تصّور سے کسی کے میں کی ہے گُفتگو برسوں

0

غزل

تصّور سے کسی کے میں کی ہے گُفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویر خیالی رُوبرو برسوں
ہوا مہمان آ کر، رات بھر وہ شمع رو برسوں
رہا روشن مرے گھر کا چراغِ آرزوٗ برسوں
چمن میں جا کے بھولے سے میں خستہ دِل کراہا تھا
کیا کی گُل سے بُلبُل شکوۂ دردِ گلو برسوں
برابر جان کے رکھا ہے اس کو مرتے مرتے تک
ہماری قبر پر رویا کرے گی آرزوٗ برسوں
دیا ہے حکم،تب پیر مغاں نے سجدۂ خم کا
کیا ہے جب شرابِ ناب سے ہم نے وضو برسوں
اگر میں خاک بھی ہوں گا تو آتش! گردِ باد آسا
رکھے گی مجھ کو سرگشتہ،کسی کی جُستجو برسوں

تشریح

پہلا شعر

تصّور سے کسی کے میں کی ہے گُفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویر خیالی رُوبرو برسوں

شاعر کہتا ہے کہ برسوں سے ایک ہی خیالی تصویر ہمارے رُوبرو رہی ہے اور مُدّتوں ہم نے خیالوں میں اس تصویر سے گفتگوُ کی ہے، بات کی ہے۔

دوسرا شعر

ہوا مہمان آ کر، رات بھر وہ شمع رو برسوں
رہا روشن مرے گھر کا چراغِ آرزوٗ برسوں

شاعر کہتا ہے کہ میرا وہ محبوب جو شمع کی طرح روشن چہرہ رکھتا ہے،برسوں رات رات بھر میرے گھر مہمان کی طرح رہا ہے اور اس طرح میری آرزؤں کے چراغ سے میرا گھر مُدتوں جگمگاتا رہا ہے۔گویا بُرسوں اس نے مجھے شاد کام کیا ہے۔

تیسرا شعر

چمن میں جا کے بھولے سے میں خستہ دِل کراہا تھا
کیا کی گُل سے بُلبُل شکوۂ دردِ گلو برسوں

بُلبُل پھول کا عاشق ہوتا ہے اور باغ میں نغمے گاتا ہے۔اب شاعر کہتا ہے کہ میں شکستہ دِل بھولے سے یعنی بے ارادہ چمن میں جاکے فغاں کر بیٹھا تھا،کراہا اُٹھا تھا۔میرے نالے میں ایسی تاثیر تھی کہ مُدّتوں دردِ گلو کا بہانہ کر کے بُلبُل نغمہ گانے سے پرہیز کرتی رہی۔

چوتھا شعر

برابر جان کے رکھا ہے اس کو مرتے مرتے تک
ہماری قبر پر رویا کرے گی آرزوٗ برسوں

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے مرتے دم تک اپنی آرزُو کو جان کی طرح عزیز رکھا،یعنی بہت عزیز رکھا ہے۔ ایسا عزیز رکھا ہے کہ وہ برسُوں ہماری قبر پر آکر رویا کرے گی۔

پانچواں شعر

اگر میں خاک بھی ہوں گا تو آتش! گردِ باد آسا
رکھے گی مجھ کو سرگشتہ،کسی کی جُستجو برسوں

شاعر کہتا ہے کہ اگر ہم محبت میں خاک بھی ہو جائیں گے تو بھی آتش گرد آلود ہوا کی طرح مُدّتوں کسی کی تلاش ہمیں پریشان رکھے گی۔