اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی تشریح

0

آرزو لکھنوی کی غزل کی تشریح

سوال:-آرزو لکھنوی کی حالات زندگی اور شاعرانہ خصوصیت پر روشنی ڈالیے۔

  • نام : سید انور حسین
  • تخلص : آرزو
  • پیدائش : 1872ء لکھنؤ
  • وفات : 1951ء
  • والدکا نام : میر ذاکر حسین تھا۔ یہ بھی ایک شاعر تھے اور ان کا تخلص “یاس” تھا۔

تعلیم: سید انور حسین آرزو لکھنؤ کے رہنے والے تھے۔ آرزو لکھنوی نے فارسی اور اپنے زمانے کے دوسرے علوم کی تعلیم لکھنؤ میں حاصل کی۔ خاص طور پر عروض (یعنی وہ علم جس سے نظم کے قواعد معلوم ہوتے ہیں) اور قواعد میں مہارت حاصل کی۔ آرزو لکھنوی نے میر ضامن علی جلال لکھنوی جو اس وقت کے مشہور شاعر تھے اِن کو اپنا استاد بنایا۔ استاد کی وفات کے بعد آرزو لکھنوی ان کے جانشین مقرر ہوئے۔

ملازمت: آرزو لکھنوی نے کلکتہ اور بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں کے لیے ڈرامے لکھے مثلاً: “متوالی جوگن” اور “دل جلی بیراگن” وغیرہ اور فلموں کے لیے بھی کچھ گیت لکھے۔

شاعرانہ خصوصیات

آرزو لکھنوی نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ آرزو لکھنوی نے غزلوں کے علاوہ مرثیہ، مثنوی، رباعی، قطعات اور گیت بھی لکھے ہیں۔ لیکن آرزو لکھنوی کو شہرت غزلوں سے ملی ہے۔ ان کی غزلوں میں انفرادیت “یعنی ذاتی خصوصیت ہے” جو دردانگیزی اور رنج و الم کے مخصوص اظہار سے پیدا ہوئی۔ آرزو لکھنوی نے عربی اور فارسی کی بجائے ہندی کے سہل/آسان الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہی نہیں ان کی غزلوں میں متانت “یعنی زبان کا بے ہودہ الفاظ اور خیالات سے پاک ہونے” اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ شوخی بھی ہے۔ آرزو لکھنوی محاوروں اور ضرب المثل سے اپنے کلام میں معنوی حسن پیدا کرتے ہیں۔ اس سے ان کی زبان کی قدرت کا پتہ چلتا ہے۔

آرزو لکھنوی نے “نظام اردو” اردو زبان سے متعلق ان کا اہم رسالہ ہے اور ان کے کلام کے چار مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ “فغاں آرزو، جہان آرزو، بیان آرزو اور سریلی بانسری” قابل ذکر ہے۔

سوال1:مندرجہ ذیل غزل کے اشعار کی تشریح کیجئے۔

اوّل شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
  • معنی:- اول شب : رات کا پہلا پہر
  • بزم : محفل
  • شمع : چراغ (مراد حُسن)
  • پروانہ : پتنگا (مراد عاشق)
  • افسانہ : قصہ/ کہانی/داستان
  • حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے۔ آرزو لکھنوی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: آرزو اس شعر میں کہتے ہیں کہ جب رات کے پہلے پہر کوئی محفل آراستہ (سجائی) کی جاتی ہے۔ تو اس محفل میں شمع روشن کی جاتی ہے۔ اور شمع روشن ہونے پر پروانے آکر اس پر نثار ہونے لگتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے رات گزرتی ہے تو شمع بھی پگھل کر ختم ہو جاتی ہے اور شمع کے ختم ہونے پر نہ روشنی ہوتی ہے نہ رونق۔ یعنی بزم کی رونق ختم ہو جاتی ہے۔
مطلب:- رات کے ختم ہوتے ہوتے حسن (شمع) کا عاشق (پروانہ) کا فسانہ ختم ہو جاتا ہے۔ (یعنی جب تک حسن ہے تو اس کے چاہنے والے بھی بہت ہے۔ اور جب حسن نہیں تو پروانے (عاشق) بھی نہیں۔

ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے پانی، ڈوب چلا مےخانہ بھی
  • معنی:- ساغر : پیالہ
  • بے کیفی : جس میں کوئی مزا نہ ہو
  • مے خانہ : شراب خانہ

حوالہ:یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے۔ آرزو لکھنوی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح:- آرزو لکھنوی کہتے ہیں کہ بہار کا موسم ہو یا ابر چھایا ہو۔ تو شراب پینے میں خاص لطف (مزہ) آتا ہے۔لیکن موسم کی کی بے کیفی ہو تو مےخوار (شرابی) کو وہ سرور (نشہ) شراب پینے نہیں آتا،جو بہار کے موسم میں آتا ہے۔ ایسے بے کیفی موسم میں وہ غصے سے گلاس کو زمین پر گرا دیتا ہے۔
شاعر نے اس کیفیت سے فائدہ اٹھا کر کہا کہ ایسا کون سا شرابی ہے جس کے ساغر پٹکنے سے قدرت کو مے خوار (شرابی) کی جھنجھلاہٹ پر رحم آگیا اور اتنا پانی برسایا کے شراب خانہ ڈوبنے لگا۔

ایک لگی کے دو ہیں اثر اور دونوں حسبِ مراتب ہیں
لو جو لگائے شمع کھڑی ہے، رقص میں ہے پروانہ بھی
  • معنی:- حسبِ مراتب : مرتبے کے مطابق
  • رقص : ناچنا

حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے۔ آرزو لکھنوی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: شاعر اس شعر میں کہتا ہے کہ عشق کا اسر شمع اور پروانے دونوں پر برابر ہو رہا ہے۔ دونوں کی کیفیت ایک جیسی ہے۔ شمع لو لگائے (روشن ہونا) کھڑی ہے اور اس روشنی کو دیکھ کر پروا نہ آکر اس کا طواف (ارد گرد گھومنا) کرتا ہے۔ اور اس کے قریب جان دے دیتا ہے۔ اور آخر میں شمع بھی پگھل کر بجھ جاتی ہے۔
(شاعر نے دل کی لگی کو رقص کرنے سے تعبیر کیا ہے۔)

دونوں جلانِ گاہِ جنوں ہیں بستی کیا ویرانہ کیا
اٹھ کے چلا جب کوئی بگولہ، دوڑ پڑا دیوانہ بھی
  • معنی:- جلانِ گاہِ جنوں : وہ میدان جہاں دیوانگی کا اظہار کیا جا سکے

حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے۔ آرزو لکھنوی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک سچے عاشق کے لیے بستی ہو یا ویرانہ دونوں ایسی جگہ ہیں۔ جہاں دیوانگی کا اظہار کیا جا سکے۔ جب کوئی عاشق بگولے کو جاتے دیکھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر یہ اثر ہوتا ہے کہ شاید یہ لیلیٰ کا کارواں ہے۔ اور وہ عاشق بھی اسی سمت دوڑنے لگتا ہے۔

حسن و عشق کی لاگ میں اکثر چھیڑ اُدھر سے ہوتی ہے
شمع کا شعلہ جب لہرایا اڑ کے چلا پروانہ بھی
  • معنی:- لاگ : انس، محبت، لگن
  • شعلہ : روشنی، چمک
  • حوالہ: یہ شعر ہماری نصاب میں شامل ہے۔ آرزو لکھنوی کی غزل سے لیا گیا ہے۔

تشریح: آرزو لکھنوی کہتے ہیں کہ عشق و محبت اور چھیڑ چھاڑ کی شروعات اکثر محبوبہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ یعنی حسن ہی عاشق کے دل میں اپنی محبت جگاتا ہے اور سچے عاشق کو آزمانے کے لیے محبوب ہی اسے چھیڑتا ہے۔ جس طرح شمع کے روشن ہونے پر پروانہ اس پر نثار ہوتا ہے۔

⭕️ مشقی سوالات و جوابات⭕️

سوال:- دبستانِ لکھنؤ کے پانچ شعرا کے نام لکھیے۔

جواب:- امام بخش ناسخ، خواجہ حیدر علی آتش، انشاءاللہ خان انشاء، جرأت، دیا شنکر نسیم، میر انیس، میر دبیر دبستانِ لکھنؤ کے شاعر ہے۔

سوال:- آرزو لکھنوی کی غزل کے امتیازات ( یہ امتیاز کی جمع ہے: فرق) کیا ہیں؟

جواب:- آرزو لکھنوی کی غزل میں فرق یہ ہے کہ انہوں نے اپنے معاصر شعراء کے مقابلے میں عربی فارسی کے مشکل الفاظ کے استعمال سے گریز کیا۔ انہوں نے غزل کو ایک نیا روپ دیا۔ اور آسان ہندی زبان کا استعمال کیا۔ جسے آرزو لکھنوی نے اردو کا نام دیا ہے۔ آرزو لکھنوی کا شمار باکمال شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے لکھنوی غزل کے رنگ کو نکھارا اور اسے نئ اور سادہ زبان دی۔

سوال:- صنعت تضاد کسے کہتے ہیں؟ اس غزل کے کن مصرعوں میں اس صنعت کو برتا گیا ہے؟

جواب:- کلام (شاعری) میں ایسے دو لفظ استعمال کیے جائیں جو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد ہوں لیکن ان کے ضد ہونے سے کلام کے مطلب میں فرق نہ آئے اسے صنعت تضاد کہتے ہیں۔
مثال:

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے میں
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

اس غزل کے پہلے، چوتھے اور پانچویں مصرعے میں صنعت تضاد کا استعمال ہوا ہے۔

🔘عملی کام:

سوال:- آرزو لکھنوی کی اس غزل سے ایسے دو اشعار کا انتخاب کیجئے جن میں عربی اور فارسی الفاظ سب سے کم استعمال کیے گئے ہوں۔

جواب:- اس غزل کے دوسرے اور تیسرے شعر میں عربی اور فارسی کے الفاظ سب سے کم استعمال ہوے ہیں۔

🔘معروضی سوالات کے جوابات:

س1۔ آرزو لکھنوی کا اصل نام کیا ہے؟

جواب:- سید انور حسین ہے۔

س2۔ آرزو لکھنوی کے والد کا نام کیا ہے اور ان کا تخلص کیا تھا؟

جواب:- والد کا نام میر ذاکر حسین تھا۔ اور اپنے وقت کے شاعر تھے۔ “یاس” تخلص کرتے تھے۔

س3۔ خاص طور پر آرزو کو کس پر مہارت حاصل تھی؟

جواب:- عروض (وہ علم جس سے نظم کے قواعد معلوم ہوتے ہیں) اور قواعد پر مہارت حاصل تھی۔

س4۔ اردو زبان سے متعلق ان کا کون سا اہم رسالہ ہے؟

جواب:- “نظامِ اردو” اہم رسالہ ہے۔

س5۔ آرزو لکھنوی کے شاعری مجموعوں کے نام لکھیں.

جواب:- “فغاں آرزو” “جہانِ آرزو” “بیانِ آرزو” اور ” سریلی بانسری” شعری مجموعے ہیں۔

س6۔ آرزو لکھنوی نے کن اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے؟

جواب:- قصیدے، مرثیے، مثنوی، رباعی، قطعات اور گیت میں طبع آزمائی کی ہے۔

تحریر طیب عزیز خان محمودی