اس کا خرام دیکھ کے،جایا نہ جائے گا

0

غزل

اس کا خرام دیکھ کے،جایا نہ جائے گا
اے کبک،پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
ہم رہر وانِ راہ فنا ہیں، بہ رنگ عمر
جاویں گے ایسے، کھوج بھی پایا نہ جائے گا
پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
اب دیکھ لے،کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
یاد اُس کی اتنی،خوب نہیں مؔیر!باز آ
نادان!پھر وہ جی سے بُھلایا نہ جائے گا

تشریح

پہلا شعر

اس کا خرام دیکھ کے،جایا نہ جائے گا
اے کبک،پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا

شاعر کبک بری سے مخاطب ہے۔مشہور ہے کہ اس کی چال بڑی دلکش ہوتی ہے۔آبشار اس سے کہتا ہے کہ میرے محبوب کا حرام یعنی نازو ادا بھری چال ایسی ہے کہ اس کو دیکھنے کے بعد تم سے جایا نہیں جائے گا،چلنا تو دور کی بات ہے۔تم اس میں اس قدر کھو جاؤ گے کہ اپنے حال میں واپس آنا بھی مشکل ہو گا۔

دوسرا شعر

ہم رہر وانِ راہ فنا ہیں، بہ رنگ عمر
جاویں گے ایسے، کھوج بھی پایا نہ جائے گا

شاعر کہتا ہے کہ ہم راہِ فنا کے مُسافر ہیں اور عمر کی مانند کے جو گزر گئی اس کا نشاں بھی باقی نہیں رہتا۔ایسے گزر جائیں پھر ڈھونڈ پانا ممکن نہیں ہوگا۔

تیسرا شعر

پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل
تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا

محبت کے رنج و الم میں دل ایک پھوڑے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔اور شاعر کہتا ہے کہ اگر رنج و غم کی یہی صورت ہے اور ساری رات یہ دل پھوڑے کی طرح پکتا رہا تو صبح تک اس کی حالت نا قابل برداشت ہو جائے گی۔اس کو ہاتھ تک نہیں لگایا جا سکے گا۔

چوتھا شعر

اب دیکھ لے،کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے۔کہتا ہے کہ ہمارے دل کی حالت اگر تم دیکھنا چاہتے ہو تو دیکھ لو کہ ابھی تازہ ہی سینہ چاک ہوا ہے۔پھر اس کے بعد ہم سے دکھایا نہیں جا سکے۔کیونکہ پھر درد میں اور شدت پیدا ہو جائے گی۔

پانچواں شعر

یاد اُس کی اتنی،خوب نہیں مؔیر!باز آ
نادان!پھر وہ جی سے بُھلایا نہ جائے گا

اے مؔیر محبوب کی یاد دل میں رہنا اچھی بات ہے لیکن اتنی شدت سے اسے یاد کرنا بھی اچھا نہیں ہے۔اے نادان، وہ تو کبھی کسی سے وفا نہیں کرتا اور اگر اس کی یاد کو اس طرح دل سے لگا لو گے تو بھلانا مشکل ہو جائے گا۔