Advertisement

غزل کی تشریح:

ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ نہ جانے ادب کے لحاظ نے میرے دل کے کون کون سے تقاضے پورے کیے ہیں۔جبکہ نہ جانے میرے کتنے شوق میرے سب کچھ پا لینے کی ہوس کی نذر ہوگئے ہیں۔سب کچھ پا لینے کی چاہ میں میرا شوق کہیں دب کر رہ گیا۔

Advertisement
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں ہمیشہ سے اس دھوکے میں مارا گیا کہ ابھی کل تو بہت دور ہے، نہ جانے کب آئے گی۔اس آج کل کے چکر میں نہ جانے میں نے اپنے کتنے دن فضول میں گنوا دیے ہیں۔

کسی کے روپ میں تم بھی تو اپنے درشن دو
جہاں میں شاہ و گدا رنگ لائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے نظر نہ آنے والی ہستی کسی روپ میں تو اپنی جھلک دکھلا جاؤ۔ورنہ اس دنیا میں تو ہر شاہ اور گدا نے بھی اپنے کئی طرح کے رنگ دکھلا دیے ہیں۔

پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا

اس شعر میں شاعر نے بلند ہمت و حوصلے کے لوگوں کی بات کی ہے کہ اکثر پہاڑ کاٹنے جتنا حوصلہ رکھنے والے لوگ زمین کے سامنے آ کر ہمت ہار گئے۔مگر انھیں نہیں معلوم کہ اس زمین میں کیسے کیسے خزانے اور دریا پوشیدہ ہیں۔

بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ اگر تم اپنے مقام سے ذرا اوپر اٹھو تو تم پر بھی پستی یعنی گراوٹ کا راز کھلے گا۔یوں تمھیں معلوم ہوگا کہ یہاں پر بڑے بڑے لوگوں کے قدم کس طرح سے ڈگمگائے ہیں۔

Advertisement
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا

شاعر کہتا ہے کہ خوشی میں یہ عالم ہوتا ہے کہ تب اپنے قدم چومنا بھی خوش نما لگتا ہے۔میری اس طرح کی غلطیوں پر وہ مسکرا سا جاتا ہے۔

خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

شاعر اس شعر میں اپنے وجود اور اپنے ہونے پر سوال اٹھاتا ہے کہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ میں کون اور کیا ہوں۔اپنے وجود اور اپنی ذات کے متعلق نہ جانے میرے دل میں کیا کیا وسوسے آتے ہیں۔

سوالوں کے جواب لکھیے:

سول نمبر01:مطلع میں ادب اور ہوس کے الفاظ سے شاعر کی کیا مراد ہے؟

مطلع میں ادب سے شاعر کی مراد لحاظ اور احترام ہے جبکہ یہاں ہوس سے مراد ہر چیز کو پالینے اور سب کچھ پر حاوی ہو جانے کی خواہش ہے۔

سوال نمبر02:شاعر کو کس فریب نے مارا ؟بیان کیجئے۔

شاعر کو اس فریب نے مارا کہ ابھی کل بہت دور ہے اور اس فریب میں اس نے نہ جانے اپنا کتنا وقت گنوا دیا۔

سوال نمبر03:”کسی کے روپ میں تم بھی تو اپنے درشن دو”شاعر یہ کس سے کہہ رہا ہے؟

شاعر یہ بات کسی نادید ہستی کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہے۔جو اس کا حقیقی و مجازی محبوب بھی ہوسکتا ہے۔

Advertisement

عملی کام:

بلندی اور پستی متضاد الفاظ ہیں۔اس غزل سے ایسے اور متضاد الفاظ تلاش کر کے لکھیے۔

بلندیپستی
شاہگدا
آجکل

پہاڑ کاٹنا ایک محاورہ ہے جس کے معنی ہیں مشکل کام انجام دینا۔آپ اور ایسے پانچ محاورے یاد کر کے لکھیے۔

1:جسے اللہ رکھے اُسے کون چکے۔
2:بھوکے کو سوکھی بھی چپڑی کے برابر۔
3:اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔
4:آنکھ کا اندھا نام نین سکھ۔
5:کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔