اردو میں دوسری زبانوں کے الفاظ

0

​دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس میں کسی دوسری زبان کے الفاظ نہ پائے جاتے ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب دو قوموں میں ملاپ ہوتا ہے تو ان کی زبانیں بھی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے ذخیرے سے تھوڑے بہت الفاظ ضرور لے لیتی ہے جو اپنے بے گانہ ماحول میں’’ دخیل ‘‘کہلاتے ہیں۔ان کی اہمیت اس لیے مسلّم ہے کہ یہ ہمیں دوقوموں کے تعلقات اور ان کی نوعیت (مذہبی، سیاسی، فوجی، سماجی وغیرہ) سے آگاہی بخشتے ہیں جو ماضی کے کسی عہد میں استوار ہوئے تھے اور یوں تاریخ عالم کے ان گوشوں کو روشن کرتے ہیں جو ابھی تک پردۂ تاریکی میں ہیں اور جن تک ہماری رسائی کے تمام وسائل ختم ہوچکے ہیں، چنانچہ اس اعتبارسے کہ ازمنہ قدیم کے حالات کا سراغ لگانے کے لیے زبان اور زبان کے الفاظ ہی ہمارا واحد وسیلہ اور آخری سہارا ہیں۔ اردو قوموں کے ارتباط باہمی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے دخیل الفاظ کی قدروقیمت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔

ماضی کے کسی دور میں ہندوستان پر موجودہ روسی ترکستان کے آریہ قبائل کی ترک تاز اس برصغیر کی تاریخ کا وہ اہم واقعہ ہے جس کے باعث دو قوموں (آریہ اور دراوڑ) میں ایک ایسا تصادم ہوا تھا کہ اس کے اثرات زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح آج ہندوستانی لسانیات میں بھی اچھی طرح محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اردو زبان نے ہندوستان کی دوسری زبانوں کی طرح پہلی بار آریوں کی آبائی زبان (اصطلاحاً اوستائی) کے حلقہ اثر میں آکر ’و‘، ’ہ‘ اور’ی‘ کی آوازیں قبول کی تھیں جو بادی النظرمیں اس کا گوشت وپوست معلوم ہوتی ہیں لیکن ذرا سے تامل پر یہ بات کھل جاتی ہے کہ آریوں کے حملہ سے پہلے ہمالیہ کے اس پارکی زبانوں میں جنھیں بجاطور پر دراوڑی کہا جاسکتا ہے، یہ آوازیں نہیں ملتی تھیں۔

چنانچہ آج بھی ہماری زبانوں کا تلفظ جو ہزاروں سال سے زبانوں پر کمال صحت کے ساتھ منتقل ہوتا چلا آیا ہے، پکارے گلے بتارہا ہے کہ یہ آریائی ملمّع ہماری آواز کی ہلکی سی آنچ سے صاف اُترجاتا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اسی زمانے میں اردو زبان نے بہت سے آریائی الفاظ بھی مستعارلے لیے ہوں گے، کیونکہ زبانوں میں آوازوں کے لین دین کا نمبر الفاظ کے لین دین کے بعد آتا ہے لیکن اس زمانے کی ایسی کوئی دستاویزی شہادت اس وقت سامنے نہیں ہے جس سے اردو میںدخیل الفاظ کی قطعی تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اردو اور اس کی معاصر زبانوں میں آج جو سنسکرت الفاظ پائے جاتے ہیں وہ آریوں کی بول چال سے نہیں آئے بلکہ ان کی تحریری زبان سنسکرت سے لیے گئے ہیں، اس لیے ان کا جو تلفظ عام طور پر کیا جارہا ہے ساقط الاعتبار ہے، کیوںکہ سنسکرت اور ویدک کی تحریروں میں قدیم ایرانی اور مختلف دراوڑی بھاشاؤں (بول چال کی زبانوں)کے الفاظ کتابت کے مخصوص اُصولوں کے تحت درج کیے گئے، اور اصول اولین شارح رگ وید باسک متی کی تحریر کے مطابق زیادہ سے زیادہ چھ سوسال قبل مسیح تک عالموں کے حیطۂ عالم سے باہر ہوچکے تھے۔ حالاںکہ ان زبانوں میں یہ الفاظ حقیقت میں وہی ہیں جو آج ترکستان میں بولے جارہے ہیں یا پاک وبھارت کی مختلف زبانوں میں رائج ہیں۔

اردو کے دخیل الفاظ پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ہمیں اس زمانے کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب کہ دسویں صدی عیسوی کے لگ بھگ مسلمانوں نے ہندوستان پر درہ خیبر کی راہ سے حملہ کیا اور ایرانی بول چال کی زبان دوبارہ ان کی ہمرکابی میں یہاں پہنچی۔

یہ حملہ آور اپنے سے ہزاروں سال پہلے کے آریوں کی طرح زبان کے علاوہ اپنی لپی بھی ساتھ لائے تھے جس میں آگے چل کر یہاں کے مختلف علاقوں کی مقامی زبانیں قلم بند ہونے لگیں اور یوں اردو زبان بھی جو ان کی آمد سے قبل دیوناگری ہی میں لکھی جاتی تھی، ایرانی لپی کے لباس میں آگئی اور چوںکہ فارسی ہندشمالی میں مسلمان حکمرانوں کی مادری زبان ہونے کے لحاظ سے سرکاردربار میں ۱۸۳۲ء تک مسندنشین رہی یہاں کی دوسری مقامی زبان میں بھی بے شمار فارسی اور فارسی کی وساطت سے عربی الفاظ داخل ہوگئے۔

اس کے برعکس ہندجنوبی میں فارسی کو راج پاٹ کا کبھی موقع نہیں ملا بلکہ ابتدا ہی سے دکنی زبان اس منصب پر بڑے اطمینان و اعتماد کے ساتھ براجمان رہی جو اس کا پیدائشی حق تھا اس لیے دکن میں دخیل الفاظ کی تعداد، تلفظ اور املا وغیرہ مقامی اصول وقواعد کے پابند رہے جب کہ شمال میں اردو زبان عربی فارسی سے اس حد تک دب گئی کہ اس میں دخیل الفاظ کا تناسب دکنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگیا اور تلفظ واملا بھی قریب قریب اسی طرح جاری رہے جس طرح عربی فارسی میں تھے بلکہ ان زبانوں نے اردو میں اپنی بہت سی آوازیں بھی داخل کردیں اور اس کے بہت سے الفاظ کو یوں تبدیل کردیا کہ وہ اپنی ہی زبان میں دخیل نظر آنے لگے۔ مثلاً پٹخنا(اصل ٹپکنا)، چٹخنا (اصل چٹکنا)، اخروٹ (اصل اکھروٹ)، شراٹا (اصل سراٹا)، زناٹا (اصل جھناٹا)، زپاٹا (اصل جھپاٹا)، خصم (اصل کھسم) زق زق بق بق(اصل جھک جھک بک بک وغیرہ۔

عربی فارسی کے دخیل الفاظ کے متعلق اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اردو کی بہت سی مروجہ فرہنگوں اور تحریروں میں دیسی الفاظ کے مقابلہ میں دخیل الفاظ کی تعداد آٹے میں نمک کی بجائے نمک میں آٹے کے مصداق نظر آتی ہے۔ انشاء اﷲخاں کی ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ اور آرزو لکھنوی کے دیوان ’’سریلی بانسری‘‘ کو چھوڑ کر جن میں دخیل الفاظ سے جان بوجھ کر اور کوشش کرکے دامن بچایا گیا ہے اور جنھیں دیسی زبان کی صلاحیتوں کو روشن کرنے کے لیے نمونہ بناکر پیش کیا گیا ہے، اردو زبان کے اس سرمایہ کو جو فارسی لپی میں ہمارے سامنے موجود ہے اول سے آخر تک دیکھ جائیے تو یہی گمان گزرے گا کہ اردو زبان فارسی عربی سے نہیں تو کم ازکم ان کی وساطت سے ضرور پیدا ہوئی ہے۔ اس صورت حال سے زبان اردو کے بعض مورخین کی معذوری کا بھی پہلو نکلتا ہے جنھوں نے بول چال کی زبان کے بجائے اسی ادبی سرمائے پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھی ہے۔

اس سلسلے میں ادب اردو کے چند نامور شعرا نے جن کی ابتدا حاتم اور مرزا مظہرجان جاناں سے ہوتی ہے اپنے اپنے زمانے میں جوکوششیں، اصلاح زبان کے نام سے کی ہیں حقیقتاً اور عملاً تفریس شاعری کے نام سے موسوم ہونا چاہئیں کیوںکہ فارسی لپی میں منتقل ہونے کے بعد اردو شاعری دیسی عروض سے کٹ کر مکمل طور پر ایرانی شاعری کی لونڈی بن گئی تھی اور تفریس شاعری کو زیادہ سے زیادہ کامیاب اور مکمل بنانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ زبان کے دیسی الفاظ نکال نکال کر ان کی جگہ عربی فارسی کے زیادہ سے زیادہ لغات داخل کردیئے جائیں۔

چونکہ شاعری ایک موثر پیرایہ بیان ہے، اس لیے شعرا کی ان کوششوں سے اردو کے پڑھے لکھے طبقے کا اثر قبول کرنا ناگزیر تھا نتیجہ یہ ہوا کہ جس انشاپرداز نے بھی قلم ہاتھ میں اُٹھایا اس نے اپنے پیش رو سے زیادہ عربی فارسی الفاظ اردو زبان میں داخل کردیئے اور اب یہ حال ہے کہ ہم کٹھن سے کٹھن موقع پر بھی دخیل لفظ پیش کرسکتے ہیں، لیکن دیسی لفظ پوچھیے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے۔

اردو کی تیسری بار ٹکر انگریزی زبان سے ہوئی جو مسلمانوں کے حملے کے تقریباً پانچ چھ سو سال کے بعد سات سمندر لانگھ کر انگریزوں کے ساتھ سورت کی بندرگاہ پر اُتری۔ اگرچہ ولندیزی، پرتگالی اور فرانسیسی زبانیں انگریزی سے پہلے یہاں آچکی تھیں جن کے چند الفاظ اردو میں آج بھی ملتے ہیں پھر بھی اردو سے ان کا اتنا بلاواسطہ اور گہرا تعلق قائم نہیں ہوا جتنا انگریزی زبان سے۔ اس لیے دخیل الفاظ کے سلسلے میں ان کی اتنی اہمیت بھی نہیں ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کا دور حکومت تقریباً دوسوسال تک جاری رہا جس میں انھوں نے اپنی زبان کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچانے اور پھیلانے کی جان توڑ کوشش کی بلکہ ۱۸۳۲ء میں فارسی کی گدّی چھین کر بظاہر جو انھوں نے اردو کو سرکاری زبان بنایا تھا اس میں بھی یہ مصلحت پوشیدہ تھی کہ اردو کی آڑ میں انگریزی کو راج سنگھاسن پر بٹھادیں اور اس میں وہ اتنے کامیاب رہے کہ انھیں ہمارا ملک چھوڑے ہوئے سترہ سال ہوچکے ہیں، لیکن انگریزی ابھی تک جہاں کی جہاں جمی ہوئی ہے۔ اس اتصال سے انگریزی کے بہت سے الفاظ اردو میں داخل ہوئے جو آج خواص سے گزر کر عوام کی زبانوں پر بھی جاری ہیں۔

غرض اردو دیوناگری لپی میں سنسکرت سے الفاظ لیتی رہی۔ ایرانی لپی میں فارسی عربی لغات جذب کرتی رہی اور آخر میں آکر انگریزی سے بھی خوشہ چینی کرنے لگی۔ اس طرح ہماری زبان میں بے شمار دخیل الفاظ جمع ہوگئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے فارسی عربی یا انگریزی کا بہت زیادہ مطالعہ کیا ہے وہ ان زبانوں میں بڑی آسانی کے ساتھ اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ جب وہ اردو میں لکھنے بیٹھتے ہیںتووہی الفاظ جو ان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، اپنی تحریروں میں درج کردیتے ہیں اور یوں اردو زبان کے الفاظ تلاش کرنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔

یہ تن آسان لوگ عادتاً دخیل الفاظ استعمال کرتے اور قصداً کدوکاوش سے کتراتے ہیں۔ اسی جماعت میں ان لوگوں کا بھی شمار ہے جن کو اردو کم آتی ہے۔ وہ اپنی کمی کو اردو کے مزید مطالعے کے بجائے دخیل الفاظ سے پورا کرکے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔بعض لوگ صرف اس لیے دخیل الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ دوسروں پر اپنے علم وفضل کی دھاک بٹھائیں۔

یہ لوگ غیرزبانوں کی فرہنگوں سے تلاش کرکرکے بڑے ثقیل اور نامانوس الفاظ لاتے ہیں اور چٹانوں کی طرح اپنی تحریروںمیں لڑھکادیتے ہیں اور پھر ان تحریروں کو انشاپردازی اور ادب کے بہترین نمونوں اور شاہ کاروں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسروں کے آسان، ہلکے پھلکے اور بول چال کے لفظ گنوار اور غیرفصیح ہوتے ہیں اور مصنفین کی کم علمی اور بدذوقی پر دلالت کرتے ہیں،غرض ان کا رویہ احساس کمتری کا غماز ہے۔

پھر، کچھ لوگ عربی الفاظ کی طرف اس لیے زیادہ مائل ہوتے ہیں کہ عربی ہماری مذہبی زبان ہے اور قرآن اس میں نازل ہوا ہے۔ بعض فارسی سے بھی کچھ ایسی ہی شدید وابستگی محسوس کرتے ہیں کہ یہ مسلمانوںکی تہذیبی زبان ہے اور پھر کچھ ایسے بھی ہیں جو انگریزی زبان سے مرعوب ہیں کہ یہ ان کے نزدیک بین الاقوامی زبان ہے۔ چناںچہ اس جماعت والے بھی کسی نہ کسی غیرزبان کے شیدائی نظر آتے ہیں۔
بہرحال دخیل الفاظ سے کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے خیالات کا ذرا ذرا سا فرق بڑی آسانی سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ ان کے استعمال سے خیالات کی حدود قطعی اور خطوط واضح ہوجاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ لکھنے والا ایک ہی لفظ کو بار بار دہرانے سے بچ جاتا ہے اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دخیل الفاظ سے زبان کے سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے۔

جس زبان میں دوسری زبانوں کے مقابلے میں زیادہ الفاظ پائے جاتے ہیں وہ باثروت سمجھی جاتی ہے اس لحاظ سے اردو زبان اس برصغیر کی تمام زبانوں پر سبقت لے گئی ہے کہ کسی زبان کا اثاثہ اس کے ذخیرہ الفاظ کے سامنے نہیں ٹھہرتا بلکہ ہم اس کے سرمائے کو نہایت فخر کے ساتھ دنیا کی کسی زبان کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔

ان تمام فائدوں کے ہوتے ہوئے جن کا ذکر اوپرکیا گیا، دخیل الفاظ کے استعمال میں کچھ نقصانات بھی مضمر ہیںبلکہ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ نقصانات کی تعداد اور اہمیت فوائد سے زیادہ ہے کسی زبان میں الفاظ کی تعداد زیادہ ہوجانے سے بولنے والوں کے حافظے پر غیرمعمولی بار پڑجاتا ہے۔ چناںچہ ہم لوگوں کو اردوالفاظ کے علاوہ ان الفاظ کو بھی یاد کرنا پڑتا ہے جو سنسکرت ، فارسی، عربی اور انگریزی سے مستعار لیے جاچکے ہیں اور جب تک مستعار لینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا حافظے پر بوجھ بھی برابر بڑھتا رہے گا۔ یہ صورت حال حد درجہ مصنوعی اور محنت طلب ہے۔

دخیل الفاظ کے باعث زبان میں بہت سے مقامات پر اُلجھنیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جن میں اردو زبان کے لب ولہجہ کے باعث ابہام آجاتا ہے مثلاً سحر اور صہر۔ ثواب اور صواب بہر (واسطے) اور بحر (سمندر وزن فخر) وغیرہ۔ بعض ایسے ہیں جو ہماری زبان کے لب ولہجہ سے میل ہی نہیں کھاتے مثلاً شمع، طرح، صبح وغیرہ کو عربی میں ان کا درمیانی حرف ساکن اور آخری متحرک ہوتا ہے اور اردو کا لب ولہجہ اس کو قبول نہیں کرتا، بعض دخیل الفاظ ایسے ہیں جن کی مکتوبی اور ملفوظی صورت مختلف زبانوں میں ایک ہی ہے لیکن معنی جدا جدا ہیں مثلاً کسر(اردو کمی، عربی ٹکڑا)۔ سل (اردو پتھر کا ٹکڑا۔ عربی دق کی بیماری۔ کوٹ (اردو قلعہ۔ انگریزی ایک لباس) برادر دوبھڑ بمعنی زنبور۔ فارسی اوپر عربی خشکی) چال (اردو فارسی، فارسی گڑھا) بال (اردو رواں۔فارسی پر۔ انگریزی گیند) وغیرہ۔

تیسرا نقصان یہ ہے کہ دخیل الفاظ کے لیے زبان میں ایک ترجیحی رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور لوگ ان کے حق میں اپنی زبان کے الفاظ سے دست کش ہوجاتے ہیںیوں متروکات کی تعداد روز بروز بڑھتی اور زبان کی پونجی گھٹتی چلی جاتی ہے، مثلاً جب اردو والے نکاس کی جگہ سرچشمہ یا منبع، ٹھیٹھ کی جگہ خالص سامنے کی جگہ روبرو یا مقابل، آنگن کی جگہ صحن، اوجھل کی جگہ پوشیدہ، پکڑکی جگہ گرفت، لگاتار کی جگہ متواتر یا علی التواتر یا علی الاتصال لکھتے پڑھتے رہیں گے تو ایک دن ایسا آجائے گا کہ اردو الفاظ حافظے اور علم سے بھی محو ہوجائیں گے۔ آج بھی اردو میں جتنے دخیل الفاظ استعمال ہورہے ہیں ان میں سے کچھ ایسے اصل ہیں جن کے ٹھیٹھ مترادفات کی اب شناخت بھی مشکل ہوگئی ہے، مثلاً فطرت یا قدرت یا نیچرتہذیب یا کلچر،حرف، تلفظ، کاغذ، دوات، روشنائی، دروازہ یا دوار، الماری، برج یا گنبدوغیرہ۔

دخیل الفاظ زبان کی بالیدگی میں بھی ہارج ہوتے ہیں۔ جب وقت کی تبدیلی کے ساتھ کوئی نیا خیال یا نئی چیز کسی زبان کے بولنے والوں کے سامنے آتی ہے تو یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جاہل اور بے پڑھے انسان بھی اس کے لیے لفظ سازی کے انھیں اصولوں پر جو اس زبان میں پیش تر سے موجود ہوتے ہیں، اپنے ہی کسی مروجہ لفظ سے ایک نیا لفظ گڑھ لیتے ہیں لیکن جب غیرزبان کے بنے بنائے لفظ سے ضرورت رفع کرلی جاتی ہے تو اہل زبان کو اپنی زبان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ لہٰذا اردو زبان میں دوسری زبانوں سے جتنے زیادہ الفاظ داخل ہوتے رہیں گے اس کی ترقی کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے چلے جائیں گے کیوںکہ زبان اپنی ہی داخلی قوت سے فروغ پاتی اور آگے بڑھتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اردو زبان میں بعض دخیل الفاظ کا استعمال ہمارے لیے ضروری ہے مثلاً مسلمانوں کی مذہبی اصطلاحات اور ان کی معاشرت کے لوازمات (کھانوں اور کپڑوں وغیرہ) کے ایرانی و عربی نام جو ہماری یومیہ زندگی کا جزہیں۔ یہ چیزیں مسلمانوں سے مخصوص ہیں اور ان کے ساتھ ہی ہندوستان میں داخل ہوئی ہیں۔ ایجادات کے نام جو مغرب سے اپنے موسامات کے ساتھ ہمارے ملک میں آئے ہیں اور سائنسی اصطلاحات جو دنیا میں عام ہوچکی ہیں لیکن سنسکرت الفاظ کو استعمال کرنا اردو زبان میں بناوٹی پن کو فروغ دینا ہے کیونکہ ان کے مکتوبی اور ملفوظی رویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چونکہ ایک خاص سطح تک سائنسی معلومات بھی دنیا کی روزانہ زندگی میں داخل ہوچکی ہیں اس لیے اس حد تک ہمیں اپنی ہی زبان سے سائنسی اصطلاحات وضع کرکے کام چلانا چاہیے کہ وہ زیادہ عام فہم ہوں گی اور ان کے ذریعے روزمرہ کی سائنس تک ہماری قوم کے ہر فرد کی رسائی بآسانی ہوسکے گی، البتہ اعلیٰ تحقیقات کی سطح پر جب تک ہمارے یہاں سائنسی اصطلاحات مکمل طور پر نہ بن جائیں انھیں انگریزی اصطلاحات کو استعمال کرسکتے ہیں جو بیشتر یونانی اور لاطینی زبانوں کی تحریروں سے اخذ کی گئی ہیں اور جن کے صحیح ملفوظی روپ ہمیں قدیم وجدید فارسی سے ایک نہ ایک دن ضرور دستیاب ہوجائیں گے کیونکہ یہ سب زبانیں باہم رشتہ دار ہیں، اس وقت ہم پاکستانیوں کے سامنے ایک اور بھی تجویز موجود ہے۔

جب یہ مسلم ہے کہ دخیل الفاظ ہر زبان کا ایک ناگزیر جز ہوتے ہیں اور ہمیں بھی اردو زبان کے لیے ان کی ضرورت و اہمیت سے انکار ممکن نہیں تو بہتر یہ ہے کہ ہم بدیسی الفاظ کی جگہ پاکستان کی ہی علاقائی زبانوں کے لغات سے کام لیں کہ ان کا حق بدیسی الفاظ پر مرجح ہے اور اس لیے مرجح ہے کہ اردو اور علاقائی زبانوں میں مشترکہ دراوڑی خاندان کے باعث بنیادی اور مزاجی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جب کہ فارسی، آریائی، عربی، سامی اور انگریزی اینگلوسیکشن خانوادے سے تعلق رکھتی ہے اور لسانی خاندانوں کا بنیادی فرق اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔
مراد اس سے یہ ہے کہ اردو اور سندھی یا اردو اور پنجابی میں اتنا فرق نہیں ہے جتنا اردو اور فارسی یا اردو اور انگریزی میں پایا جاتا ہے اور اس فرق کا دخیل الفاظ کی موزونیت یا ناموزونیت میں بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

الغرض دوسری زبانوں سے بے تامل الفاظ پر الفاظ لیتے چلے جانا نہ صرف غیرضروری بلکہ اردو کے لیے الٹا نقصان دہ ہے اس لیے ہمیں سب سے پہلے یہ چاہیے کہ اپنی زبان کے بنیادی ذخیرے اور اس کی صلاحیتوں کا بھرپور جائزہ لے کر اس کی توانائی پر اپنا اعتماد بحال کریں اور اردو کی کم مائیگی کا مفروضہ قائم کرنے والوں کے پروپیگنڈے میں نہ آئیں۔ دخیل الفاظ کی تعداد کو ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دیں۔

مندرجہ بالا دخیل الفاظ کے استعمال میں احتیاط اور اعتدال سے کام لیں اور آئندہ جب کسی لفظ کی ضرورت پڑے تو بدیسی زبانوں کی جگہ اپنی ہی علاقائی زبانوں سے امداد طلب ہوں کہ اس سے اردوکے سمجھنے والوں کا دائرہ وسیع ہوگا اور تمام اہل وطن اس کے واسطے سے اتحادویگانگت کی ایک ہی لڑی میں منسلک ہوجائیں گے۔

تحریر محمد ذیشان اکرم