فیض احمد فیض کی غزلیں

0

شاعر : فیض احمد فیض۔

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فیض احمد فیض ہے۔

تعارفِ شاعر 

فیض کی شاعرانہ قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا عشق درد مندی میں ڈھل کر انسان دوستی کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہ انسان دوستی اک بہتر دنیا کا خواب بن کر ابھرتی ہے۔ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی،سرشاری اور پہلوداری ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔

(غزل نمبر ۱)

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم تو ہم سے دور چلے گئے ہو لیکن ہم اب بھی تمھیں یاد کرتے ہیں، اور جب ہمارے دل میں موجود تمھاری یاد کم ہونے لگتی ہے اور ہمارے دل کا درد کم ہونے لگتا ہے تو ہم دوبارہ تمھیں یاد کرنے بیٹھ جاتے ہیں تاکہ دل کا یہ درد کبھی بھی ختم نہ ہو۔

حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب تم مجھے کچھ کہتے ہو، مجھ سے کوئی فرمائش کرتے ہو مجھے محسوس ہوتا کہ ہر جانب گیسو سنور رہے ہیں۔ مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ تم مجھے اس قابل سمجھتے ہو کہ میرے سامنے اپنی فرمائش رکھ سکو۔

ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب ہم تیری گلی میں آتے ہیں تو وہاں سے گزرنے والا ہر شخص ہمیں اپنا اپنا سا معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ میں ان لوگوں کو نہیں جانتا ہوں لیکن وہ تیری گلی میں رہنے کے باعث مجھے پیارے لگتے ہیں کہ یہ ہر وقت میرے محبوب کے آس پاس بسنے والے لوگ ہیں۔

صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ہم ہوا سے اپنے وطن کی غربت کا ذکر کرتے ہیں تو صبح کی آنکھوں میں بھی آنسو آنے لگتے ہیں۔ ہمارے وطن کے حالات اتنے خراب ہیں کہ صبح اور ہوا بھی ہمیں اپنے دکھ میں شامل نظر آتے ہیں۔

وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کے مطابق کہتے ہیں کہ جب میرا محبوب اپنے مخصوص لب و لہجے میں کچھ کہتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے فضا میں سر بکھر گئے ہوں اور نغمے بجنے لگے ہوں۔

در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جیسے ہی رات کا اندھیرا چھاتا یے تو میرے دل میں بھی اندھیرا چھا جاتا ہے اور میرے دل میں بھی ستارے اترنے لگتے ہیں اور میں ساری رات ان ستاروں کو گنتے ہوئے اپنے محبوب کو یاد کرتا ہوں۔

(غزل نمبر ۲)

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب تم آتی ہو تو ہر طرف رنگ بکھر جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بہار کا موسم آگیا ہو، جب تم آتے ہو تو ہر جانب خوشبو پھیلنے لگتی ہو اور ہر جانب پھول کھل جاتے ہیں۔

دوستو اس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے نہ مے خانے کا نام 

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میرے دوستوں مجھے میرے محبوب کی خبر سناؤ، میرے سامنے اس کی باتیں کرو۔ اس کے ہونے سے ہی گلستان میں رنگینی اور مے خانے میں مستی ہوتی ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو مجھے اس دنیا میں مزہ نہیں آتا ہے۔

پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جیسے ہی میرے دل نے میرے محبوب کی محفل میں جانے کے بارے میں سوچا میرے دل میں شمعیں روشن ہوگئیں۔ میری نظروں کے سامنے پھو کھلنے لگے اور میں اپنے محبوب کو دیکھنے کے لیے بیتاب ہوگیا۔

محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ساقی کا مے کا خم کا پیمانے کا نام 

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی وجہ سے ہی محتسب کا نام اونچا ہے۔ مے خانے میں بھی اس لیے رونق ہے کیونکہ وہاں سب لوگ اپنے محبوب کی یاد میں غرق ہوتے ہیں۔ اگر محبوب نہ ہو تو انسان کو دنیا کی کوئی شے دلچسپ نہیں لگتی ہے۔

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا دل میرے محبوب کے بغیر اس قدر ویران ہے کہ اب چمن والے لوگ مجھے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ میں اہنے اس ویران دل کا کوئی اچھا سا نام رکھ لوں۔ ہوسکتا ہے کہ تمھارے اس نام سے متاثر ہو کر تمھارا محبوب تمھارے دل پر نظر کرم کردے۔

فیضؔ ان کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میرے محبوب کو مجھ سے وفا کی امید ہے جب کہ مجھے تو یہ بات زیادہ پیاری ہے کہ میں اس سے آشنا ہونے کے بجائے اس سے بیگانہ رہوں۔ اور ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے رہیں۔

سوال نمبر ۱ : ذیل کے اشعار کی تشریح شاعر کے حوالے سے کیجیے :

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہونیشِ عشق
رکھتی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مولانا الطاف حسین حالی ہے۔

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق محبت جیسے جذبات کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے ہم تا اپنے جذبات کر دار بھی پہچان نہیں پاتے تو عشق کو کیا سمجھیں گے اور شاعر کہتا ہے کہ عشق جیسے جذبہ کو سمجھنے اور اس میں ڈوبنے میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ یہ کوئی لمحوں دنوں کا کام نہیں ہے اور اگر ہم ایسا سمجھتے ہیں کی ہمیں کسی سے ملتے ہی اس عشق ہوگیا ہے تو یہ صرف ہماری خام خیالی ہے۔

کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مولانا الطاف حسین حالی ہے۔

اس شعر میں شاعر نے تمثیلی انداز اختیار کیا ہے شاعر کہتا ہے کہ بلبل کو پھول سے محبت ہے اور وہ اس سے وفا کا یقین دلا رہا ہے مگر یہ پھول جو آج کھلا ہے اور تروتازہ ہے کل مرجھا جائے گا اس کا حسن ختم ہوجائے گا۔ تب بلبل اسے پہچاننے سے ہی انکاری جاۓ گا۔ اس شعر میں شاعر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کی حسن فانی ہے آج ہے کل نہیں ہوگا اس کی بنیاد پر محبت نہیں ہوتی۔

احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

اس شعر میں شاعر اس مجازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت اگر مجازی ہو تو اس کے احوال بدلتے نہیں ہے، وہ وہی رہتا ہے۔ جو تکلیفیں آغاز میں آپ کو ملتی ہیں وہی تکالیف آپ کو اختتام میں بھی نصیب ہوتی ہیں۔ ہم تو بس اچھے کی امید پر رہتے ہیں۔ جبکہ عشق حقیقی میں اگر آغاز مشکلوں سے بھی ہو تو انجام جزا ہی جزا ہے۔

نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کے کچھ لوگ دنیا کو قید خانہ اور اذیت کا مقام سمجھتے ہیں اور زندگی کو عذاب تصور کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اسے تفریح گاہ سمجھتے ہیں اور زندگی کو عیش سے گزارتے ہیں۔ مگر میں ان دونوں نظریات سے اختلاف کرتا ہوں زندگی تو امتحان ہے جس تیاری کر کے ہی ہم آخرت کا انعام پا سکتے ہیں۔

دل میں کیا کیا ہوس دید بڑھائی نہ گئی
روبرو ان کے مگر آنکھ اٹھائی نہ گئی

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام حسرت موہانی ہے۔

مندرجہ بالا شعر میں شاعر محبت کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عاشق کو اپنے محبوب کے دیدار کی بہت چاہ ہوتی ہے لیکن محبوب کا دیدار بہت کم نصیب ہوا کرتا ہے۔ لیکن جب محبوب کا دیدار میسر آجاۓ تو محبت کے آداب محبوب کو دیکھنے کی خوائش پر حاوی ہو جاتے ہیں اور نظریں محبوب کے سامنے اٹھنے سے انکاری ہو جاتی ہیں۔

عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام حسرت موہانی ہے۔

مندرجہ بالا شعر میں شاعر محبت کے بندهن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں عاشق کا دل بہت نازک ہوتا۔ اس سے چاہے سارا زمانہ منہ پھیرے اسے فرق نہیں پڑتا مگر محبوب کی تھوڑی سے بے توجہی عاشق کے دل کے لئے بے قراری کا سبب بن جاتی ہے اور محبوب کے انداز کی نازکی تو سب جانتے ہیں کہ محبوب کو کب کونسی بات بری لگ جاۓ معلوم نہیں پڑتا۔ اس لئے محبت کا رشتہ جو ان دو نازک چیزوں سے مل کر بنتا ہے وہ بھی اسی اعتبار سے بہت نازک ہوتا ہے۔

صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فیض احمد فیض ہے۔

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ہم ہوا سے اپنے وطن کی غربت کا ذکر کرتے ہیں تو صبح کی آنکھوں میں بھی آنسو آنے لگتے ہیں۔ ہمارے وطن کے حالات اتنے خراب ہیں کہ صبح اور ہوا بھی ہمیں اپنے دکھ میں شامل نظر آتے ہیں۔

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فیض احمد فیض ہے۔

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب تم آتی ہو تو ہر طرف رنگ بکھر جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بہار کا موسم آگیا ہو، جب تم آتے ہو تو ہر جانب خوشبو پھیلنے لگتی ہو اور ہر جانب پھول کھل جاتے ہیں۔

سوال نمبر ۲ : حالی، اقبال ،حسرت اور فیض کی شامل نصاب غزلوں میں سے اپنی پسند کے چار شعر منتخب کیجیے اور اپنی پسندیدگی کی وجہ بھی بیان کیجیے۔

مجھے حالی کا یہ شعر پسند ہے۔

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہونیشِ عشق
رکھتی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں

اس شعر کے پسند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق محبت جیسے جذبات کو سمجھنا آسان کام نہیں ہے ہم تا اپنے جذبات کر دار بھی پہچان نہیں پاتے تو عشق کو کیا سمجھیں گے اور شاعر کہتا ہے کہ عشق جیسے جذبہ کو سمجھنے اور اس میں ڈوبنے میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ یہ کوئی لمحوں دنوں کا کام نہیں ہے اور اگر ہم ایسا سمجھتے ہیں کی ہمیں کسی سے ملتے ہی اس عشق ہوگیا ہے تو یہ صرف ہماری خام خیالی ہے۔

مجھے علامہ اقبال کا یہ شعر پسند ہے۔

احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر

اس شعر کے پسند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شعر میں شاعر اس مجازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محبت اگر مجازی ہو تو اس کے احوال بدلتے نہیں ہے، وہ وہی رہتا ہے۔ جو تکلیفیں آغاز میں آپ کو ملتی ہیں وہی تکالیف آپ کو اختتام میں بھی نصیب ہوتی ہیں۔ ہم تو بس اچھے کی امید پر رہتے ہیں۔ جبکہ عشق حقیقی میں اگر آغاز مشکلوں سے بھی ہو تو انجام جزا ہی جزا ہے۔

مجھے حسرت موہانی کا یہ شعر پسند ہے۔

عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی

اس شعر کے پسند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شعر میں شاعر محبت کے بندهن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں عاشق کا دل بہت نازک ہوتا۔ اس سے چاہے سارا زمانہ منہ پھیرے اسے فرق نہیں پڑتا مگر محبوب کی تھوڑی سے بے توجہی عاشق کے دل کے لئے بے قراری کا سبب بن جاتی ہے اور محبوب کے انداز کی نازکی تو سب جانتے ہیں کہ محبوب کو کب کونسی بات بری لگ جاۓ معلوم نہیں پڑتا۔ اس لئے محبت کا رشتہ جو ان دو نازک چیزوں سے مل کر بنتا ہے وہ بھی اسی اعتبار سے بہت نازک ہوتا ہے۔

مجھے فیض احمد فیض کا یہ شعر پسند ہے۔

رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

اس شعر کے پسند ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ جب تم آتی ہو تو ہر طرف رنگ بکھر جاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے بہار کا موسم آگیا ہو، جب تم آتے ہو تو ہر جانب خوشبو پھیلنے لگتی ہو اور ہر جانب پھول کھل جاتے ہیں۔