اقبال کی شاعری میں عظمتِ انسانی کے نقوش

0
                عروجِ آدم ِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
                  کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ ِ کامل نہ بن جائے

               اقبال جدید دور کے عظیم شاعر اور بلند پایہ مفکر ہیں۔ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مختلف زاویوں سے ان پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن ان کے فکروفن کی تہہ تک بہت کم لوگ پہنچ سکے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اقبال کی شخصیت میں ایسی ہمہ گیری ہے کہ ہر شخص اس آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اپنے مطلب کی باتیں نکال کر اس بات کا دعوٰی کرتا ہے کہ اس نے فکرِ اقبال کے صحیح خدوخال کو سمجھ لیا ہے۔ یہ اقبال کی بڑائی کی دلیل ضرور ہے لیکن اس صورتِ حال نے انہیں نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ان کے فکروفن کا جیسا تجزیہ ہونا چاہیے تھا،  نہیں ہوسکا۔

اقبال کی شاعری کے اثرات اردو شاعری پر بڑے گہرے اور ہمہ گیر ہیں۔ شاید ہی ان کے بعد کا کوئی اردو شاعر ایسا ہو جو ان سے متاثر نہ ہوا ہو۔ اقبال نے سب سے پہلے زندگی کے بنیادی موضوعات پر قلم اٹھایا تھا اور انقلاب کی ایک جھلک دکھائی تھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے فلسفی کے دماغ اور شاعر کے دل کے ساتھ ساتھ ایک انسانی شعور کی بھی ضرورت ہے۔ اس انسانی شعور کی روشنی میں ایک تجزیاتی اور تحقیقی زاویہ نظر کے بغیر ان کو سمجھا نہیں جا سکتا ۔ انسانیت اور انسان دوستی کا یہ شعور تو ان کے سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہی محور ہے جس کے گرد ان کے تمام افکار و خیالات گھومتے ہیں ۔ وہ بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے۔یہ خیالات ان کے لوگوں کے لئے کسی قدر عجیب اور نامانوس ضرور ہیں جو اقبال کو اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی نظام حیات کی طرف جھکتے ہوئے دیکھ کر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ صرف مسلمانوں کے شاعر ہیں۔ لیکن اقبال کے فن کو اس طرح دیکھنا اس کی روح کا خون کرنا ہے۔ اس میں تنگ نظری بھی ہے اور کم ظرفی بھی۔

اقبال اسلام کو ایک اہم انسانی تحریک سمجھتے ہیں۔ یہ تحریک ان کے خیال میں انسانی دوستی کا سبق دیتی ہے۔ ملک وملت کے تفرقے مٹانا چاہتی ہے۔ طبقاتی تفریق کو ختم کرنا چاہتی ہے انسانوں کو صحیح معنوں میں انسان بنانا چاہتی ہے ۔ اقبال اس تحریک کے مفکر ہیں۔ اسی کے ترجمان ہیں ۔ اسی کے علم بردار ہیں۔

ہوس نے کردیا ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
                 اخوت کا بیان ہو جا محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی وخراسانی،  یہ افغانی وہ تورانی
                تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا

یہ اخوت کا بیان ہونا،  یہ محبت کا زبان ہو جانا ، یہ اچھل کر بیکراں ہوجانا اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے ۔ اقبال کی تعلیم اور ان کے فلسفے کی باتیں اس کے اندر موجود ہیں۔

ان کی نگاہیں سلطان جمہور کو آتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ وہ ہر نقش کہن کو مٹانا اور جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو اس کے ہر خوشئہ گندم کو جلانا چاہتے ہیں۔

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو 
  کاخ ِ امراء کے در و دیوار ہلا دو  
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے 
 کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانی ِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
  جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
              اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو

اقبال عظمتِ انسانی کے قائل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کی جب کہیں تمام تر امتیازی خصوصیت یکجا ہو جاتی ہیں تو ایک انسانِ  کامل وجود میں آتا ہے جس کو وہ مردِ مومن کہتے ہیں۔ اس مردِ مومن کی تمام صلاحیتیں انسانی زندگی کو عظمت اور بلندی سے ہمکنار کرنے کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ اس کی ہستی میں ایمان کی روشنی ہوتی ہے ۔ عمل کی قوت ہوتی ہے وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ زندگی کو ذوق پرواز عطا کرتا ہے ۔ سفر کو منزل سے بڑھ کر پسند کرتا ہے،  محبت کو اپنا مسلک جانتا ہے،  کبھی نا امید نہیں ہوتا بلکہ ناامیدی کو زوالِ علم و عرفان سمجھتا ہے۔ اس کی امیدیں خدا کے رازدانوں میں ہوتی ہیں۔ اس کی نظر میں تلوار کی تیزی کا جادو ہوتا ہے اور اس کی نگاہ سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
              نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
از تحریر صائقہ غیاث
درگاپور ، مغربی بنگال