اُداسی، بے دِلی، آشفتہ حالی میں کمی کب تھی تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فراق گورکھپوری ہے۔ یہ غزل شعلہ ساز سے ماخوذ کی گئی ہے۔

اُداسی، بے دِلی، آشفتہ حالی میں کمی کب تھی
ہماری زندگی! یارو ہماری زندگی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھپوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ آدمی کو زندگی میں مشکلات جھیلنی پڑتی ہیں۔ وقت ایک جیسا نہیں رہتا کبھی اچھا ہوتا ہے کبھی برا۔ ایسے ہی انسان کو جب چوٹ لگتی ہے تو کوئی چوٹ چھوٹی موٹی خراش ہوتی ہے اورکوئی برا گھاؤ۔ عشق بھی برا گھاؤ ہے جو ایک بار انسان کے وجود پر لگ جائے تا دم مرگ نشان چھوڑ دیتا ہے۔ شاعر کہتے ہیں ایسے ہی میرے دل میں بھی اداسی، پریشانی اور افسردگی نے جگہ بنا لی ہے۔ اب مجھے ان تکالیف سے زرا نجات پل بھر کو مجھ سے رفع نہیں ہوتے جس وجہ سے اب میری زندگی میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ۔ میری زندگی اب مکمل طور پر دکھوں اور تکیفوں کے قبضہ میں ہے۔

علائق سے ہُوں بیگانہ لیکن اے دلِ غمگِیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا، کسی سے دوستی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھ پوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عشق میں انسان کسی کی نصحیت پر عمل نہیں کرتا۔ ناصح کو بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اس کو نصحیت کرنے پر ٹوک دیتا ہے اور اسےاپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اسے دنیا والے اپنے ہمدردکے بجائے دشمن لگنے لگتے ہیں جس وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اب تمام رشتوں ناطوں سے بے گانہ ہو گیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا کسی سے کبھی کوئی ناطہ رہا ہے مجھے یاد نہیں پڑتا مگر جس سے اب ملتا ہوں وہ بھلا معلوم ہوتا ہے مگر ایسےچلتے چلتے کسی سے مل لینے سے اسے دوست تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔

حیاتِ چند روزہ بھی، حیاتِ جاوِداں نِکلی !
جو کام آئی جہاں کے، وہ متاعِ عارضی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھ پوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جو انسان اس دنیا میں بھیجا گیا ہے وہ اپنےعمل کرکے ایک دن اپنی زندگی پوری کرکے اس دنیا سےرخصت ہو جائے گا۔مگر جب وہ اس دنیا سے جانے لگے گا اسے اپنی گزرشتہ زندگی بہت مختصر معلوم ہوگی ۔ شاعر نے اپنی عارضی زندگی کی متاع اپنی ابدی زندگی سنوارنے میں بدل دیا۔ شاعر یہاں دنیا کی حقیقت سمجھ کر اپنی ساری محبتوں کو دولت کی صورت لوگوں میں بانٹ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ محبتیں جو مخلوق انسانی میں بانٹی جائیں وہ لازوال ہوتی ہیں۔ یہ محبتیں تاقیام آباد رہیں گی۔

یہ دُنیا، کوئی پلٹا لینے ہی والی ہے اب شاید
حیاتِ بے سُکوں کے سر میں یہ شورِیدگی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھ پوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے اوصاف والے ہیں کہ جو موجودہ حالات اور اپنی جہاں بینی سے یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ سکتے ہیں آگے حالات کیسے ہونگے۔ کچھ لوگ آسمان کو دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ آج بارش ہوگی یا صرف آندھی یا کل بارش ہوگی یا نہیں۔ اسی طرح شاعر بھی اپنے ارد گرد لوگوں میں بے چینی اور بے سکون کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہاں کوئی انقلاب برپا ہونے والا ہے۔ جب حالات برے ہوں تو صبر سے کام لینا چاہئے کیامعلوم بہتر دن قریب ہوں۔

مِرے نغموں نے اے دُنیائے غم! چمکا دیا تجھ کو
تِرے ظُلمت کدے میں زندگی کی روشنی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھپوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں عاقل لوگ کہتے ہیں کہ اس میں بہت خرابیاں ہیں یہ مصائب کا گڑھ ہے ان کا سامنا کرنا چاہئے نہ کہ ان سے دور بھاگنا چاہئے۔شاعر بھی یہی بتاتے ہیں کہ معاشرے میں طرح طرح کے عیب تھے۔ اس دنیا میں غموں کے مارے لوگ بدحالی کا شکار تھے لوگوں کے لبوں پر مسکراہٹ چھو کر نہیں گزری تھی مگر میں نے گیت و سخن سے ان کے چہروں پر خوشی لائی۔جس کی وجہ سے دنیا میں کچھ روشنی تو ہوتی نظر آئی۔ دنیا میں سنگ دلوں کو شاعری نے نرم کیا اور لوگ محبت کی زبان سیکھ گئے۔

فِراق اب اِتفاقاتِ زمانہ کو بھی کیا کہیے !
محبّت کرنے والوں سے، کسی کو دشمنی کب تھی

تشریح : یہ غزل فراق گورکھپوری کی لکھی ہوئی ہے، فراق گورکھپوری صف اول کے شاعر ہیں، اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ دنیا والے بہت سنگ دیل ہیں یہ محبت کرنے والوں کے دشمن ہیں۔ یہ دنیا والے دو محبت کرنے والوں کو کبھی ایک نہیں ہونے دیتے۔ محبت کے پودے کو دنیا والے نفرتوں سے بڑھنے سے روک دیتے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں دنیا والے دراصل اتنے بھی سنگ دل نہیں ہوتے جتنے وہ بنے ہوتے ہیں۔ دنیا والے ہی ہیں جو محبت کی داستانوں کو خوب مزے لے لے کر سنتے ہیں۔ یہ دنیا والے محبت کی کہانیاں بچوں کو سناتے ہیں۔ دنیا والے ان محبت کرنے والوں پر گیتلکھتے ہیں شعر کہتے ہیں۔ دنیا والے دراصل محبت کرنے والوں کو سراہتے ہیں مگر جو دشمنی وہ کرتے ہیں وہ فقط جذباتی اور وقتی ہوتی ہے۔

سوال 1 : فراق گورکھپوری کی غزل میں قافیہ اور ردیف کی نشاندہی کیجیے۔

جواب : فراق گورکھپوری کی مذکورہ غزل میں کمی، زندگی، دوستی ،عارضی، روشنی اور دشمنی قوافی ہیں۔ اسی غزل میں “کب تھی”ردیف ہے۔

سوال 3 : فراق نے غزل میں اتفاقات زمانہ کو کس بات کا موجب قرار دیا ہے؟ آپ کس حد تک اس سے متفق یا غیر متفق ہیں؟ بحث کیجیے۔

جواب : فراق نے اپنی غزل میں اتفاقات زمانہ کو اہل محبت سے دشمنی کا سبب قرار دیتے ہیں۔حالانکہ اہل زمانہ کو اہل محبت سے دشمنی ایک مستقل رویے کے طور پر سامنےآتی رہتی ہے، اسے کسی اتفاق یا حادثے کا سبب قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سوال 4 : مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیے :

آشفتہ حالی: بے چارگی
دل غمگین: پریشان دل
حیات چند روزہ: چند دن کی زندگی
حیات جاوداں: ہمیشہ رہنے والی زندگی
متاں عارضی: عارضی چیز
حیات بے سکوں: بےچین زندگی
دنیائے غم: غموں سے بھری ہوئی دنیا
اتفاقات زمانہ: اچانک پیش آنے والے واقعات
ظلمت کدہ: دکھوں کا گھر

سوال 5 : اس غزل میں سے محاورے تلاش کیجیے اور انھیں جملوں میں استعمال کیجیے۔

جواب : اس غزل میں محاورا “غم کو چمکانا” ہے۔
مسکینوں کے سامنے اپنے قربانی کے جانور کی نمائش کرنا ان کے غم کو چمکانےکے مترادف ہے۔