جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا

0

غزل

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہی شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہاں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

تشریح

پہلا شعر

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہی شور ہے پھر نوحہ گری کا

میر تقی میر اکثر اخلاقی مضامین بھی اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔ یہ شعر بھی اسی نوعیت کا ہے۔ زندگی کو چونکہ ثبات(ہمیشگی) نہیں ہے، اس لیے انسان کو اس دنیا میں کسی بھی طرح کا غرور نہیں کرنا چاہیے۔ اب میر کہتے ہیں کہ جس انسان کو آج اس بات پر گھمنڈ ہے کہ اس کے پاس تاج و تخت ہے اور وہ بادشاہوں والی زندگی گزار رہا ہے اسے کیا معلوم ہے کہ وہ کل مر جائے گا اور اس کی موت پر نوحہ گری کی جائے گی۔

دوسرا شعر

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

شاعر کہتا ہے کہ اس مسافر خانے یعنی دنیا سے کوئی سلامت آخرت کا سفر نہیں کر سکتا۔ جو کچھ مال و دولت جمع کیا ہوتا ہے، راستے ہی میں لوٹ جاتا ہے۔ یعنی سب مال و متاع یہاں دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ لہذا زندگی میں آخرت کی فکر ضروری ہے کہ نیک اعمال ہی ساتھ جاتے ہیں۔

تیسرا شعر

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں دل کی بے قراری دیوانگی کی حد کو پہنچ گئی ہے۔ ہمارے شورش اور ہنگامے سے تنگ آکر ہمیں زنداں یعنی جھیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سے بھی ہماری بے قراری کم نہیں ہوئی۔ زنداں میں بھی نہ ہماری دیوانگی میں کوئی فرق پڑا اور نہ شور و ہنگامے کم ہوئے۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ اب ہماری اس دیوانگی کا سنگ باری ہی علاج ہے۔ (پرانے زمانے میں دیوانگی کو خون کی خرابی تصور کیا جاتا تھا اور وہ گندا ہونے والے کو اس کا علاج)

چوتھا شعر

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہاں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

شاعر کہتا ہے کہ ہماری ایک بار جس سے آنکھ لڑ گئی پھر اس کو حاصلِ زندگی سمجھتے ہیں۔ اسی سے آنکھ ملاتے ہیں، اسی کو دیکھتے ہیں۔ ہر کسی سے آنکھ لڑانا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ یہ چسکا تو آئینے کو ہے کہ وہ ہر کسی کو دیکھتا ہے۔ شاعر نے صنعت حسنِ تعلیل سے کام لیا ہے۔ آئینہ کے سامنے جو جائے گا وہ اس کو اس کی صورت دکھائے گا۔شاعر نے اس کی صورت دکھانے کو دیکھنے اور اس کی خصوصیت کو چسکے سے تعبیر کیا ہے۔

پانچواں شعر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں دل جوڑنے کا کام بہت نازک ہے۔اس کو شاعر شیشہ گری سے تعبیر کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ اتنا نازک کام ہے کہ تیز سانس لینے سے بھی کبھی کبھی کام بگڑ جاتا ہے۔یعنی دل ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔