انیس اشفاق کی نثر اور تنقید نگاری

0

اردو ادب کا سنجیدہ قاری انیس اشفاق کے نام سے اچھی طرح واقف ہے۔ انیس اشفاق نے اردو ادب کے سبھی چشموں سے پانی پیا ہے۔ وہ ایک ہی وقت میں ناول نگار، افسانہ نگار، محقق اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین مترجم اور شاعر ہیں۔

شاعری میں انہوں نے اپنی والدہ محترمہ سے اصلاح لی۔ وہ انہیں شعر پڑھنا سکھاتیں اور انہیں چھوٹی چھوٹی تقریریں لکھ کر دیتیں۔ تقریر کے دوران ان کا تلفظ بھی درست کرواتی رہیں۔ انیس اشفاق نے بچپن ہی سے شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے سے کیا۔ بچپن ہی سے ان کی طبیعت لکھنے کی طرف مائل تھی۔ اسی جذبے نے انہیں ناول نویس ،افسانہ نگار، نقاد اور مترجم بنا دیا۔

٢٠١٤ء میں ان کا پہلا ناولٹ “دکھیارے” منظر عام پر آیا۔ یہ سراسر ان کی آپ بیتی ہے۔ اس ناول میں انہوں نے “بڑے بھیا” کے کردار کو ایک لافانی کردار کے طور پر پیش کیا۔ ان کے بیانیے میں دو چیزیں شامل رہیں، ایک ان کی آپ بیتی اور دوسری لکھنوی تہذیب و معاشرت اور اس کے زوال کی عکاسی۔

اس کے بعد ان کا دوسرا ناول “خواب سراب” ٢٠١٧ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ ناول رسوا کے ناول “امراؤ جان ادا” کا تسلسل ہے۔ اس ناول میں مصنف “امراؤ جان ادا” ناول کے اصلی مسودے کی تلاش میں لکھنؤ کی گلیوں بازاروں میں نکلتا ہے۔ مصنف اصلی مسودے کی تلاش محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ امراؤ جان ادا کی باقی زندگی کے بارے میں بھی جان سکے۔

اس ناول میں انہوں نے امراؤ جان ادا کی بیٹی شمیلہ کے کردار سے بھی قاری کو واقف کروایا ہے۔ اس میں لکھنؤ کی تہذیب و ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس ناول کا اسلوب مرزا رسوا کے ناول “امراؤ جان ادا”کے اسلوب سے ملتا جلتا ہے۔ قاری کو گمان ہوتا ہے کہ وہ “امراؤ جان ادا” ناول کا مطالعہ کر رہا ہے۔

اس کے بعد ان کا تیسرا ناول “پری ناز اور پرندے” ٢٠١٨ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ یہ ناول نیئر مسعود کے طویل افسانے “طاؤس چمن کی مینا” کا تسلسل ہے۔ اس میں فلک آراء کی بیٹی فرش آراء کا کردار اضافی طور پر شامل کیا گیا ہے۔ تینوں ناولوں میں آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے زمانے کے لکھنؤ کی گلیوں، بازاروں اور تہذیب و ثقافت کی جھلک ہے۔ قاری کو گمان ہوتا ہے کہ وہ مصنف کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔

انیس اشفاق کے ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری، شیعہ سنی فسادات، کبوتروں اور پرندوں کا ذکر، درختوں سے محبت، آسیب، وزیروں کی غداری، لکھنؤ کی بربادی، سانپ، بھگدڑ اور اس سے ہونے والا نقصان ، جانوروں سے محبت، سلطان عالم کے کارناموں کا ذکر، واجد علی شاہ کے خلاف انگریزوں کی سازشیں، لائبریریوں کا ذکر، طوائف، خطاطی اور نستعلیق کا ذکر اور منظر نگاری کے عمدہ نمونے دستیاب ہیں۔

اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں علم، امام باڑوں، مجلسوں، مسجدوں اور مندروں کا ذکر ہے۔ محبت کی حرارت بھی ان کے ناولوں کو حسن بخشتی ہے۔ کربلا کا ذکر بھی وہ نہایت نفاست سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے ناولوں میں آپ بیتی، خط اور فلیش بیک کی تکنیک کا بھی استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ آزاد کرداروں کی تخلیق میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے کردار اسی مقصد پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس مقصد کے لیے انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔ وہ نرالے اسلوب کے مالک ہیں۔ ناولوں کے تمام واقعات میں ربط پایا جاتا ہے۔ وہ انتہائی سادگی سے سارے حالات و واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔ البتہ ان کے ناولوں میں تاریخ نگاری کے آثار بھی موجود ہیں۔

انیس اشفاق نے افسانے بھی لکھے ہیں، ان کا پہلا افسانوی مجموعہ “کتبے پڑھنے والے” ٢٠١٥ء میں منظر عام پر آیا۔ اس میں کل آٹھ کہانیاں ہیں۔ کچھ کہانیوں کو انہوں نے نامکمل کہہ کر اس مجموعے میں شامل نہیں کیا۔ وہ “شب خون” کے لیے بھی کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ ان کی ہر کہانی میں ایک نیا سبق ہے۔

بظاہر ان کا کسی گروہ یا جماعت سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، لیکن ان کی کہانیوں میں جدیدیت کی جھلک موجود ہے۔ وہ شخصی کرداروں کا بہت کم استعمال کرتے ہیں۔ افسانوں میں بھی انہوں نے آپ بیتی، مکتوب نگاری اور فلیش بیک کی تکنیک کو استعمال کیا ہے۔ وہ بہت بڑے حقیقت نگار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے “Missing Persons”، ہسپتال کے مسائل، لکھنوی تہذیب اور کڑوے حقائق پر بات کی ہے۔ معاشرے میں ہونے والی قتل و غارت پر بھی وہ خاموش نہیں ہیں۔

ان کی کہانیوں میں آسیب، مردہ خانوں اور قبرستانوں کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ جادوئی حقیقت نگاری ان کے افسانوں کی پہچان ہے۔ عہد آصفی کی خصوصیات کا ذکر بھی انتہائی خوبصورتی سے کرتے ہیں۔ لکھنؤ کی ویرانی پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ ہم عصر افسانہ نگاروں میں، انیس اشفاق ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ وہ کہانی نہیں لکھتے بلکہ کہانی انہیں لکھتی ہے۔

معاصر تنقید نگاروں میں انیس اشفاق ایک اہم نقاد بن کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین رسالہ” کتاب”، “آہنگ” اور” شب خون” میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ١٩٩٦ء میں ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ کتابی صورت میں بنام “ادب کی باتیں” منظر عام پر آیا۔ اس کتاب کو ادبی حلقوں میں رشک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کتاب میں چودہ مضامین شامل ہیں۔ ٢٠٠٩ء میں ان کے تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ “بحث و تنقید” شائع ہوا۔ اس میں چوبیس مضامین شامل ہیں۔ دونوں کتابوں میں مختلف نوعیت کے مضامین شامل ہیں۔ انہوں نے غزل، نظم اور نثر پر اپنی آراء پیش کی ہیں۔ غزل میں انہوں نے غزل کی تدریس اور اس کے اصولوں کے علاوہ مختلف غزل گو شعراء کے مقام و مرتبے کے تعین کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ غزل میں علامت اور اس کے استعمال پر بھی اظہار خیال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان کے چھ مضامین نظم کے حوالے سے بھی ہیں۔ میر انیس کی قصہ گوئی کو انہوں نے بے حد پسند کیا ہے۔ دبیر کے مرثیوں کو بھی انہوں نے پسند کیا ہے اور ان کے مقام کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ مراثی انیس میں دریا کے رنگوں پر بات کی ہے اور مثالوں سے ثابت کیا ہے کہ انیس کے مرثیوں میں دریا ایک حرکی پیکر ہے۔

نثر کے حوالے سے مضامین میں انہوں نے کامیوکی ادبی خدمات اور راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں پر بات کی ہے۔ سانحہ کربلا کو بطور شعری استعارہ استعمال کرنے کے حوالے سے وہ پاکستانی شاعروں کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے رشید احمد صدیقی کے طنز و مزاح کو معاشرتی حقیقت نگاری سے جوڑا ہے۔ عزیز احمد کو نئے افسانے کا پیشرو قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے چند مضامین نقد الانتقاد کے حوالے سے بھی ہیں۔

تراجم نگاری کے حوالے سے بات کی جائے تو انیس اشفاق کے تراجم میں معاشرتی مسائل کا ذکر بڑے احسن طریقے سے کیا گیا ہے۔ وہ خاص طور پر ازدواجی مسائل کا ذکر اور ان کا حل پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کے تراجم میں علاقائی رنگ بھی ہےاور آفاقیت بھی موجود ہے۔ وہ زیادہ تر آفاقی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ ازدواجی مسائل آفاقیت کے ضمن میں آتے ہیں۔ وہ ان ازدواجی مسائل پر خاموش رہنا پسند نہیں کرتے ہیں۔

انیس اشفاق نے تراجم کے علاوہ سفر نامہ اور رپورتاژ بھی لکھا ہے۔ سفر نامہ لکھتے ہوئے انہوں نے قاری کو ہر منظر کیمرے کی آنکھ سے دکھانےکی کوشش کی ہے۔ رپورتاژ پڑھتے وقت قاری خود کو مصنف کے ہمراہ پاتا ہے۔ کہاجاسکتا ہے کہ انیس اشفاق نے محض ایک ہی صنف پر اکتفا نہیں کیا۔ وہ کثیرالجہات ہیں اور انہوں نے اردو ادب کے تمام چشموں سے پانی پیا ہے۔ وہ نثر لکھنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ بلا شبہ انیس اشفاق دورِ حاضر کے بڑے ناول نویس ، افسانہ نگار، نقاد اور مترجم کے طور پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تحریر امتیاز احمد
انیس اشفاق کی نثر اور تنقید نگاری 1