ادھوری محبت کا آخری خط

0

ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں میں چھالے ہیں، اور شوقِ سفر بھی نہیں جاتا!

میری طیبہ…! تمہارا پیمانِ وفا اب تلک یاد ہے مجھے، اب تک تمہارے اُس دِلاسے کے سہارے شب و روز گزارتا ہوں، تاکہ ساتھ نہیں چھوٹے گا۔

آج کتنا وقت گُزر گیا، تمہیں دیکھیں ہوے، تم سے بات کیے ہوئے، تم سے لڑے ہوے تو صدیاں ہی گزر گئی، تمہارے لوٹ کے آنے کے سب خواب کانٹے بن کر میرے سینے میں چبھتے ہیں۔

سانس لیتا ہوں تو یوں لگتا ہے کے کوئی بوڑھا درخت ٹوٹ کر گرنے والا ہے، جب میں کبھی سوچتا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں کے کاش میں نے تمہیں روک لیا ہوتا…….،جانے نا دیا ہوتا، مگر پھر خود کو تسلی دے لیتا ہوں، کے جانے والے کو کون روک سکتا ہے، تقدیر تو برحق ہے!

جدائی کے ان سالوں میں کافی کچھ بدل گیا ہے، وہ کہتے ہیں نا کہ، تمہارا خیال میرے آس پاس رہتا ہے،مجھے اِس بات کا ملال ہے کہ میں اپنے آپ کو نہیں سدھار سکا، میرے رنگ ڈھنگ، چال ڈھال،طور طریق، وہی ہے، جو تمہارے ہونے سے تھے، اب بھی میں ویسا ہی ہوں، جیسا تم چھوڑ کر گئی تھی۔ لیکن اب فرق بس اتنا سا ہے کے پہلے میں خود کے لیے ہنستا تھا، اب دوسروں کے لیے ہنستا ہوں۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی پریشانی نہیں کہ تمہاری کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے۔

کاش یہ ترکِ تعلق، ترکِ محبت کی بھی خوش خبری ہوتی۔ اب تو اپنا شہر بھی بدل گیا ہے، جن ٹوٹی سڑکوں پر تمہیں غصہ آتا تھا، انکی جگہ کارپیٹ روڈ بن گئے ہیں، ساتھ گرین بیٹس بھی لگ چکی ہے، میں تمہیں کہتا تھا نا کے یہ سب ٹھیک ہو جائے گا، تم نہیں مانتی تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کے وقت کے ساتھ انسان کو بدلنا پڑتا ہے، تو خود کو میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہوں، وہ ساری چیزیں، وہ باتیں، سب چھوڑ دی ہے جو تمہیں پسند نہیں تھی، شروع-شروع میں کافی مشکل ہوا تھا، لیکن اب عادت سی ہو گئی ہے، جو کتابیں تم نے مجھے دی تھی وہ ساری کتابیں پڑھ لی ہے،اُن میں ایک کتاب ایسی تھی جس کے درمیانی صفحہ میں تمہارے ہاتھوں سے لکھا ایک خط ملا،میں نے اُس خط کو کھولا اور پڑھا، جس کے شروعات ہی تم نے ایسے اشعار سے کی تھی جو تماری محبت کی بھی گواہی دے رہا تھا، کے واقع میں تم بھی کسی وقت مجھ سے بے انتہا محبت کرتی تھی!

ابھی الوداع نا کہو نا جانے کب ملاقات ہو خوابوں میں،،
جس طرح سوکھے ہوۓ گلاب ملتے ہیں کتابوں میں!!
جب جب بھی اِس شعر کو پڑھ تا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کبھی بھی تم مجھ سے فراموش نہیں ہوتی۔
ہر روز آنگن میں اترتی دھوپ کے ساتھ ہی دو کپ چاۓ کا لطف میں تنہا اٹھاتا ہوں، تمہیں فرض کرکے تم سے بات کرتا رہتا ہوں، اب تو لڑائی بھی نہیں کرتا، تمہیں میری بڑی ہوئی داڑھی نہیں پسند تھی نا، تو اب میں ہفتے میں دو بار داڑھی بنا لیتا ہوں۔ مجھے آج بھی تمہیں لانگ ڈرائیو نہ لے جانے کا افسوس ہے، میں جب بھی ڈرائیو پر نکلتا ہوں تو تم بے تحاشا یاد آتی ہو، کیونکہ مجھے یاد ہے جب بھی تم میرے ساتھ لانگ ڈرائیو پرہوتی تھی تو کیسے تم مجھے سمجھاتی تھی کے ایسے گاڑی مت چلایا کرو، لیکن میں تمہاری ایک نہیں سنتا تھا، وہ جگہ جہاں ہم دونوں پانی پوری اور چاٹ کھایا کرتے تھے، اب تمہارے بغیر جا نہیں پاتا، میرے دوست جب مجھ سے اسرار کرتے ہیں تو میں ہر دفعہ بہانا بنا لیتا ہوں۔

تمہارے ساتھ گزرے پل مجھے آج بھی یاد آتے ہیں، بات کرنے کے لیے ہمیں کیا-کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے، مجھے آج بھی یاد ہے کے کیسے تم اپنے ہوسٹل روم سے باہر آکر مجھ سے فون پر بات کیا کرتی تھی، رات سے صبح ہو جاتی تھی لیکن ہماری باتیں ختم نہیں ہوتی تھی۔ جب سے تم گئی ہو کوئی چیز پہلی جیسی نہیں رہی، اب تو ہر چیز بدلی-بدلی سی نظر آتی ہے، اور اب کچھ لکھنے کو بھی دل نہیں کرتا، لکھتا تو ہوں، لیکن اب وہ بات نہیں رہی لکھنے میں جو پہلے ہوا کرتی تھی، میں جب بھی کچھ لکھتا تھا تو سب سے پہلے تمہیں بھیجتا تھا، تم پسند کرتی تو میں شائع کرواتا تھا، لیکن اب جب کبھی لکھنے کو دل کرتا ہے تو بے دلی سے دل کو بہلانے کے لیے لکھ لیتا ہوں، اور پھر پھاڑ کر کچرے دان میں ڈال دیتا ہو۔
سنوں جانا…..!جو تم نے ہوسٹل سے میرے لیےخطوط لکھے تھے اُن خطوط کو میں نے فائل میں رکھ کر محفوظ کر لیا ہے، صرف تمہاری سالگرہ پر فائل کھولتا ہوں اور تمہارے لکھے خطوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن پڑھ نہیں پاتا، تم کہتی تھی نا کے ہم ان خطوط کو کتابی شکل دینگے، شاید تم یہ بات بھی بھول گئی ہو، خیر چھوڑئے…! کبھی-کبھی سوچتا ہوں کے تم یہ فائل بھی لے گئی ہوتی۔

اِن آٹھ سالوں مے، میں جدائی کی وجہ نہیں جان سکا، تمہارا مقصد کچھ اور تھا اور میرے ارادے کچھ اور، ہمیں یہ بھی معلوم تھا کے جس راستے پر ہم نکل پڑے ہیں اُسکی منزل کوئی نہیں، تو ہم اِس راہ پر چلے ہی کیوں…؟؟؟ تم تو سمجھدار تھی، تمہیں تو سب معلوم تھا، تو تم نے کیوں نہیں روکا؟؟؟
مجھے لگتا تھا کے اِس جدائی کی وجہ میں ہوں، لیکن کہیں نا کہیں قصور وار شاید ہم دونوں ہی تھے۔
خیر مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں، لیکن جو بات مجھے اذیتیں دیتی ہیں وہ تمہاری خاموشی ہے، اگر تم جانے کا فیصلہ کر چُکی تھی تو میں تمہیں کبھی نہیں روکتا، بس تم سے ایک ہی گِلہ/ شکایت ہے کے تم میرے لیے کم از کم ہی سہی تھوڑی دیر کھڑی تو رہتی، تمنے کہا تھا تم سب سے لڑ جاؤگی،لیکن تمہارا ساتھ نہیں چھوڑونگی، تم نے جانا تو تھا ہی……. کم از کم میرا دل رکھنے کے لیے ہی سہی، اپنے الفاظ کا خیال تو رکھ لیتی۔
معلوم نہیں کیوں، لیکن مجھے اتنا یقین ہے کے تم نے بھی میرے خطوط محفوظ کرکے رکھیں ہیں، اور جب تمہیں میری یاد آتی ہوگی تو شاید تم اب بھی میرے لکھیں ہوے خطوط کو پڑھ کر اپنے دل کو تسلی دیتی ہوں گی۔

مجھے اِس بات کی خوشی ہے، تم نے وہ راستہ چُنا جو تمہارے نزدیک تمہارے لیے ٹھیک تھا، شاید میں نے تم سے محبت بھی اسی خوبی کی بنیاد پر کی تھی، کہ تم بھی میری طرح اپنی ضدّ کی پکّی تھی، جو فیصلہ کر لیتی تھی اُس پر قائم رہتی تھی۔
میں تم سے ہمیشہ کہتا تھا نا کہ اِس دنیا میں دو دلوں کا ملاپ ممکن نہیں، تم ہمیشہ مجھ سے اِس بات پر لڑتی تھی…….. لیکن دیکھو میں سہی تھا، اگر تم اپنے اِس فیصلے سے خوش ہو تو میں بھی خوش ہوں، مجھے یقین ہے تم اپنے اِس فیصلے پر مطمئن ہو۔
یہ آخری خط ہے جو میں تمہیں لکھ رہا ہوں…… میں بھی تلملایا ہوں، فرسودہ روایت پے، مگر میں اِن کو بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا، اب اِس کے بعد مجھ میں مزید لکھنے کی ہمت نہیں، ہو سکے تو پڑھ لینا، اور ہاں……… مجھے جواب مت دینا……تم نہیں لکھ پاؤگی……کیونکہ یہ یادوں کا بوجھ ہے، اور یادوں کا بوجھ بڑا وزنی ہوتا ہے…….میں نہیں چاہتا کے تم مزید یہ بوجھ اٹھاؤ…..

دلِ امید توڑا ہے کسی نے،
کہاں پر لاکر چھوڑا ہے کسی نے،
میں اُن شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں،
کیا ٹوٹا دل بھی جوڑا ہے کسی نے!
اور ہاں…!
اگر کبھی میری یاد آۓ تو وہ پانی پوری اور چاٹ کھا لینا….. اور مسکرا لینا…..تم ہمیشہ کی طرح مجھے اپنے پاس پاؤگی، لیکن ہم بات نہیں کر پائیں گے۔
تم نے تو کہا تھا کہ بے فکر رہنا…..ساتھ نہیں چھوٹیگا….۔

فقط
تمہارا….صرف تمہارا عزیز