انشایہ اور مقالہ میں فرق

0

مقالہ کی امتیازی خصوصیت سنجیدگی ہے۔عالمانہ ،استوار اور متوازن فکر خیز سنجیدگی۔ مقالہ نگار کسی موضوع پر سنجیدگی سے روشنی ڈالتا ہے۔ یہ روشنی براق ہوتی ہے۔ ایسی براق کہ نفس تحریر کا ہر گوشۂ منور ہو جاتا ہے۔ہم اس تحریر کو پڑھتے ہیں اور موضوع تحریر یعنی نفس مقالہ سے اچھی خاصی واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔

انشایہ نگار بھی کسی امر پر روشنی ڈالتا ہے۔لیکن یہ روشنی یک رنگ نہیں ہوتی۔یہ صاف و شفاف بھی نہیں ہوتی۔یہ صبح کا اجالا ہو تی ہے۔کچھ صاف اور کچھ ملیی۔ یہ روشنی ہماری توجہ کو ایک ہی سمت نہیں لے جاتی بلکہ اسے اٹھکھیلیاں کراتی ہے۔

مقالہ پڑھنے کے بعد ہم کچھ سیکھتے ہیں یا پاتے ہیں۔اسی بات یا خیال جس سے ہماری عالمیت میں گوناگوں اضافہ ہو تا ہے اور جس سے ہمیں علم کی تابانی وطمانیت میسر ہو تی ہے۔

انشایہ ہمیں غیر سنجیدہ بناتا ہے۔اس غیر سنجیدگی سے ہم پاتے ہیں، اپنے روزو شب میں کھلی آنکھوں سے روپوش ایک لطیف فکر و فہم کا وجود، جو ٹھوس اور جامد حقائق اور نظر سے چھپا رہتا ہے،جسے روشن چراغ کے نیچے اندھیرا۔

مقالہ،سنجیدگی بخشتا ہے۔اس سے جینے اور سنورنے کی امنگ ملتی ہے۔انشایہ غیر سنجیدہ بناتا ہے ۔اس سے کچھ دیر کے لئے جھکپی آتی ہے۔جو جاگنے میں سونچ کا لطف ہے۔مقالوں کی سنجیدگی اور بے کیف سنجیدگی سے تکان کا احساس ہوتا ہے۔جسے ایک پہلو بیٹے یا ایک کروٹ لیٹے اعصابی تنائو___اس ذہنی انجماد کو انشایہ کا ترنگ ہی دور کر سکتا ہے____مقالہ میں معلومات کا دخل رہتا ہے اور انشایہ میں تاثرات کا مقالوں کا کام فکر خیز ی ہے۔اور انشایہ کا کیف انگریزی۔

مزے یہ دل کے لئے ہیں،نہیں زباں کے لئے مقالہ نگار اصلا معلم ادب ہوتا ہے۔اس کا کام درس وتدریس ہے۔وہ سنجیدہ بات کہتا ہے، دانش ورانہ اور مدبرانہ انداز سے کہتا ہے۔ اس میں متانت کے ساتھ دیانت بھی ہوتی ہے۔ اس کا شیوہ لفاظی نہیں ۔وہ جو جانتا ہے کہتا ہے اور جتنا جانتا ہے۔بتاتا ہے۔ایک نہایت دلچسپ خوش بیان عموماً غیر سنجیدہ موضوع / مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ اور غیر سنجیدہ لب و لہجے سے کہتا ہے۔وہ جتنا جانتا ہے ، اس سے زیادہ سناتا ہے۔لیکن اس کی بات بکواس نہیں بلکہ با اثر وبا کار ہوتی ہے۔ اس خو ش گفتگوری سے ہماری طار فکر کو پر گتے ہیں۔

مقالہ اور انشایہ نثر ی ادب کے دو توانا اصناف ہیں۔اور اس پاس کے اصناف مگر مقالوں کی روحانی تربیت ادب سنجیدہ انجام دیتا ہے۔اور جسمانی پر واخت ادب لطیف کے سپرد ہوتی ہے۔وہ ادب لطیف کی خاک سے پیدا ہوتا ہے اور اسی کی خاک اڑاتا ہے۔