Back to: اِندرؔ سرازی
Advertisement
Advertisement
ادھر نا ہی ادھر اچھا لگے ہے مجھے تو تیرا در اچھا لگے ہے تری یادیں بسی ہیں اس میں ورنہ مجھے یہ دل کدھر اچھا لگے ہے کبھی اس پر عمل کر کے بھی دیکھو مرا کہنا اگر اچھا لگے ہے ہمارا حال کچھ ایسا ہوا ہے کہ صحرا نا ہی گھر اچھا لگے ہے پرندوں سے ہی رونق ہے وگرنہ بن ان کے کب شجر اچھا لگے ہے ہمیں معلوم ہے انجامِ الفت مگر پھر بھی یہ ڈر اچھا لگے ہے یہ اِندرؔ تو ہو سکتا ہے جسے دل وفا، زلفیں، جگر اچھا لگے ہے |
Advertisement