ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا تشریح

0

غزل کی تشریح:

ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے ادب کے لحاظ نے میرے دل کے کون کون سے تقاضے پورے کیے ہیں۔جبکہ نہ جانے میرے کتنے شوق میرے سب کچھ پا لینے کی ہوس کی نذر ہوگئے ہیں۔سب کچھ پا لینے کی چاہ میں میرا شوق کہیں دب کر رہ گیا۔

اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں ہمیشہ سے اس دھوکے میں مارا گیا کہ ابھی کل تو بہت دور ہے، نہ جانے کب آئے گی۔اس آج کل کے چکر میں نہ جانے میں نے اپنے کتنے دن فضول میں گنوا دیے ہیں۔

کسی کے روپ میں تم بھی تو اپنے درشن دو
جہاں میں شاہ و گدا رنگ لائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے نظر نہ آنے والی ہستی کسی روپ میں تو اپنی جھلک دکھلا جاؤ۔ورنہ اس دنیا میں تو ہر شاہ اور گدا نے بھی اپنے کئی طرح کے رنگ دکھلا دیے ہیں۔

پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر نے بلند ہمت و حوصلے کے لوگوں کی بات کی ہے کہ اکثر پہاڑ کاٹنے جتنا حوصلہ رکھنے والے لوگ زمین کے سامنے آ کر ہمت ہار گئے۔مگر انھیں نہیں معلوم کہ اس زمین میں کیسے کیسے خزانے اور دریا پوشیدہ ہیں۔

بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ اگر تم اپنے مقام سے ذرا اوپر اٹھو تو تم پر بھی پستی یعنی گراوٹ کا راز کھلے گا۔یوں تمھیں معلوم ہوگا کہ یہاں پر بڑے بڑے لوگوں کے قدم کس طرح سے ڈگمگائے ہیں۔

خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا

شاعر کہتا ہے کہ خوشی میں یہ عالم ہوتا ہے کہ تب اپنے قدم چومنا بھی خوش نما لگتا ہے۔میری اس طرح کی غلطیوں پر وہ مسکرا سا جاتا ہے۔

خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

شاعر اس شعر میں اپنے وجود اور اپنے ہونے پر سوال اٹھاتا ہے کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کون اور کیا ہوں۔اپنے وجود اور اپنی ذات کے متعلق نہ جانے میرے دل میں کیا کیا وسوسے آتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سول نمبر01:مطلع میں ادب اور ہوس کے الفاظ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

مطلع میں ادب سے شاعر کی مراد لحاظ اور احترام ہے جبکہ یہاں ہوس سے مراد ہر چیز کو پالینے اور سب کچھ پر حاوی ہو جانے کی خواہش ہے۔

سوال نمبر02:شاعر کو کس فریب نے مارا ؟بیان کیجئے۔

شاعر کو اس فریب نے مارا کہ ابھی کل بہت دور ہے اور اس فریب میں اس نے نہ جانے اپنا کتنا وقت گنوا دیا۔

سوال نمبر03:”کسی کے روپ میں تم بھی تو اپنے درشن دو”شاعر یہ کس سے کہہ رہا ہے؟

شاعر یہ بات کسی نادید ہستی کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے۔جو اس کا حقیقی و مجازی محبوب بھی ہوسکتا ہے۔

عملی کام:

بلندی اور پستی متضاد الفاظ ہیں۔اس غزل سے ایسے اور متضاد الفاظ تلاش کر کے لکھیے۔

بلندی پستی
شاہ گدا
آج کل

پہاڑ کاٹنا ایک محاورہ ہے جس کے معنی ہیں مشکل کام انجام دینا۔آپ اور ایسے پانچ محاورے یاد کر کے لکھیے۔

1:جسے اللہ رکھے اُسے کون چکے۔
2:بھوکے کو سوکھی بھی چپڑی کے برابر۔
3:اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔
4:آنکھ کا اندھا نام نین سکھ۔
5:کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔