Advertisement
Advertisement

غزل

بس کہ دشوار ہے ،ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں، انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
واے دیوانگئ شوق! کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا
عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
لے گئے خاک میں ہم، داغ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا
عشرت پارۂ دل ،زخم تمنا کھانا
لذت ریش جگر ،غرق نمک داں ہونا
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے! اس زودِ پشمیاں کا پشمیاں ہونا
حیف! اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

تشریح

پہلا شعر

بس کہ دشوار ہے ،ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں، انساں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں ہر کام کا آسان ہونا بہت دشوار ہے۔ہر کام آسان نہیں ہوا کرتا۔ کسی بھی کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر آدمی میں حقیقی صفاتِ انسانی نہیں ہوا کرتیں۔ گویا آدمی کو مکمل انسان بنانا نہایت مشکل کام ہے۔

Advertisement

دوسرا شعر

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ میری گریہ وزاری کا مُدعا یہ ہے کہ میرا گھر ویران ہوجائے چنانچہ اس گریہ وزاری کے اثر سے میرے گھر کے درودیوار سے ویرانی ٹپکتی ہے۔ لہٰذا اب یہ گھر بھی بالکل ویران ہو جائے گا کیونکہ اس میں اب میری گریہ و زاری ہو رہی ہے۔

تیسرا شعر

واے دیوانگئ شوق! کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ مجھ کو اپنے عشق کے دیوانے پن پر افسوس ہوتا ہے کہ اس دیوانے پن کے تقاضے پر میں بار بار اس کی گلی کی طرف جاتا ہوں اور پھر خود ہی حیران اور پریشان ہو جاتا ہوں کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں، کیونکہ یہاں آنے سے میری کوئی بھی آرزو پوری نہیں ہوتی۔

Advertisement

چوتھا شعر

عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ قتل گاہ میں عاشقوں کی مسرت کا حال مت پوچھو کہ وہ قتل گاہ میں محبوب کی تلوار کو عریاں دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوئے بلکہ ایسے خوش ہو گئے ہیں جیسے انھوں نے عریاں شمشیر نہیں بلکہ عید کا چاند دیکھ لیا ہو،جیسے ان کو عید کے چاند کا نظارہ ہو گیا۔

Advertisement

پانچواں شعر

لے گئے خاک میں ہم، داغ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ افسوس! ہم دنیا سے نامراد گئے اور داغِ آرزو قبر میں لے گئے۔ لیکن خُدا کرے کہ تم ہمیشہ خوش رہو اور باغ کی طرح شاداب رہو اور پھلو پھولو۔

چھٹا شعر

عشرت پارۂ دل ،زخم تمنا کھانا
لذت ریش جگر ،غرق نمک داں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ عشق میں اب ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ محرومی اور ناکامی کے زخم کھانا دل کے لیے عین راحت ہیں اور زخمِ جگر کا نمکدان میں ڈوبنا دل کے لیے انتہائی لذت کا سبب ہے۔ مراد یہ ہے کہ عاشق ایذا پسند ہوتے ہیں۔

Advertisement

ساتواں شعر

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے! اس زودِ پشمیاں کا پشمیاں ہونا

شاعر محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ اس نے مجھے قتل کرنے کے بعد ظلم سے توبہ کر لی۔ ہائے وہ پشیماں ہونے والا قاتل محبوب کس قدر جلد پشیمان ہوا۔کتنا اچھا ہوتا کہ اگر اس نے میرے قتل سے پہلے توبہ کر لی ہوتی۔ اب توبہ کی مگر کیا فائدہ۔زود پشیماں کے طنزیہ استعمال نےشعر میں لطف پیدا کر دیا ہے۔

آٹھواں شعر

حیف! اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

شاعر کہتا ہے کہ افسوس ہے اس چار گرہ کپڑے کے ٹکڑے پر جو بدبختی سے عاشق کا گر بیان بن جاتا ہے۔افسوس اس لیے کیا ہے کیوں کہ وہ کپڑا ہمیشہ جنونِ عشق کے ہاتھوں تار تار رہتا ہے۔کبھی معشوق ازراہ شوخی چاک کر دیتا ہے اور کبھی ہجر میں عاشق خود اسے پھاڑ دیتا ہے۔

Advertisement

Advertisement