Back to: اِندرؔ سرازی
Advertisement
Advertisement
اتنے شرمیلے ہو گئے ہیں سر سے پا گیلے ہو گئے ہیں جب سے برفیلے ہو گئے ہیں رستے پنکیلے ہو گئے ہیں دودھ سے پالا تھا لیکن سانپ پھِر بھی زہریلے ہو گئے ہیں اتنا زہر بھرا ہے ہم میں کپڑے تک نیلے ہو گئے ہیں آنکھوں میں چھائی ہے مستی اور ہونٹ نشیلے ہو گئے ہیں تم بھی کم کم بول رہے ہو ہم بھی شرمیلے ہو گئے ہیں تیرے عشق میں ہم بھی جاناں تھوڑے سے ہٹیلے ہو گئے ہیں |
Advertisement