باغ و بہار کا اسلوب

0

اردو نثر کی تاریخ میں باغ و بہار کو بے مثال اہمیت حاصل ہے۔ اردو میں مختصر افسانے کا جنم تو بہت بعد میں ہوا لیکن باغ و بہار میں پہلی بار افسانے کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔ اس میں ایک بادشاہ شاہ اور چار درویشوں کی کہانیاں پیش کی گئی ہیں جنہیں تمہید اور خاتمے کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔

اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک داستان نہیں بلکہ پانچ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ گویا یہ اردو افسانے کی صبح کاذب ہے دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کتاب میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کی مکمل مرقع کشی نظر آتی ہے۔ کسی شہرو دیار کا ذکر کیا جا رہا ہو مگر بچشم غور دیکھئے تو دلی کے درودیوار پیش نظر ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اہم سہی مگر” باغ و بہار“ کی سب سے بڑی خوبی اس کا اسلوب بیان ہے۔

اردو نثر کا پہلا شاہکار باغ و بہار ہے۔ اس سے پہلے بھی اردو نثر میں کتابیں موجود تھیں مگر ان کا انداز مصنوعی، زبان گنجلک اور فارسی آمیز تھی۔” باغ و بہار“ آسان، سادہ اور عام فہم زبان کا پہلا نمونہ ہے۔ آگے چل کر اردو نثر نے جو راہ اختیار کی اس کا پتہ اسی کتاب نے دیا تھا۔

غالب نے اپنا چراغ میرامن کے چراغ سے جلایا۔ مطلب یہ کہ میر امن نے جس طرح کی زبان استعمال کی تھی اس کی ذرا نکھری ہوئی شکل میں غالب نے خط لکھے اور سر سید کی علمی نثر کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ میر امن نے جان گلکرسٹ کی فرمائش پر اس کتاب کے لئے عام بول چال کی زبان ان کا انتخاب کیا تھا۔

بول چال کی زبان تحریری زبان یا یوں کہنا چاہیے کہ کتابی زبان سے مختلف ہوتی ہے۔ تحریری زبان میں قواعد یعنی گرامر کی پابندی کی جاتی ہے، جملے اور فکرے مکمل ہوتے ہیں، رکھ رکھاؤ کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ ان سب باتوں سے ذرا بہت تکلف تھوڑا سا تصنع تو پیدا ہو ہی جاتا ہے۔

بول چال کی زبان میں یہ پابندیاں نہیں ہوتیں۔ باتوں میں چشم و ابرو کے اشارے بھی بہت کام کرتے ہیں اور بہت سے لفظ محذوف ہو جاتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کم ہو جاتے ہیں۔ فقرے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ دو فقروں کو جوڑنے والے لفظ اکثر حارج کر دیے جاتے ہیں۔ آسان لفظوں کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔

میر امن نے باغ و بہار میں یہی زبان استعمال کی جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے۔” جو لڑکے بالے، عام و خاص بولتے چالتے ہیں، اسی محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے“۔
اس کے لیے انہوں نے جو وسائل اختیار کیے، مطلب یہ کہ جو طریقے اپنائے ان کی تفصیل مع مثالوں کے پیش کی جاتی ہے:

١۔ لفظوں کی تکرار جیسے گھرگھر، محلےمحلے اور تابع مہمل جیسے روتا دھوتا، پکڑ دھکڑ کا استعمال۔
مثال: برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیم روز میں جا پہنچا جتنے وہاں آدمی ہزاری اور بازاری نظر پڑے، سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پہلی تاریخ سارے لوگ اس شہر کے چھوٹے بڑے، لڑکے بالے امرا، بادشاہ، عورت مرد ایک میدان میں جمع ہوئے۔
……. اور فرمایاکہ احوال شہزادے کے طالعوں کا دیکھو اور جانچو اور جنم پتری درست کرو اور جو کچھ ہونا ہے حقیقت پل پل، گھڑی گھڑی اور پہر پہر اور دن دن، مہینے مہینے، برس برس کی مفصل حضور میں کرو۔
….. سارا بدن میرا پانچھ پانچھ کر خون و خاک سے پاک کیا اور شراب سے دھو دھا کر زخموں کو ٹانکے مرہم لگایا۔

٢۔ اضافی اور توصیفی ترکیبوں کو اس طرح سہل بنایا کہ اضافت کو ترک کر کے کا۔کے۔کی استعمال کیے مثلاً حکمِ حاکم کی جگہ ہم کہیں حاکم کا حکم یا حکم حاکم کا۔
مثال: بموجب حکم بادشاہ کے اس آدھی رات میں کہ عین اندھیری تھی ملکہ کو ایک میدان میں کہ وہاں پرندہ پر نہ مارتا تھا، انسان کا تو ذکر کیا ہے، چھوڑ کر چلے آئے۔

٣۔ محاوروں اور گھریلو کہاوتوں کا استعمال
مثال: اونٹ چڑھے کتا کاٹے، ادھر چوکی ڈومنی گائے تال بے تال۔

٤۔ ہندی الفاظ کا بے تکلف استعمال نظر آتا ہے مثلا راہ بانٹ، جنم بھومی، سنگت، گیان، بیراگ،بیر وغیرہ۔

٥۔ متروک الفاظ یعنی ایسے الفاظ کا استعمال جو اب بولے یا لکھے نہیں جاتے کبھو، کدھو، ایدھر، اودھر، تلپھنا، جاوے وغیرہ۔

٦۔ ایسی تشبیہوں کا استعمال جو بالکل سامنے کی ہیں اور نثر کے لیے موزوں ہیں کیونکہ ان سے خیال روشن ہو جاتا ہے مثلاً پھول سا بدن سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور وہ رنگ جو کندن سا دمکتا تھا……

٧۔ عام فہم استعارات جیسے فرزند کہ زندگانی کا پھل ہے اس کی قسمت کے باغ میں نہ تھا۔

٨۔ بعض شعری وسائل سے بھی کام لیا کیونکہ وہ اس زمانے کا چلن تھا۔ کہیں کہیں صنائع بدیع کا استعمال نظر آ جاتا ہے جیسے:
سب کچھ دیا، اندھیرے گھر کا دیا نہ دیا۔ یہ بات سن کرسن ہوا (ایہام) جب تجھے دیکھتی ہوں باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا (رعایت لفظی)

٩۔ میر امن نے تحسین کے برعکس تصنع، تکلف، عبارت آرائی سے تو پرہیز کیا لیکن کہیں کہیں سجع اور قافیے کا اہتمام کیا ہے۔
مثال: میں نے کہا اجی پھر کب ملاقات ہو گی۔ یہ تم نے کیا غضب کی بات سنائی۔ اگر جلد آؤ گی تو مجھے جیتا پاؤ گی نہیں تو پچھتاؤ گی۔
…… اگر چہ ہر طرح کا آرام تھا پر دن رات چلنے سے کام تھا۔

١٠۔ تکلم کا انداز، بات چیت کا لب و لہجہ، طرز تخاطب،” باغ و بہار“ کے اسلوب کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ ہم کہانی پڑھ نہیں رہے سن رہے ہیں۔ میر امن قاری بلکہ کہنا چاہیے کے ناظر کو کسی حالت میں نظر انداز نہیں کرتے قصہ سنانے کے دوران “کان دھر کر سننے“ کی فرمائش کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں” اب خدا کے کارخانے کا تماشہ سنو“ اس سلسلے کے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں:

….. خداوند! آپ قدردان ہیں۔ حاجت غرض کرنے کی نہیں۔الٰہی تارا اقبال کا چمکتا رہے۔
….. محض صاحب کی ملاقات کی آرزو میں یہاں تک آیا ہوں
…….کہنے لگا۔ احمد تو کیوں روتا ہے؟ بولا ارے ظالم یہ تو نے کیا بات کہی۔ میری بادشاہت لٹ گئی۔ اور اس طرح کا تخاطب سن اے جوان دانا، سن اے عزیز، اے پادشاہ! یہ جو انمرد جو داہنی طرف کھڑا ہے…….

یہ ہیں میر امن کی نثر کی خصوصیات۔ یہاں اختصار کے خیال سے صرف دس اہم خصوصیات کا مجمل بیان کیا گیا۔ سید عبداللہ نے میر امن کی” باغ و بہار“ کو زندہ کتاب اور اس کے اسلوب کو زندہ اسلوب کہہ کر عقیدت کا وہ خراج پیش کیا ہے جس کی وہ بلاشبہ حقدار ہے۔