اسلام میں عدل اجتماعی کا مفہوم، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 25:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنے سے کون سی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں؟

  • جواب: عدل اجتماعی کے اثرات: اسلام نے عدل کا جو تصور پیش کیا ہے وہ آج بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور جو اصول وضوابط پیش کیے ہیں وہ آج بھی اہل دنیا کے لیے مشعل راہ ہیں اور ان پر عمل پیراہو کر دکھی انسانیت موجودہ مصائب وآلام سے نجات پاسکتی ہے۔
  • معیثت میں عدل سے پورا معاشرہ خوشخال ہو جاتا ہے۔
  • معاشرے میں عدل سے کوئی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہیں رہتا۔
  • عدل زندگی کے تمام شعبوں میں توازن قائم کرتا ہے۔
  • انسان کی زندگی اس وقت بہتر ہو سکتی جب زندگی کے تمام عناصر میں خاص توازن و اعتدال ہو۔

عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنے سے جنم لینے والی معاشرتی برائیاں:

  • لیکن اگر ہم اجتماعی عدل کو نظر انداز کریں گے تو معاشرے کی ہر سطح پر برائیاں کسی ناسور کی طرح پھیلنا شروع ہو جائیں گی۔
  • حکومتی اور سیاسی سطح پر عدل کو نظر انداز کرنے کی صورت میں مفاد پرستی، اقرباء پروری، رشوت خوری اور بدعنوانی عام ہو جاتی ہے۔ جسے آج کل ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں عام ہیں۔
  • عدالتی سطح پر ناانصافی اور عدل کو نظر انداز کرنے سے ظلم و زیادتی اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے طبقاتی محرومی میں اضافہ ہوتا ہے جو آگے چل کر ملک میں فتنہ و فساد کا باعث بنتی ہے۔ معصوم اور بے قصور لوگ جب ظلم و زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا تو نتیجتاً وہ بدلے لینے کے لیے جرائم کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے۔
  • معیشت میں عدل کو نظر انداز کرنا طبقاتی محرومی، احساس کمتری اور مایوسی کا سبب بنتے ہیں جو جرائم، دہشت گردی اور فسادی کو جنم دیتے ہیں۔

۲۔ آپ کی نظرمیں عدل اجتماعی قائم کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیں؟

عدل کی اقسام:

عدل انفرادی:

انسان اپنی انفرادی ذاتی زندگی میں اعتدال کا لحاظ رکھے چاہے جسمانی (کھانے پینے سونے، خوشی، غمی وغیرہ) زندگی ہو یا روحانی (عبادات) زندگی، یا بنیادی معاملات ہوں یا معاشی(کسب مال)زندگی ہو۔ ہر حال میں عدل/ اعتدال اور توازن کو ملحاظ رکھا جائے۔

عدل اجتماعی

انسانی معاشرے میں انصاف یعنی معاشرہ کے افرادمیں مساوات ہو اور ہر ایک کو اپنے حقوق حاصل ہوں۔ عدل اجتماعی کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:

قانونی مساوات:

معاشرے میں قانونی مساوات کا ہونا یعنی قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور قانون کی سب پر بالادستی حاصل ہو اس میں امیر ہو یا غریب، افسر ہو یا ماتحت، دوست ہو یا دشمن اپنا معاملہ ہو یا دوسرے کسی کا چھوٹا ہو یا بڑا کی کوئی تمیز نہ ہو۔

معاشرتی امور اور عدل اجتماعی:

اسلام کے اقتصادی نظام میں ہر شخص اپنی صلاحیت اور پسند کے مطابق جائز ذریعہ معاش اختیار کرنے میں آزاد ہے۔روزی کمانے کا کوئی جائز ذریعہ مثلاً تجارت، زراعت،صنعت، ملازمت وغیرہ کسی شخص کے لیے ممنوع نہیں ہیں۔ روزی حاصل کرنے کے جتنے وسائل ہیں ان کو اللہ نے سارے بندوں کے لیے مہیا کیا ہے، اس لیے ان سے فائدہ اٹھانے کا سب کو یکساں حق حاصل ہے۔ اسلام کسی بے روزگار اور معذور کے لیے بنیادی ضروریات کا فراہم کرنا حکومت اور سوسائٹی کا فرق سمجھتا ہے تاکہ کوئی شخص معاشی ناانصافی کا شکار نہ ہو۔

اجتماعی عدل قائم کرنے کی تدابیر:

حکومتی اور سیاسی سطح پر سختی سے عدل قائم کیا جائے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ امور مملکت میں توازن و اعتدال قائم کیا جائے۔ معاشرے کے مختلف عناصر، طبقات، قبائل اور گروہوں کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، انہیں فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ سیاسی عدل قائم کرنے کے لیے تعصبات سے بالاتر ہو کر ایسے سیاست دانوں کو حکومتی کے لیے منتخب کریں جو قوم اور عوام کی خدمت کے جذبہ سے سیاست میں آئیں، اقتدار کا حصول ان کا مقصد نہ ہو۔ اس حقیقت کو بنیاد بنائے جو وطن کیلئے مفید ہو۔

عدالتی عدل کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مظلوم کسی حاکم، قاضی یا جج کے سامنے کوئی فریاد لے کر جائے تو بغیر سفارش کے اور بغیر رشوت کے اسے انصاف مل سکے۔ کسی شخص کوغربت یا معاشرے میں اس کی کمزور حیثیت حصول انصاف کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ یہ ہو کہ کوئی شخص اپنے منصب یا دولت کی وجہ سے انصاف پر اثر انداز ہو سکے۔ قانون کی نظر میں سب کے حقوق میں برابری ہونی چاہئے۔ جب کسی قوم میں یہ بات آجائے کہ عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو۔ پھر اس قوم کو باہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

معاشی عدل سے مراد معاشرے کے ہر شعبے ہر طبقے اور ہر فرد کو عدل وانصاف فراہم کرنا ہے۔ رنگ و نسل، علاقائیت، لسانی تعصب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔
مذہبی عدل کے فقدان نے فرقہ واریت کو ہوادی اور اسلام کے اعلیٰ وارفع اصولوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دینے والے حالات پیدا کرنے کی بجائے ان سے گریز کرنے والے حالات پیدا کیے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ عدل اجتماعی کے معنی اور اس کا مطلب بیان کریں۔

عدل عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ہیں سیدھاکرنا، برابر کرنی۔ دوچیزوں کے درمیان موازنہ کرنا۔ دو حالتوں میں توسط اختیار کرنا۔ اصطلاح میں عدل کا مفہوم بہت وسیع ہے کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا اس طرح کے دونوں میں کمی بیشی نہ ہو۔ کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا۔ یعنی قول و عمل میں سچائی کی میزان کو کسی ایک طرف جھکنے نہ دینا۔ وہی کام کرنا چاہئے اور وہی بات کہی چاہیے جو سچائی کی کسوٹی پر پوری اترے۔ نیز ہر شخص کے ساتھ بلاروعایت معاملہ کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ عدل کے مقابلے میں ظلم آتا ہے یعنی کسی چیز کو بے موقع رکھنا۔ ایک ظالم کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اسے ظلم سے نجات دلائی جائے۔

۲۔ قرآن کریم عدل اجتماعی کے بارے میں کیا رہنمائی کرتا ہے۔

اسلام امن و سلامتی کا دین ہے وہ دنیا کےلیے رحمت بن کر آیا ہے اس نے ایک ایسے ضابطہ حیات کو مرتب کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام نے عملی زندگی کے لیے سب سے زیادہ ”عدل“ پر زور دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کی ہر طرح کی بے چینی اور خرابی کی اولین وجہ ”عدل“ سے انحرم ہے۔ معاشرہ میں خرابی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کے افراد عدل کو چھوڑ دیں۔ اسلام نے عدل کے متعلق تمام پہلوؤں میں رہنمائی فرمائی ہے چاہے عدل اجتماعی ہو یا انفرادی، معاشی ہو یا معاشرتی، قانونی ہو یا سیاسی۔
عدل ہی معاشرے کے بہتر نظام کا ضامن ہے، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ لوگوں کے درمیان اور زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف کو فروغ دیا جائے۔

قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے۔
ترجمہ: بے شک اللہ انصاف کرنے اور بھلائی کرنے کا رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے۔تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (سورۃ النحل)
اس آیت کے نازل ہونے کا مقصد یہی ہے تمام انسان اپنی اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کے ساتھ رہیں، ظلم و زیادتی کو ختم کریں تاکہ ان کی معاشرتی زندگی امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔

اللہ تعالیٰ فرمان کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بے شک اللہ تمہیں بڑی اچھی بات کی نصحیت کرتا ہے، یقیناً اللہ خوب سننے دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ النساء)
”اور جب لوگوں کے درمیان تم فیصلہ کرنے لگو۔“ کا مطلب ہے کہ فیصلہ کرنے والے کے لیے دونوں فریق برابر ہونے چاہئیں، چاہے وہ دوست یا دشمن،اپنے ہوں یا پرائے مسلم ہوں یا غیر مسلم، قریبی ہوں یا دور کے، امیر ہوں یا غریب، کسی بھی طرح کے ہوں، فیصلہ کرنے والے کو غیر جانبدار ہو کر عدل و انصاف کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ زندگی کے ہر شعبے میں ”عدل“ کی ضرورت ہے، خواہ اس کا تعلق ہماری اپنی ذات سے ہو یا مخلوق سے اپنی ذات کے ساتھ عدل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے لیے لباس، خوراک، آرام وغیرہ کا مناسب انتظام کیا جائے۔ مخلوق سے عدل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے حقوق پوری طرح ادا کیے جائیں اور ان کس طرح کی بھی کوتاہی نہ کی جائے۔