ایران میں اقبال شناسی کی روایت

0

شاعر مشرق ،حکیم الامت، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ برصغیر کے بہت بڑے شاعر، مفکر اعلیٰ ہیں۔ انہوں نے اپنے عظیم خیالات اور اپنی فکر سے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ اردو، فارسی اور انگریزی میں انہوں نے طبع آزمائی کی اور ہر ایک زبان کو اپنے بلند خیالات و افکار کی بدولت اعلیٰ و ارفع کر دیا۔ شاعری کے لئے انہوں نے اردو اور فارسی کا انتخاب کیا لیکن ان کے مقالات اور خطبات وغیرہ انگریزی کے حصے میں آئے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں ان کے مکاتیب   بھی دستیاب ہیں ۔  شاعری، مقالات، خطبات یا مکاتیب، انہوں نے جو بھی لکھا ان کی اس ہر تحریر میں ایک آفاقی عنصر موجود ہے۔ ان کی ہر تحریر کا ایک ایک لفظ فکر و فن سے بھرا ہوا ہے، کیونکہ وہ مفکر اسلام، حکیم الامت، شاعرِ مشرق، دانائے راز اور خودی کے ترجمان تھے۔ اقبال کے افکار و خیالات کسی ایک طبقہ، برادری یا ملک کے لئے ہرگز نہیں تھے، بلکہ اقبال کے خیالات و افکار سے تو پوری دنیا کا ادب متاثر ہونے سے بچ نہ سکا۔ ان کے انقلابی خیالات نے ہی قوم کو پستی سے نکالا۔ اقبال کی تحریریں خود شناسی  یا عرفانِ خودی کا پیغام اپنے اندر سموئے  ہوئے ہیں۔

ایران میں اقبال شناسی کے حوالے سے ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے:

 سید محمد علی داعی الاسلام، جو کے جامعہ عثمانیہ میں شعبہ ایرانیات کے استاد تھے۔ انہوں نے لیکچرز اور مقالات پر مبنی ایک کتاب “اقبال وشعر فارسی” لکھی۔ سید محمد علی نے اقبال کی وسعتوں کو ایک دائرہ کار میں لانے کی کوشش کی۔ ان کی یہ کتاب اقبال شناسی میں ایک عمدہ اضافہ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد سید محیط طباطبائی نے اپنے ایک مجلہ کا اقبال نمبر شائع کیا جو کہ 1945ء میں منظر عام پر آیا۔ اس مجلے اور اس کے اقبال نمبر نے اقبال شناسی کے حوالے سے حیات بخش اثرات چھوڑے۔  اس کے بعد مرحوم پروفیسر سعید نفیسی کا نام آتا ہے جنہوں نے فارسی میں اقبال شناسی کی روایت کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری نے مجلہ سخن میں ایک مقالہ اقبال شناسی کی روایت کو وسعت دینے کے لیے لکھا اور ان کا یہ مقالہ بہت گراں قدر اضافہ ثابت ہوا۔ اقبال شناسی کے حوالے سے ڈاکٹر عرفانی ایک بہت بڑا نام ہے۔ ان کی کوششوں سے ہی ایرانی شاعر اور ادباء وغیرہ روزانہ کی بنیاد پر اقبال سے متعلق منعقدہ جلسوں میں شرکت کرنے لگے۔ شاعر حضرت اقبال سے متعلق شاعری پڑھتے اور ادباء حضرات اقبال کے بارے میں مختلف تقاریر کرتے اور جوانوں کا لہو گرماتے۔1951ء میں ایران کے ایک مجلہ بنام “مجلہ دانش” نے “اقبال نامہ” کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی۔ اس میں وہ سب مقالات اور نظمیں شامل تھیں کہ جو 1950ء سے 1951ءکے درمیان میں یوم اقبال کے حوالے سے پڑھ کر سنائی گئی تھیں۔

 1964ء میں احمد سروش نے “کلیات اقبال” نامی کتاب شائع کی جس میں اقبال کے فارسی اشعار کو اکٹھا کیا گیا اور ایک خوبصورت مقدمے اور حواشی کے ساتھ اس کو طبع کروایا۔  1970ء میں ڈاکٹر احمد احمدی نے “دانائے راز” کے نام سے ایک کتاب لکھی جو کہ اقبال شناسی کے حجم اور قدر میں اضافہ ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ 1970ء میں ہی ایران کے ایک مذہبی ادارے “حسینہ ارشاد” نے بھی اقبال کی یاد میں ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اقبال کے موضوع پر مختلف تقاریر، مضامین اور شاعری کا اہتمام کیا گیا۔  1973ء میں تہران یونیورسٹی کے ایک سابق چانسلر ڈاکٹر فضل اللہ نے ایک مقالہ بعنوان “محمد اقبال” لکھا، جو کہ صرف 50 صفحات پر مشتمل تھا ۔یہ تحریر اقبال کے حوالے سے اپنی مثال آپ ثابت ہوئی اور اقبال شناسی کے رجحان میں تقویت پیدا کی۔ اس کے 2 سال بعد 1975ء میں فخرالدین حجازی صاحب نے تہران سے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان  “سرود اقبال” تھا ۔ اس کتاب نے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی اور اقبال شناسی میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوئی۔

ڈاکٹر علی شریعتی اقبال شناسی کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہے۔ اقبال شناسی کے حوالے سے منعقد کیے گئے جلسوں میں وہ پیش پیش ہوتے اور اقبال کے فکر و خیالات کی تشہیر پوری دیانتداری کے ساتھ کرتے۔ خامنہ ای نے ایک موقعہ پرتو یہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ مجھے ڈاکٹرعلی شریعتی کے اندر علامہ اقبال کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے اندر بالکل اقبال ہی کی فکر موجود ہے اور وہ بھی اقبال ہی کی طرح صاحب فقر آدمی ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی بھی اقبال کی طرح امت مسلمہ کا درد اپنے سینے میں سموئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا کہ میں جب بھی اقبال کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ان کے اندر حضرت علی کے اسوۃ کی جھلک نظر آتی ہے۔ حضرت علی کی طرح اقبال بھی قول و فعل کے پابند ہیں۔ ان کے مطابق اقبال اپنی زندگی اور زندگی کا ہر ایک پہلو قرآن کی مرضی کے مطابق گزارتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کی خواہش تھی کہ جس طرح اقبال کی فکر اور فقر سے بھرپور جلسوں کا انعقاد ایران میں اقبال شناسی کے حوالے سے کیا جاتا رہا ہے بالکل اسی طرح جمال الدین افغانی کے لیے بھی ایران جلسوں کا انعقاد کرے۔ جس طرح اقبال کوحضرت جمال الدین افغانی سے بے پناہ محبت تھی بالکل اسی طرح ڈاکٹر علی شریعتی کو بھی جمال الدین افغانی اور مولانا روم سے عقیدت تھی۔

علی شریعتی اور اقبال تعلیمات اسلامی کے سائے تلے ایک مرد قلندر کی طرح زندگی گزارنے کے خواہشمند تھے اور یہی ایک مومن کی پہچان ہوتی۔  ڈاکٹر علی شریعتی اقبال پسند آدمی تھے اور ان سے بڑھ کر کوئی اقبال شناس نہیں ہو سکتا تھا۔ بلاشبہ ڈاکٹر علی شریعتی کی خدمات کو اقبال کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔

تحریر امتیازاحمد ، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]
ایران میں اقبال شناسی کی روایت 1