اللہ اور اس کے رسول کی محبت و اطاعت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 15:

سوال۱: اللہ تعالیٰ کی محبت و اطاعت پر تفصیلی جواب تحریر کریں۔

جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے کائنات پیدا کی اور اپنے فضل خاص سے انسانوں کو تمام مخلوقات سے برتری اور فضیلت عنایت فرمائی۔ انسان کے لئے تمام کائنات کو بنایا۔ انسنا کو عقل، شعور اور احساس عنایت فرما کر اسے کائنات پر حاکم مقرر فرمایا اور سب سے بڑا اعزاز ”خلیفہ اللہ“ کا عنایت فرما کر اپنی نوری مخلوق فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے سامنے جھک جائیں اور اسی ضعیف البنیان انسنا کی ایسی عزت افزائی فرمائی کی عزازیل شیطان کو جس کی تخلیق و پیدائش آگ سے کی گئی تھی انسان کے سامنے سجدہ نہ کرنے اور خود کو انسان سے افضل و برتر سمجھنے کی پاداش میں ملعون اور راندہ درگاہ بنا دیا، پھر اپنی پسندیدہ مخلوق کو ایسا بلند مقام عنایت فرمایا جو صرف اللہ کے بے پایاں کرم کا ہی نتیجہ ہے۔

یہ سب کچھ کیوں ہو اور انسان اس بلند مقام پر کس لئے پہنچایا گیا؟ یہ خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا یہ بھی اس کے بے اندازہ کرم و عنایت ہے کہ ”جن اور انسان کو سوائے اس کے اور کسی وجہ سے پیدا نہیں کیا گیا کہ وہ اللہ کی بندگی اوراس کی عبادت کریں۔“(سورۃ الزاریات: ۵۶)

اس لئے انسان کا فرض یہ قرار دیا کہ قادر مطلق کی پیدا کی ہوئی ہر نعمت سے فائدہ اٹھائے لیکن جن چیزوں کے استعمال سے اللہ نے منع کیا ان سے بازر ہے یہ بھی اسی کی عنایت ہے کہ اس نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء علیہم الصلٰوۃ السلام کے ذریعہ ہر نقصان ہر نقصان دہ اور مضر رساں چیز کے استعمال سے دوررہنے کی ہدایت فرمائی اور ہمیں اپنے بلند منصب اور شرف انسانیت کے ساتھ دنیا میں باعزت زندگی کے طریقے بتائے۔

ان تمام احسانات کا اعتراف اور اپنے رب کے احکام کی پیروی کا ہمیں سبق بھی دیا اس لئے اس کے اس کرم کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اس کے احسانات کو یاد کریں اس سے محبت کریں اور اپنی بساط کے مطابق اس کی ہدایات پر خوشدلی اور احسان مندی سے عمل کرکے اپنی زندگی کو کامیاب اور خوشگوار و مطمئن بنائیں۔

یہ جان کربھی کہ وہ قادر مطلق جس نے اپنے اختیار و قدرت سے ہمیں پیدا کیا اور زمین سے آسمان تک تمام مخلوق کو صرف اس لئے برسر پیکار بنایا کہ انسنا سے فائدہ حاصل کرے۔ہماری کسی فعل سے خواہ کتنا ہی بہتر ہو اللہ کی ذات بے نیاز ہے ہماری اطاعت اور مسجدوں سے اسکی ذات زیادہ بلند نہیں ہوجاتی بلکہ اس سے خود ہماری ذات کو فائدہ پہنچتا ہے اس لئے عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم پانی ہی بہتری اور برتری کے لئے اس کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کریں اور اسکے احکام کی تعمیل اپنے فائدہ کی خاطر کریں اسی میں ہمارا فائدہ ہے بلکہ اللہ کی ذات سے زیادہ خود ہمارا نفع اسی میں ہے کہ ہم اس کے فرمانے پر عمل کریں اور اس کے احکام کی اطاعت صرف اپنے فائدہ کے لئے کریں تو یہی فلاح کی راہ ہے۔

جس حقیقی قادر نے ہمیں یہ سب کچھ دیا وہ اگر چاہے توسب کچھ چھین لینے کی بھی قدرت رکھتاہے جس میں سراسر ہمارا نقصان ہے تو ہمارا انسانیت کی رو سے یہ فرض ہے کہ اسکے کرم و احسان کو یاد کرکے خوشی خوشی اس کے ہر فرمان پر عمل کریں اسی میں ہمارا بھلا ہے جب کہ ہمارا پیدائش خود ہمارے اختیار کی نہ تھی اور زندگی کا خاتمہ بھی اپنے اختیار کا نہیں الئے عقل بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ سوائے احکام الہیٰ کی پیروی کے ہمارے سامنے کوئی دوسری راہ نہیں ہے اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے لئے کون ساراستہ اختیار کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ وہی راہ اختیار کریں گے جس میں ہمارا فائدہ ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ سے محبت اور اس کے احکام کی اطاعت سے بہتر کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہو سکتا جو ہماری زندگی کے لئے خوشگواری اور اطمینان پیدا کرسکے۔ یہ قطعی بات ہے جس سے کوئی عقلمند اور ذی شعور انکار نہیں کرسکتا جو اس طرف توجہ نہ کرے وہ بڑا بدنصیب ہے۔

سوال۲:رسول اللہﷺ کی محبت و اطاعت پر تفصیلی جواب تحریر کریں۔

جواب:اللہ تعالیٰ خود ہمارے سامنے نہیں نہ ہم اپنی اس مادی آنکھ سے اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ نہ ہماری عقل اس بے ہمت اور بے مثال ذات کو جان سکتی ہے۔ ہماری تمام قوتیں محدود ہیں اور اللہ کی ذات انسان کی عقل، سمجھ دانش سے بلند ہے اس لئے انسان کے لئے یہ بڑی مشکل تھی کہ وہ کس طرح اپنے خالق کی مرضی اور منشاء کو سمجھے اور وہ کیا ذریعہ ہو سکتا تھا کہ اس کے وسیلہ سے اللہ کی رضا اور خوشنودی کی راہ معلوم کی جائے۔ لیکن اس ذات نے اپنی قدرت سے کائنات پیدا کی اور ان کو شرف و فضیلت عنایت کی تو کس طرح اسے سرگرداں چھوڑ سکتی تھی۔

اس لئے اس نے اپنے کرم سے اپنے انبیاء نازل فرمائی اور ان کے ذریعہ اپنے احکام ہم تک پہنچائے تمام انبیاء اپنے اپنے زمانہ میں اپنی امتوں کے راہ نما تھے اور سب سے آخر احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرماکر تکمیل دین فرمائی اور اپنے کلام پاک کے ذریعہ ہمیں بتایا۔
”یعنی(اے نبی)آپﷺ کہہ دیجئے کہ تم اگر (واقعی) اللہ سےمحبت رکھتے ہو تو میرا یہ اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔“

اس آیت سے رب العزت کامنشاء ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کا عملی نمونہ رسولﷺ کے اعمال یعنی سنت نبویﷺ کو بتایا اور فرمایا کہ میری خوشنودی اور رضا اسی پر منحصر ہے کہ تم میرے احکام پر عمل کرو جو سنت رسولﷺ کے ذریعہ تمہارے سامنے آئے۔ اس کے علاوہ مختلف آیتوں کے ذریعہ تاکید کی رسولﷺ کی اطاعت عین حکم باری تعالیٰ کی تعمیل ہے چنانچہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔
”دیکھنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں اپنی اطاعت کا حکم ”اطعوا“ارشاد فرمایا بالکل ان ہی الفاظ میں رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم بھی دیا۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہﷺ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔
پھر ایک دوسرے مقام پر تاکیداً فرمایا گیا۔
”یعنی جو کوئی اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلاہو گیا۔“(سورۂ الاحزاب:۳۶)

غرض قرآن حکیم میں بار بار اطاعت رسولﷺ کی تاکید کی گئی۔اس کی وجہ واضح ہے کہ ہم تک اللہ کے احکام کا پہنچانے والا سچا اور مصدقہ ذریعہ رسولﷺ کا ہے جو اللہ کا کلام تک پہنچاتے ہیں اور ان احکام پر عمل کرکے بھی اس کی وضاحت فرمادیتے ہیں۔
اب ہم حضور نبی اکرمﷺ کے ارشادات کو پیش کرتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔

حجۃ الوداع میں آپﷺ نے اپنے اہم خطبہ میں فرمایا:
”میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ جا رہا ہوں جب تک تم اسے مضبوط سے تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگی۔ ایک کتاب اللہ، دوسری میری سنت۔“

حضور اکرمﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
”میں تمہارے پاس وہ شریعت لایا ہوں جو سورج کی طرح اور آئینہ کی طرح صاف ہے اور اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری پیروی کرنی پڑتی۔“

آپﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو۔