Back to: محمد ذیشان اکرم کے نوٹس
تنقید اور تخلیق کے باہمی رشتے کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شاعر یا ادیب فن کی تخلیق سے پہلے کسی نہ کسی مفہوم میں ناقد ہوتا ہے۔ اسی طرح ناقد کو بھی تنقید سے پہلے فن پارے میں مضمر تاثرات و تجربات سے اسی طرح گزرنا ہوتا ہے جس طرح اس فن پارے کا خالق پہلے گزر چکا ہوتا ہے۔ یعنی فنکار اپنے تجربات و تاثرات کے انتخاب اور ترتیب میں ناقدانہ عمل کرتا ہے۔ علاوہ ازیں فن کی روایت اور تکنیک سے بھی اس کی واقفیت ضروری ہے، جس کے باعث وہ خود اپنے فن پر تنقیدی نظر ڈال سکتا ہے۔
جس طرح فن کی تخلیق سے پہلے فن کار اپنے مواد کے رد و قبول اور روایت فن کے بارے میں تنقیدی عمل سے گزرتا ہے اسی طرح فن کی تخلیق کے بعد بھی اسے ناقد بننا پڑتا ہے۔ وہ خود اپنے تخلیق کردہ فن پارے کو بہ حیثیت ناقد دیکھتا ہے۔ اس کے حسن و قبح پر نظر ڈالتا ہے، اس میں ترمیم و تنسیخ کرتا ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فن کی تخلیق سے پہلے اور فن کی تخلیق کے بعد تخلیقی فن کار ناقد کا رول ادا کرتا ہے۔
ناقد کو بھی کچھ اسی قسم کی صورت حال درپیش ہوتی ہے۔ وہ تنقید کرنے سے پہلے کسی فن پارے کے مشاہدات و تخیلات ، تجربات و تاثرات سے اسی طرح گذرتا ہے جیسے فنکار گزرا تھا۔ وہ تخلیقی فن پارے کو اپنی ذات کا مکمل تجربہ بنا کر ہی اس کے حسن و قبح کا اندازہ کر سکتا ہے۔ کسی نظم کا تجزیہ کرنے سے پہلے وہ اسے اپنی ذات میں حل کر تا ہے۔ یہاں تک کہ فن کار کا تاثر اس کا اپنا تاثر اور فن کار کے جذبات اور احساسات اس کے اپنے جذبات اور احساسات بن جاتے ہیں۔ اس کے بغیر وہ فن پارے کی ہمدردانہ وضاحت نہیں کر سکتا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ناقد کو تخلیقی فن کار کی طرح مشاہدے اور تجربات کی وسعت اور جذبات کی شدت کا حامل ہونا چاہیے ورنہ وہ فن پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکے گا۔ اور اس کے لئے وہ ہمہ وقت مطالعے اور مشاہدے سے اپنے ذوق کی تربیت کرتا ہے۔ وہ فن کا ر کی طرح فن کی روایت اور تکنیک سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ اور کم از کم ہر اچھے ناقد سے ہم ان تمام صلاحیتوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
تنقید اور تخلیق کے درمیان ایک اور رابطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے مشعل راہ ہوتی ہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر کہ ان دونوں میں کسے اولیت ہے، اگر ہم ادب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ دونوں صلاحیتیں ایک دوسرے کے فروغ کے لئے ممدو معاون ہوتی ہیں۔
تنقید ی اصول ہمیشہ فنی تخلیقات کی بنیاد پر استوار ہوتے اور عظیم فن پاروں سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ مگر ایک بار جب یہ اصول وضع کر لئے جاتے ہیں تو آیندہ فنی تخلیق کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنی کتاب بوطیقا میں فن کے جو اصول پیش کئے ہیں ، وہ اس نے یونان کے عظیم ڈرامہ نگاروں کو سامنے رکھ کروضع کئے تھے۔ لیکن ارسطو کی بوطیقا صدیوں تک تخلیق فن کے لئے مشعل راہ بنی رہی اور آج بھی مستند ہے۔ بسا اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ انگلستان میں سڈنی کی تنقید کے اخلاق اور اصلاحی پہلو سے متاثر ہو کر دور ِ ایلزبتھ کے مشہور شاعر سپنسر نے اپنی تمثیل فیری کوئین لکھی۔
ہمارے اپنے ادب کے لئے آزاد کے لیکچر اورحالی کا مقدمہ اردو شاعری کی ایک انقلابی رو کی بنیاد ٹھہرے۔ آزاد اورحالی نے اپنے تنقیدی تصورات کے ذریعے اردو شاعری میں موضوع اور تکنیک کے لئے نئے راستے ہموار کئے اور اس طرح ہماری زبان میں نئے شعری تجربات کی بنیاد ڈالی۔ اس کے باوجود تنقید جلد ہی ایک قسم کا تعصب بھی بن جاتی ہے۔ معاشرے کے بندھے ٹکے اصولوں کی طرح یہ ہر فنی تخلیق کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتی ہے۔ ایسی صورت میں تخلیق ایک انقلابی رول ادا کرتی ہے۔ یعنی یہ تنقید کے پرانے اصولوں کو توڑ کر اپنے پرکھے جانے کے لئے نئے معیارات اور نئی کسوٹیاں بنواتی ہے۔
ورڈزورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ کا جو اپنے زمانے کے عظیم نقاد اور عظیم شاعر مانے جاتے ہیں،کا یہ کہنا ہے کہ ہر عظیم فن پارہ اپنے تنقیدی اصولوں کو لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ ہم کسی ایسی تخلیق کو جو فی الوقعی نئی ہو اور ساتھ کسی عظمت کی حامل ہو تنقید کی پرانی کسوٹی پر پرکھ نہیں سکتے۔ اس طرح ہمیں کسی عظیم شاعر کی عظمت دیکھنا ہو تو ہم اسے یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ آیا وہ اپنے سے پہلے کے تنقیدی اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کے لئے جواز پیدا کرتا ہے یا نہیں۔ ایسا شاعر جو اپنے زمانے کے تنقیدی اصولوں پر مکمل طور پر پورا اترے وہ اچھا شاعر تو ہو سکتا ہے عظیم شاعر نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس مقام پر ہمیں تھوڑا سا چوکنا ہو جانا چاہیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہر ایسی تخلیق کو جو محض اچھنبھا پیدا کرے یا ادب کی دنیا میں خلفشار اور انتشار کا باعث ہو عظیم شاعری کے زمرے میں شمار کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسی تخلیقات کو سرے سے فن پارہ ماننے سے انکار کر دیں اس لئے کہ تخلیق کے معنی بنانے کے ہیں ، بگاڑنے کے نہیں ، فن بنیادی طور پر تعمیری عمل ہے اور اس کا تخریب و انتشار سے کوئی تعلق نہیں۔
تحریر | محمد ذیشان اکرم |