اسلوبیاتی تنقید

0

اسلوبیات، جدید لسانیات کی ایک شاخ ہے اور اس کی عمر بہت مختصر ہے یعنی تیس سال سے کچھ اوپر۔ہمارے ادب میں اسلوب کی اصطلاح ایک زمانے سے رائج ہے جس کا مطلب ہے بات کہنے کا انداز گویا طرز تحریر۔لیکن جب ہم ،اسلوبیاتی تنقید، کہتے ہیں تو اس کے معنی وہ نہیں ہوتے جس کی طرف فوراً ذہن جاتا ہے بلکہ اس سے تنقید کا وہ دبستان مراد ہے جو جدید لسانیات کے اثر سے وجود میں آیا۔دونوں کے فرق کو ہم اس طرح واضح کر سکتے ہیں کہ مشرقی ادبیات میں اسلوبیات میں کسی تحریر کا لازمی حصہ نہیں اس کے بغیر بھی ادبی اظہار ممکن ہے۔مصنف جب اپنی بات کہہ چکتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ اب اس میں دلکشی پیدا کرنے کے لیے کچھ آرائش و زیبائش بھی ضروری ہے اور اسے دوسروں کی تحریروں سے ممتاز کرنے کے لیے کچھ اپنی شخصیت کی چھاپ لگانا بھی لازمی ہے۔لیکن اسلوبیات کا تصور اس سے مختلف ہے۔یہاں اسلوب ادبی اظہار کے وجود کا لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔اسلوبیات اس ادبی اظہار کا تجزیہ کر کے یہ بتاتی ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہیں۔تجزیے کا یہ کام سائنٹیفک بنیادوں پر کیا جاتا ہے اور اس میں بڑی حد تک قطعیت پائی جاتی ہے۔

اسلوبیات کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ کسی خیال، کسی جذبے یا کسی تجربے کی پیشکش کا کوئی ایک مقررہ انداز نہیں۔اسے بیان کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔مصنف کو ان میں سے کوئی بھی ایک طریقہ اختیار کرنے کی آزادی ہے۔مصنف کبھی سوچ سمجھ کر اور کبھی غیر شعوری طور پر ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتا ہے۔یہ انتخاب ممکن ہے کہ مصنف کے ذوق کی کارفرمائی ہو،ہو سکتا ہے اس میں موضوع یا صنف کے تقاضے کو دخل ہو،یا پھر قاری کی صلاحیت اور پسند کا خیال رکھا گیا ہو۔اسلوبیات کا کام یہ پتہ لگانا ہے کہ ادبی اظہار کے جتنے لسانی امکانات یعنی طریقے موجود تھے ان میں سے ایک کا انتخاب کس طرح کیا گیا،نیز یہ کہ اس ادبی اظہار کی لسانی خصوصیات کیا ہیں۔اس عمل میں زبان کی مندرجہ ذیل چار سطحوں میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ یا سب کو پیش نظر رکھا جاسکتا ہے۔

  • ١ صوتیات (phonology)
  • ٢ لفظیات(morphology)
  • ٣ نحویات(syntax)
  • ٤ معنیات(semantics)

اگر صرف آوازوں کو پیش نظر رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو وہ صوتیات کے تحت آئیگا۔مختلف آوازوں کے مجموعے کو لفظ کہتے ہیں۔اسلوبیاتی مطالعہ اس سطح گویا لفظیات تک محدود ہو سکتا ہے۔لفظوں کے ملنے سے کلمہ وجود میں آتا ہے۔بات یہاں تک رہے تو گویا اسلوبیاتی مطالعہ نحویات تک محدود رہا۔اسلوبیاتی مطالعے کا دائرہ یہاں تک(یعنی معنیات تک) پھیل سکتا ہے۔یہ ممکن ہے کہ بظاہر ان میں سے صرف ایک سطح کا مطالعہ کیا جائے۔لیکن کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود زبان کا کلی تصور متنی سمیت اس میں بہرحال موجود رہتا ہے۔

اسلوبیات کا طریقہ کار اتنا قطعی اور سائنٹیفک ہے کہ اسے کمپیوٹر کی مدد سے بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔مگر اس کی اپنی کمزوریاں ہیں جس کے سبب یہ طرح طرح کے اعتراضات کا ہدف بنتی رہتی ہے۔مثلا کہا جاتا ہے کہ یہ کسی تخلیق کے لسانی خصائص واضح کر دی گئی۔اس کے لسانی امتیازات کی نشاندہی کردی گئی مگر اس کی ادبی قدر و قیمت کا تعین نہیں کر سکتی۔پروفیسر نارنگ نے نہایت تفصیل سے اس کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلوبیات کے پاس خبر ہے نظر نہیں۔جمالیاتی قدر شناسی اسلوبیات کا کام نہیں۔یہ کام ادبی تنقید کا ہے۔اسلوبیات ادبی تنقید کا بدل نہیں، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا ایک حربہ ہو سکتی ہے۔کسی فن پارے کے امتیازی نقوش کا تعین کرنے کے ساتھ ہی اس کا کام ختم ہو جاتا ہے اور یہاں سے ادبی تنقید اور جمالیات کا کام شروع ہوتا ہے۔

اسلوبیات کی ایک کمزوری یہ بتائی جاتی ہے کہ مختصر سی نظم یا غزل کے تجزیے میں تو اس سے مدد لی جاسکتی ہے لیکن ضخیم ناول اور افسانہ اس کے قابو میں نہیں آ سکتا۔اسلوبیات کی اصطلاحوں کو سمجھنا بھی دشوار ہے خاص طور پر عام قاری کے لیے۔

جن ماہرین نے اسلوبیات کی طرف توجہ کی ہے ان میں اہم نام ہیں۔ رومان جبکیبسن،لیوسپٹیر،اسٹیفن آلمان اور رچرڈ اویمان۔ہمارے یہاں اسکی طرف بہت کم توجہ ہوئی ہے۔پروفیسر نارنگ نے البتہ اس طرف بطور خاص توجہ کی ہے۔ہم نے اس مختصر مضمون کی تیاری میں انہی کی تحریروں سے مدد لی ہے۔