جنگل کا کردار

0

اس کردار کو ابھی شہر میں آئے چند دن ہی گزرے تھے، کہ رات کی خاموشی میں اسے باگھ کی دھاڑتی ہوئی آواز سنائی دیتی اور وہ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔ پھر باقی تمام رات اسے اللہ اللہ کر کے گزارنی پڑتی۔ایک رات وہ خواب کی وادیوں میں یوں گم ہوا کہ اس نے خود کو اسی جنگل میں پایا،جہاں سے اس نے شہر کا رخ کیا تھا۔ اس جنگل میں وہ ان جڑی بوٹیوں کی تلاش میں آیا تھا ، جن کے بارے میں جنگل کے ساتھ والے دیہات کے ایک حکیم نے اسے بتایا تھا۔ اس کو سانس کی بیماری لاحق تھی اور یہ جڑی بوٹیاں صرف اسی جنگل میں پائی جاتی تھیں۔ اس کے باپ اور حکیم کے درمیان بہت گہری دوستی تھی۔ اسی دوستی کی آڑ میں وہ حکیم کے گھر میں بلا روک ٹوک آنے جانے لگ گیا تھا۔ حکیم کی مٹیار سے اسے عشق ہو گیا تھا اور وہ اکثر اس کے ساتھ جنگل میں نکل جاتا۔ سردی گرمی، دھوپ چھاؤں اور ہر طرح کے طوفان میں انہیں جنگل میں رات بسر کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی۔ وہ ایک شکاری باپ کا بیٹا تھااور خود بھی شکار کرنا جانتا تھا۔ دیہات والے سب اس جنگل میں رہنے والے باگھ کی دہشت سے ڈرتے تھے اور شام ہوتے ہی اپنے گھروں کو مضبوط تالے لگا لیتے۔ انہوں نے اپنے گھروں کی کچی دیواروں کو مزید اونچا کر لیا تھا کہ کسی رات وہ باگھ ان کے گھر وں میں داخل نہ ہو جائے اور ان کے جانوروں اور بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کردار اپنی مٹیار کے ساتھ جنگل میں دن رات گزارنے کا عادی ہو چکا تھا۔ اس کے پاس ہر وقت ایک نیزہ موجود ہوتا جسے اس نے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے خاص طور پر تیار کروایا تھا۔ ایک رات وہ درخت کے تنے کے ساتھ پشت لگائے، مٹیار کو کس کر اپنی بانہوں میں لیے کھڑا تھا کہ باگھ نے اس پر حملہ کر دیا۔ وہ بڑی آسانی سے باگھ کے سینے میں نیزہ اتار سکتا تھا لیکن اس کے باپ نے اسے جنگل کا قانون ہاتھ میں لینے سے روک رکھا تھا۔ اس نے بس اس قدر مزاحمت کی کہ جس سے وہ اور اس کی مٹیار باگھ کا لقمہ بننے سے محفوظ رہیں۔ اس کے بعد باگھ اس کی بہادری کو جانچ چکا تھا اور وہ کئی بار اس کے سامنے آنے کے باوجود بھی اس پر حملہ نہ کر سکا۔

اب وہ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ جنگل میں اور کوئی بھی جانور موجود نہیں ہے۔ ہر طرف باگھ ہی باگھ ہیں۔ ہر باگھ کے کئی ایک بچے ہیں۔ اچانک سے وہی باگھ اس کے سامنےآتا ہے ، جس نے ایک دفعہ پہلے بھی اس پر حملہ کیا تھا۔ لیکن اس دفعہ وہ باپ کی نصیحت بھول گیا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے باگھ کا جبڑا چیر ڈالا۔ اس کے بعد سبھی باگھ اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی۔ اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ پسینے سے شرابور تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن اور سانسیں اپنا توازن کھو چکی تھیں۔ اس کی مٹیار جنگل میں اکیلی تھی اور اسے جلدی واپس جنگل میں جانا تھا۔ وہ بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اسے جلد از جلد بھوک بھی مٹانی تھی اور اس کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا۔ اس کا جھونپڑہ حکومتی عہدیداران کے گھروں سے کچھ ہی فاصلے پر تھا۔ وہ ننگے پاؤں اس طرف جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ان گھروں کے پاس پہنچ چکا تھا۔ ایک خوبصورت بورڈ پر ایک خوبصورت جملہ “عام آدمی یہاں داخل نہیں ہو سکتا” لکھا تھا۔ اس نے اندر جانے کی بہت کوشش کی لیکن بندوق والوں نے اسے اندر داخل نہ ہونے دیا۔

اب وہ دو رویہ سڑک پر بغیر منزل کے چل رہا تھا۔ رات کے دو بجے تھے۔ سڑک ویران تھی۔ کوئی گاڑی یا کوئی آدمی اسے نظر نہیں آیا۔ ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ بہت دور سے کتوں کے بھونکنے کی آواز کبھی کبھار اس کے کانوں میں پڑتی۔ یخ بختہ ہوائیں اس کا سینہ چیر کے گزر جاتیں۔ اتنی شدید سردی میں اس کے تن پر پھٹے ہوئے کپڑے تھے۔ اچانک وہ ایک عمارت میں داخل ہوا ۔ ایک کمرے میں بڑی ساری میز رکھی تھی۔ اس میز کے درمیان بہت خوبصورت کرسی پڑی تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک تختی پر منصف لکھ کر اس نے اپنی کرسی کے پیچھے دیوار پر اس کو اونچا کر کے لٹکا دیا۔ کمرے میں وہ بالکل اکیلا تھا۔ اس کے باوجود اس نے کیس کی سماعت شروع کر دی۔ دونوں وکیل بولتے جارہے تھے اور وہ بھوک سے نڈھال کرسی پر بیٹھا سنی ان سنی کرتا جا رہا تھا۔ اچانک اس کا سر چکرانے لگ گیا۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے اچانک ایک فریق کے حق میں فیصلہ سنا دیا اور وہاں سے چلتا بنا۔

وہ کتابوں کی ایک مارکیٹ میں داخل ہوا۔ مارکیٹ زیادہ بڑی نہیں تھی۔ چند دکانوں پر مشتمل اس مارکیٹ میں کوئی پہرہ دار نہیں تھا۔ وہ ایک دکان کے تالے توڑتا ، اس میں داخل ہوتااور ہر ایک کتاب پر لکھے ہوئے اس کے مصنف کا نام کاٹ کر ، اس کی جگہ اپنا نام لکھتا اور باہر آجاتا۔ اسے غیب سے ایک آواز آتی کہ شاباش! تم بہت اچھا کام کر رہے ہو۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی پھٹی ہوئی قمیض کے کالر کو پکڑ کر پیچھے کی طرف جھٹکا دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔
مارکیٹ سے کچھ ہی دور وہ ایک آٹا مل میں داخل ہوا ۔ اس نے آٹے کی تمام بوریوں پر لکھی قیمت کو مٹا کر اس سے دگنی قیمت لکھی اور ہر بوری میں آٹے کی مقدار کو کم کر دیا۔ وہ یہ کام اتنی سرعت سے سر انجام دے رہا تھاکہ جیسے وہ انسان نہیں، کوئی فرشتہ یا جن ہے۔ یہ کام کرنے کے بعد اسے ایک عجیب سی مسرت محسوس ہوتی۔ اسے پھر غیب سے ایک آواز آتی کہ شاباش! تم بہت اچھا کام کر رہے ہو۔

اس کے پاؤں میں چھالے پڑ چکے تھے۔ اسے چلنے میں کافی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ ایک چھوٹی سی نہر پر رک کر اس نے تھوڑا پانی پیا کہ شاید اس کی بھوک میں کمی آ جائےلیکن وہ پانی بھی اس کا سینہ چیر کر نیچے اتر رہا تھا۔ نہر کو کراس کر کے وہ کچھ ہی دیر چلا تھا کہ سڑ ک کے بائیں طرف اسے ایک بہت خوبصورت یونی ورسٹی نظر آئی۔ وہ دیوار پھلانگ کر اس میں داخل ہو گیا۔ اس نے پوری یونی ورسٹی کا چکر لگایا۔ وہ ہر ایک کلاس روم میں داخل ہوتا ، کچھ دیر بیٹھتا اور باہر آجاتا۔ وہ ایک بڑے ہال میں داخل ہوا۔ اس نے ڈائس بورڈ پر ہاتھ رکھا اور آئیں، بائیں، شائیں کرتا چلا گیا۔اس پر سوالوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی لیکن وہ چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے دنیا و مافیہا سے بے خبر وہاں کھڑا رہا۔ چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتا رہا اور سنی ان سنی کرتا رہا۔ اس نے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا۔ چائے کا کپ ڈائس بورڈ پر رکھا اور باہر چلا گیا۔

اب وہ واپس اپنے جھونپڑے کی طرف جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں کناروں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ ان ڈھیروں کو بکھیرتا ، بہت زور سے سیٹی بجاتا جا رہا تھا۔ اچانک اسے ایک بہت بڑی عمارت نظر آئی۔ وہ اس میں داخل ہو گیا۔ سب لوگ ناچ گانے میں مصروف تھے۔ بہت خوبصورت عورتیں ناچ رہی تھیں اور بڑی بڑی مونچھوں والے درازقد آدمی ان پر روپوں کی بارش کر رہے تھے۔ وہاں طرح طرح کے کھانے میزوں پر سجائے گئے تھے۔ اس نے اپنی بھوک مٹانے کی خاطرہر ایک سے التجا کی کہ اسے تھوڑا بہت کھانا دے دیا جائے لیکن کسی ایک شخص نے بھی اس کی بات نہیں سنی ۔ بلکہ اس پر تھپڑوں کی بارش کر دی کہ وہ اندر کیسے آیا۔ وہ کسی طرح سے اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ اپنے جھونپڑے کے پاس پہنچنے ہی والا تھا کہ اسے بلدیہ کی ایک بہت بڑی ٹرالی کھڑی ہوئی نظر آئی۔ ٹرالی میں بچا کھچا کھانا اور گلے سڑے پھل دیکھ کر اسے لگا کہ وہ کسی جنت میں کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں جو چیز آئی اس نے اسے اپنے منہ کے راستے پیٹ میں اتارا۔ اسے پھر غیب سے آواز آئی کہ شاباش! تم بہت اچھا کام کر رہے ہو۔ اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور اپنی جھونپڑی میں چلا گیا۔ کردار کا بدن بخار کی تپش سے جل رہا تھا۔ اس کی سانس پھر سے اکھڑ رہی تھی۔ باگھ کے دھاڑنے کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ یہ آواز جنگل کے باگھ کی آواز سے کہیں زیادہ بلند اور خطر ناک تھی۔ وہ اٹھا اور پھٹے ہوئے کپڑے اپنے تن سے اتار کر پھینک دیئے۔

وہ آنکھیں بند کیے بہت تیز رفتار کے ساتھ بھاگ رہا تھا۔ جس کچی سڑک پر وہ بھاگ رہا تھا، وہ سڑک اسی جنگل کی طرف جاتی تھی، جس جنگل سے وہ شہر کی طرف آیا تھا۔ اس کے پاؤں کے چھالے پھٹ چکے تھےلیکن اسے درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سی لذت اس پر تاری تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ جنگل میں موجود تھا۔ وہاں سناٹا نہیں بلکے خاموشی تھی۔ یہ خاموشی راحت افزاء تھی۔ اس کی سانس بحال ہو چکی تھی۔ اس کی مٹیار اس باگھ کا گوشت بھون رہی تھی جس کی آواز سے وہ کبھی کبھار لرز جایا کرتے تھے۔ گاؤں کے گھروں کی تمام کچی دیواریں اب چھوٹی تھیں۔ بچے جب چاہے جنگل میں آ سکتے تھے۔ گاؤں سے جنگل کی طرف جانے کے لیے ایک خوبصورت پکی سڑک تعمیر ہو چکی تھی۔ سب گنگناتے پھر رہے ہیں!

روشنی کچھ تو ملے جنگل میں
آگ لگ جائے گھنے جنگل میں
آپ کو شہر میں ڈر لگتا ہے
ہم تو بے خوف رہے جنگل میں
ایک اک شاخ زباں ہو جائے
کوئی آواز تو دے جنگل میں
پیڑ سے پیڑ لگا رہتا ہے
پیار ہوتا ہے بھرے جنگل میں
شہر میں کان ترستے ہی رہے
چہچہے ہم نے سنے جنگل میں
شام ہوتے ہی اتر آتے ہیں
شوخ پریوں کے پرے جنگل میں
شوخ ہرنوں نے قلانچیں ماریں
مور کے رقص ہوئے جنگل میں
اب بھی قدموں کے نشاں ملتے ہیں
گاؤں سے دور پرے جنگل میں
اب بھی پھرتی ہے کوئی پرچھائی
رات کے وقت بھرے جنگل میں
خوب تھے حضرت آدم علوی
بستیاں چھوڑ گئے جنگل میں

گاؤں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت، گاؤں کے بالکل ساتھ دائیں جانب لنگر خانہ کھول دیا ہے۔ دن رات وہاں سے مسافر کھانا کھاتے ہیں۔ حفظِ ماتقدم کے طور پر تمام بچوں کو نیزہ چلانے کا فن سکھایا جانے لگا ہے۔ گاؤں میں کوئی چودھراہٹ کوئی پنچائت وغیرہ نہیں ہے۔ تمام فیصلے باہم صلاح مشورے سے کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی فرد روزگار کے لیے شہر کا رخ نہیں کرتا بلکہ کھیتی باڑی میں پناہ لی جاتی ہے۔ اب جنگل میں باگھ تو نہیں ہیں البتہ سانپ پائے جاتے ہیں۔

تحریر امتیاز احمد