بانو قدیسہ کی ناول نگاری

0

تعارف

بانو قدیسہ ۲۸ نومبر ۱۹۲۸ء کو فیروزپور، پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا قلمی نام بانو قدسیہ تھا۔ آپ مصنفہ، ڈراما نویس اور دانشور تھیں۔ آپ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد زراعت میں بیچلر کی ڈگری رکھتے تھے۔ بانو قدسیہ کا تعلق ایک ممتاز علمی وا دبی خاندان سے تھا جس نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔ ان کے والد بدر الزماں نے زرعی سائنس میں گریجویشن کی اور پبلک سیکٹر کے ایک بڑے زرعی فارم کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم دھرم شالہ سکول فیروز پور(بھارت) سے حاصل کی۔ بانو قدسیہ نے کم عمری ہی میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ جب وہ پانچویں جماعت میں زیر تعلیم تھیں ،اس وقت سے ان کی کہانیاں بہت مقبول ہو گئیں تھیں۔ وہ اپنے کالج کی میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔ انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا۔ بعد ازاں انہوں نے ۱۹۵۱ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔

ادبی تعارف

بانو قدسیہ نے خواتین کو اذیتوں اور عقوبتوں سے دوچار کرنے والے فراعنہ کی سادیت پسندی اور رعونت کے خمار اور مکر کا پردہ فاش کیا اور قہر و انتقام اور غیظ و غضب کے ان خود ساختہ دیوتاؤں کے مجسموں کو پاش پاش کر دیا۔ بانو قدسیہ کو تصوف سے گہری دلچسپی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ممتاز ادیب قدرت اﷲ شہاب زندگی بھر یمن سے تعلق رکھنے والے حضرت اویس قرنیؓ کا عقیدت مند رہا اور وہ اویسی سلسلہ کا ایسا صوفی تھا جسے خالق ِ کائنات نے مستقبل کی پیش بینی کی صلاحیت سے متمتع کیا تھا۔

بانو قدسیہ کے ڈراموں ناولوں اور افسانوں میں جہاں اپنی تہذیب و ثقافت کے رنگ ہیں، روزمرہ زندگی کے چلتے پھرتے کردار ہیں، وہیں ہمیں ان کے ناولوں اور افسانوں میں مشرق و مغرب اور ان کی اقدار کا فکر انگیز موازنہ بھی ملتا ہے۔ بانو قدسیہ محض ایک مصنفہ نہ تھیں بلکہ وہ ایک دانش ور اور سماج کی نباض بھی تھیں۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کا دماغ ہوتے ہیں جو اپنے گرد و پیش کا جائزہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ گہرائی سے لے کر نہ صرف دورِ حاضر کا حقیقی عکس پیش کرتے ہیں، بلکہ آنے والے حالات کا قبل از وقت ادراک بھی قارئین کے سامنے کھول کر بیان کرتے ہیں۔

ناول راجہ گدھ

”راجہ گدھ“ کا شمار اردو ادب کے نمایاں اور بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ قیوم، آفتاب اور سیمی کے لازوال کردار آج بھی قارئین کو حلال اور حرام کے فرق، دیوانگی اور حرام کے مضمرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ راجہ گدھ کو قارئین میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ اب تک اس کے چودہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ راجہ گدھ کے علاوہ بھی ان کے بہت سے ناول ڈرامے اور افسانے ادب عالیہ میں منفرد مقام اور قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

تصانیف

بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے؛

  • حاصل گھاٹ،
  • مرد ابریشم،
  • فٹ پاتھ کی گھاس،
  • پروا،
  • موم کی گلیاں،
  • امربیل،
  • راجہ گدھ،
  • بازگشت،
  • دوسرا دروازہ،
  • تمثیل،
  • ناقابل ذکر،
  • دست بستہ،
  • سامان وجود،
  • ایک دن،
  • شہر لازوال،
  • موم کی گلیاں،
  • چہار چمن،
  • دوسرا دروازہ،
  • ہجرتوں کے درمیاں،
  • ان کی خود نوشت راہ رواں،
  • توجہ کی طالب،
  • قابلِ ذکر ہیں۔

اعزازات

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔

آخری ایام

پاکستان میں اردو ادب میں تانیثیت کی چاندنی اس وقت ماند پڑ گئی جب بانو قدسیہ 4 فروری 2017ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئیں۔