Advertisement
Advertisement

غزل

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہی شور ہے پھر نوحہ گری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہاں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

تشریح

پہلا شعر

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا
کل اس پہ یہی شور ہے پھر نوحہ گری کا

میر تقی میر اکثر اخلاقی مضامین بھی اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔ یہ شعر بھی اسی نوعیت کا ہے۔ زندگی کو چونکہ ثبات(ہمیشگی) نہیں ہے، اس لیے انسان کو اس دنیا میں کسی بھی طرح کا غرور نہیں کرنا چاہیے۔ اب میر کہتے ہیں کہ جس انسان کو آج اس بات پر گھمنڈ ہے کہ اس کے پاس تاج و تخت ہے اور وہ بادشاہوں والی زندگی گزار رہا ہے اسے کیا معلوم ہے کہ وہ کل مر جائے گا اور اس کی موت پر نوحہ گری کی جائے گی۔

Advertisement

دوسرا شعر

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

شاعر کہتا ہے کہ اس مسافر خانے یعنی دنیا سے کوئی سلامت آخرت کا سفر نہیں کر سکتا۔ جو کچھ مال و دولت جمع کیا ہوتا ہے، راستے ہی میں لوٹ جاتا ہے۔ یعنی سب مال و متاع یہاں دنیا میں ہی رہ جاتا ہے۔ لہذا زندگی میں آخرت کی فکر ضروری ہے کہ نیک اعمال ہی ساتھ جاتے ہیں۔

تیسرا شعر

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں دل کی بے قراری دیوانگی کی حد کو پہنچ گئی ہے۔ ہمارے شورش اور ہنگامے سے تنگ آکر ہمیں زنداں یعنی جھیل میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سے بھی ہماری بے قراری کم نہیں ہوئی۔ زنداں میں بھی نہ ہماری دیوانگی میں کوئی فرق پڑا اور نہ شور و ہنگامے کم ہوئے۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ اب ہماری اس دیوانگی کا سنگ باری ہی علاج ہے۔ (پرانے زمانے میں دیوانگی کو خون کی خرابی تصور کیا جاتا تھا اور وہ گندا ہونے والے کو اس کا علاج)

Advertisement

چوتھا شعر

اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہاں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

شاعر کہتا ہے کہ ہماری ایک بار جس سے آنکھ لڑ گئی پھر اس کو حاصلِ زندگی سمجھتے ہیں۔ اسی سے آنکھ ملاتے ہیں، اسی کو دیکھتے ہیں۔ ہر کسی سے آنکھ لڑانا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ یہ چسکا تو آئینے کو ہے کہ وہ ہر کسی کو دیکھتا ہے۔ شاعر نے صنعت حسنِ تعلیل سے کام لیا ہے۔ آئینہ کے سامنے جو جائے گا وہ اس کو اس کی صورت دکھائے گا۔شاعر نے اس کی صورت دکھانے کو دیکھنے اور اس کی خصوصیت کو چسکے سے تعبیر کیا ہے۔

Advertisement

پانچواں شعر

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں دل جوڑنے کا کام بہت نازک ہے۔اس کو شاعر شیشہ گری سے تعبیر کرتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ اتنا نازک کام ہے کہ تیز سانس لینے سے بھی کبھی کبھی کام بگڑ جاتا ہے۔یعنی دل ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

Advertisement

Advertisement