ادھر نا ہی ادھر اچھا لگے ہے

0
ادھر نا ہی ادھر اچھا لگے ہے
مجھے تو تیرا در اچھا لگے ہے

تری یادیں بسی ہیں اس میں ورنہ
مجھے یہ دل کدھر اچھا لگے ہے

کبھی اس پر عمل کر کے بھی دیکھو
مرا کہنا اگر اچھا لگے ہے

ہمارا حال کچھ ایسا ہوا ہے
کہ صحرا نا ہی گھر اچھا لگے ہے

پرندوں سے ہی رونق ہے وگرنہ
بن ان کے کب شجر اچھا لگے ہے

ہمیں معلوم ہے انجامِ الفت
مگر پھر بھی یہ ڈر اچھا لگے ہے

یہ اِندرؔ تو ہو سکتا ہے جسے دل
وفا، زلفیں، جگر اچھا لگے ہے