہے ہو
ہم بھی شرمیلے ہو گئے ہیں

تیرے عشق میں ہم بھی جاناں
تھوڑے سے ہٹیلے ہو گئے ہیں

Advertisement